کراچی اور پانی کی نایابی

واٹر کارپوریشن کے افسروں نے اپنے نظام کی خرابی کی ذمے داری بجلی کی معطلی پر غلط عائدکی ہے۔



ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کے باسی پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ ہر مہینہ پندرہ دن میں الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے یہ سرخیاں شہریوں کو عذاب میں مبتلا کرتی ہیں کہ کراچی الیکٹرک نظام کے کریک ڈاؤن کی بناء پر دھابیجی، گھارو اور حب ڈیم سے پانی کی سپلائی بند ہوگی۔ یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ بجلی کی سپلائی معطل ہونے سے پائپ لائن پھٹ گئی، یوں اگلے 24 گھنٹوں کے دوران شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی دستیاب نہیں ہوگا۔

بعض اوقات کے الیکٹرک کے افسر واٹرکارپوریشن کی اس خبرکی تردید کرتے ہوئے، یہ بیانیہ اختیارکرتے ہیں کہ بجلی کی سپلائی بند نہیں ہوئی تھی۔ واٹر کارپوریشن کے افسروں نے اپنے نظام کی خرابی کی ذمے داری بجلی کی معطلی پر غلط عائدکی ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ صدی کی 80 ویں دہائی سے جاری ہے اور حقائق ظاہرکرتے ہیں کہ اس صورتحال میں تبدیلی کا مستقبل میں کوئی امکان نہیں ہے۔ شہرکے مختلف علاقوں میں واٹر کارپوریشن کے پرانے پمپنگ اسٹیشن پانی کو گھروں، دفاتر اور صنعتی اداروں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، مگر ان پمپنگ اسٹیشن کی بجلی بند ہونا معمول کی بات بن گئی ہے۔

ایک بڑے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں تحریرکیا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتہ نارتھ ایسٹ پمپنگ اسٹیشن کی بجلی اچانک بند ہوگئی اور اگلے 21 گھنٹوں تک بجلی کی لائنیں بے جان پڑی رہیں، جس کی بناء پر نہ صرف اسکیم 33 میں پانی کی سپلائی معطل ہوئی بلکہ شہرکو اچانک 15 ملین گیلن کمی کی سامنا کرنا پڑا۔ اس پورے علاقے میں جو مکین صاحب ثروت تھے، انھوں نے تو ٹینکروں سے پانی خریدا۔ کچھ لوگوں نے بورنگ کا پانی حاصل کیا مگر پھر کے الیکٹرک ترجمان نے وضاحت کی کہ اس علاقے میں بجلی کی سپلائی معطل نہیں ہوئی تھی، واٹرکارپوریشن کے اندرونی نظام میں ایک بڑی خرابی پیدا ہوئی تھی، جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال اس صورتحال کا نہ تو حکومت سندھ نے کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی نیپرا نے حقائق کو جاننے کی کوشش کی۔

بلدیاتی امورکی رپورٹنگ کرنے والے صحافی کا کہنا ہے کہ واٹرکارپوریشن کے مرکزی دفتر، محکمہ بلدیات کے سیکریٹریٹ اور سندھ کی تمام اعلیٰ شخصیتوں کے دفاتر اور ان کے گھروں میں جدید جنریٹر اور سولر سسٹم نصب ہیں، جس کے اخراجات حکومت سندھ برداشت کرتی ہے مگر پانی کی فراہمی کے سب سے اہم منصوبوں میں کن وجوہات کی بناء پر بجلی کا متبادل نظام نہیں ہے۔ متعلقہ حلقوں نے اس بارے میں وضاحت نہیں کی، نہ کبھی سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بیانیہ پیش نہیں کیا گیا کہ نلکوں میں پانی کیوں نہیں آتا اور ٹینکروں والے کہاں سے پانی حاصل کرلیتے ہیں؟ اس صدی کے آغاز پرکراچی میں پانی کی فراہمی کے لیے The Greater Karachi Bulk Water Supply Scheme (K-IV) Augmentation کا منصوبہ 2021 ء میں شروع ہوا تھا۔

اس منصوبے کے تحت کراچی شہر کو تین مرحلوں میں روزانہ 650 ملین گیلن پانی فراہم ہونا تھا مگر یہ منصوبہ 14 سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوا۔ اس منصوبے میں کام کرنے والے ایک اعلیٰ افسر نے ایک دفعہ صحافیوں کو خوش خبری سنائی تھی کہ 2025 میں یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا، مگر اب سال 2025 ختم ہوچکا۔ عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے جو اس منصوبے کی سب سے بڑی ڈونر ہے، مایوس کن رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس منصوبہ سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے 40 بلین روپے کی ضرورت ہے مگر وفاقی حکومت نے منصوبہ کے لیے اس مالیاتی سال کے بجٹ میں 3.2 بلین روپے مختص کیے تھے۔ واٹرکارپوریشن کے ریٹائرڈ انجنیئروں کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو اگلے دس سال میں بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوگا۔

 محمد توحید کا شمار ملک کے چند اربن پلاننرز میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے مضامین کی کتاب ’’ کراچی، عوام دوست منصوبہ بندی کی بنیاد ‘‘ میں لکھا ہے کہ شہر کی آبادی بڑھنے کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت پانی کی طلب میں اضافہ کا باعث ہے مگر دوسری جانب آبی ذرایع، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے وسائل اور صلاحیتیں محدود تر ہوتی جارہی ہیں۔ ان تمام عوام کو یکجا کیا جائے تو کراچی میں عام لوگوں کا ایک بڑا مسئلہ پانی کی کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2017میں کراچی واٹرکارپوریشن نے عدالتی کمیشن کے سامنے جو اعداد و شمار جمع کرائے تھے، ان اعداد و شمارکے مطابق شہرکی کل طلب کا تخمینہ 1.188 ملین گیلن یومیہ تھا، جس کے مقابلے میں 55 فیصد یعنی 650 ملین گیلن پانی شہریوں کے لیے دستیاب تھا۔

اس وقت پانی کی طلب 54 گیلن یومیہ بتائی گئی مگر کچھ برسوں بعد پانی کی ضرورت 1100 ملین گیلن یومیہ تک پہنچ گئی مگر واٹر کارپوریشن ایسی بدانتظامی کا شکار ہے کہ جس کا نقصان شہر کو پہنچ رہا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ واٹر بورڈ کا عملہ مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا شکار ہے۔ یہ عملہ مختلف طریقوں سے پانی فروخت کرتا ہے۔

کراچی کے شہریوں نے زمین میں بورنگ کے ذریعے پانی حاصل کرنے کا آسان طریقہ اختیارکیا ہے مگر صحتِ عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پانی صحت کے لیے قابلِ استعمال نہیں اور اس طرح بورنگ کے پانی کی بناء پر عمارتیں زمین میں دھنستی جارہی ہیں۔ واٹر کارپوریشن کے ایک ریٹائرڈ سیکریٹری کا کہنا ہے کہ اگر صرف واٹر مافیا کے خلاف تحقیقات کرائی جائیں تو بہت سے ایسے حقائق سامنے آئیں گے کہ اسلام آباد تک اس دھماکا سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ شہریوں کو کب صاف پانی ملے گا، اس سوال کا جواب کس کے پاس ہے؟

مقبول خبریں