بارانی کاشتکاری اور نامہربان آسمان

وادی سون میں بھی زیرِ زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے اور بارانی کاشتکاری ہر سال ایک نئے امتحان سے دوچار ہو رہی ہے


اطہر قادر حسن December 31, 2025

گزشتہ چندروز گاؤں میں گزرے ، موسم کی تبدیلیوں نے جہاں پر شہر کے باسیوں کو پریشان کر رکھا ہے، وہیں پر دیہات کے کاشتکار بھی پریشان ہیں،خاص طور پر ہم بارانی زمینوں والوں کے پاؤں زمین پر اور آنکھیں آسمان پر لگی ہوتی ہیں۔

سردیوں کا موسم گزرتا جارہا ہے ، ادھر کافی عرصہ سے بارش نہیں ہوئی اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب زمین تو اپنی جگہ دیہات میں پانی کا قدیم ذریعہ یعنی زمین کے تالاب بھی خشک ہو چکے ہیں، زمین کے اندر بھی پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیوب ویل بند ہو رہے ہیں اور پانی اس قدر گہرائی تک جا پہنچا ہے کہ ٹیوب ویل کو مزید زمین کے اندر گہرا لے جائیں تو اس پانی کو کھینچ کر باہر لانے کے لیے اتنا طاقت ور انجن کیسے چلائیں کہ اس کے لیے ڈیزل اور بجلی اس قدر مہنگی ہو گئی ہے کہ تمام فصلیں کسان کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ اتنی مہنگی فصل وہ کس منڈی میں لے جائے اور کس کو فروخت کرے جب حکومت کی جانب سے اس کی جنس کے مقرر کر دہ نرخ بھی اس کی فصل کی اصل لاگت سے کہیں کم ہوں۔ یہی صورتِ حال اگر پوٹھوہار کے دل میں واقع وادی سون میں دیکھی جائے تو بارانی زراعت کا ایک اور پہلو سامنے آتا ہے۔

قدرتی جھیلوں، نشیبی میدانوں اور زرخیز زمین کے باوجود وادی سون کا کسان بھی بارش کے رحم و کرم پر ہے۔ یہاں بارش کم ہو تو فصل ادھوری رہ جاتی ہے اور زیادہ ہو جائے تو زمین اسے سنبھال نہیں پاتی۔ جھیلوں میں پانی موجود ہوتا ہے مگر کھیت پیاسے رہتے ہیں کیونکہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور اسے زرعی استعمال میں لانے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ وادی سون میں بھی زیرِ زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے اور بارانی کاشتکاری ہر سال ایک نئے امتحان سے دوچار ہو رہی ہے ۔

ایک زمانہ تھا جب فصل خود بخود اگتی اور بار آور ہوتی تھی، یہ مرے بچپن کا زمانہ تھا، بارش ہوئی زمین سیراب ہو گئی اور جب اتنی خشک ہو گئی کہ اس میں ہل چلایا جا سکے تو منہ اندھیرے گاؤں کی گلیوں میں ہلچل پیدا ہو گئی، بیلوں کو ہانک کر کسان ہل کندھے پر اٹھائے کھیتوں کو چل پڑے، یہ شروع کے دن ہوتے ورنہ ہل اور دوسرا سامان دوسرے دن کے لیے کھیت میں ہی چھوڑ دیا جاتا، صبح دھوپ تیز ہونے تک ہل جوتا جاتا، چند دنوں میں زمین بیج کے لیے تیار ہو جاتی تو پھر ایک دن نالی پھیر دی جاتی، کسان کمر پر بندھی ہوئی چادر کی جھولی سے مٹھی بھر بھر کر بیج نکالتا اور ایک توازن کے ساتھ نالی میں ڈالتا جاتا، زمین میں نالی بھر جاتی اور بیج زمین کے سپرد ہو جاتا، زمین اپنے کاشتکار کی یہ امانت پیار کے ساتھ قبول کر لیتی، پھر چند دن بعد فصل کی سبز نرم کونپلیں زمین سے باہر نکل آتیں اور ان سے اندازہ ہوتا کہ کاشت کیسی ہوئی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فضل کرتا اور فصل کو آسمان سے خوراک ملتی رہتی تا آنکہ وہ پک کر تیار ہو جاتی، پھر اس کی کٹائی شروع ہوتی اور وہ دعائیں جو سال بھر بارش کے لیے کی جاتی تھیں، اب بدل جاتیں اور خشک موسم درکار ہوتا کہ تیار فصل خراب نہ ہو اور اس کی کٹائی وغیرہ آرام کے ساتھ ہو جائے۔یہی موسم ہوتا جب کاشتکار کہتا کہ اب تو سونے کی کنی بھی قبول نہیں، کسی مشین کی مدد کے بغیر سال بھر کی خوراک جمع ہو جاتی، گھر بھر جاتا۔ وہی زمانہ کہ جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے اور وہی زمانہ بھی کہ جیل جانے کے لیے تیار، تھوڑا بچا کھچا اور باقی ماندہ لڑائی جھگڑا کرنے کا موسم، یہ وہ زمانہ تھا جب کاشتکار بیمار نہیں پڑتا تھا، کوئی حادثہ نہ ہو عام بیماری بس ایک ہی ہوتی تھی، آخری بیماری اور ہمارا علاقہ چونکہ سرد علاقہ ہے، اس لیے بڑے بوڑھے سردیوں کے موسم میں اللہ کو پیارے ہوتے تھے۔ ہماری کاشتکاری کی زندگی میں انجن اور ڈیزل نہیں تھا، سادہ صاف ستھری خوراک اور مسلسل مشقت، بیماری کہاں سے آئے۔

اب جب ہماری کاشتکاری ماڈرن ہو گئی ہے اور زمین میں کیماوی کھاد بھی ڈالی جانے لگی ہے تو گندم وغیرہ کا ذائقہ بدل گیا ہے۔ میں زمین کا کچھ حصہ پرانے بیج اور کھاد کے بغیر کاشت کرتا ہوں اور یہ گندم لاہور میں بیٹھ کر کھاتا ہوں، اب پھر بارش نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ زمین کو جو طاقت بارش کے پانی سے ملتی ہے وہ ٹیوب ویل کے پانی میں کہاں، اس سے تو فصل کو زندہ رکھا جا سکتا ہے لیکن فصل پر جوبن بارش کا پانی لاتا ہے۔

زمین کی پیاس اپنی جگہ اب تو عام انسان بھی پیاس سے بے چین ہو رہے ہیں۔ پرانے زمانے کے کنوئیں ختم ہو گئے ہیں، تالاب غیر آباد ہو چکے ہیں اور جیسا کہ عرض کیا ہے، زیرِ زمین پانی بہت گہرا چلا گیا ہے، اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا، پانی جذب ہونے لگتا تو زمین کے اندر بھی پانی کا ذخیرہ ختم نہ ہوتا لیکن بھارت کی کامیابی کہ ہم یہ زندگی بخش منصوبہ نہیں بنا رہے بلکہ اس کے خلاف جانیں دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اب میرے گاؤں کی حالت یہ ہے زیر زمین گہرائی میں ٹیوب ویل بھی پانی کی کمی کا شکار ہیں اور گاؤں والوں کے لیے پینے کا پانی بھی وافر مقدار میں میسرنہیں ہے، اب پہلی بار پانی بکنا شروع ہو گیا ہے۔

والد صاحب بتاتے تھے کہ جب میں پڑھنے کے لیے لاہور آیا تو میری ماں نے میرے بھائی سے کہا کہ اسے خرچ زیادہ دینا، سنا ہے لاہور میں پانی بھی بکتا ہے۔ اب یہاں ماں کے گاؤں میں بھی پانی بک رہا ہے، اس پر کیا کہا جائے۔ میرے گاؤں کا مجھ پر حق ہے کہ ان کی پیاس کو محسوس کروں۔ لاہور میں پانی بہت ہے مگر میرے گاؤں میں اس کی شدید کمی ہے، اس لیے میں ذاتی طور پر پانی کی کمی کو محسوس نہیں کرتا لیکن گاؤں میں لوگ پانی کو یاد کرنے لگے ہیں۔یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔

میں اپنے ٹیوب ویلوں کو چلانے والوں سے اکثر درخواست کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کو پانی دیں لیکن جواب میں مہنگی بجلی اور ڈیزل میری اس درخواست کے آڑے آجاتا ہے۔ وہ وقتی طور پر تو ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن میرے گاؤں سے واپس ہوتے ہی ان کو مہنگی بجلی تنگ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ہماری حکومتوں کو اپنی باہمی لڑائیوں سے فرصت ملے تو انھیں کوئی دوسرا کام سوجھے اور ان کو یہ معلوم ہو کہ ان کے پیاسے ووٹر کہاں جائیں، وہ تو صرف کسانوں کو خوبصورت ناموں والے پروگراموں کے ذریعے مزید قرض کی مئے پلا رہے ہیں۔

مقبول خبریں