جلا وطن مان جائیں گے
پرنس کریم نے 2008ء کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا اور وہ نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ کے رکن بھی تھے،۔۔۔
یہ 2006ء کا ذکر ہے۔ پاکستان پر جنرل پرویز مشرف کا حکم چلتا تھا کہ بلوچستان کے معروف ترین قبائلی لیڈر، جو وزیر اعلیٰ بھی رہے تھے اور گورنر بھی، جناب اکبر خان بگٹی قتل کر دیے گئے۔ سب سناٹے میں آ گئے۔ غصے اور انتقام کے جذبات تلے خان آف قلات آغا سلیمان داؤد خان نے پاکستان چھوڑا اور خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے برطانیہ میں پناہ لے لی۔ اب بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بیک زبان اور متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے کہ آغا سلیمان داؤد صاحب کو وطن واپس لایا جانا چاہیے تا کہ وہ بلوچستان کے دگرگوں حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
اس قرارداد کے محرک جے یو آئی (ف) کے رکنِ اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران تھے۔ اس کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے جو آغا سلیمان داؤد صاحب اور دیگر خود ساختہ جلا وطن بلوچ لیڈروں سے رابطہ کر کے انھیں وطنِ عزیز میں لانے اور بسانے کے لیے کوششیں بروئے کار لاتی رہے گی۔ سردار عبدالرحمن کھیتران صاحب نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں اتحادی حکومت کو اٹھارہ ماہ گزر گئے ہیں لیکن کسی نے بھی یہ تکلیف گوارا نہ کی کہ خان آف قلات اور دیگر ناراض بلوچ لیڈروں سے ملاقات کرتے تا کہ انھیں قومی دھارے میں پھر سے شامل کیا جا سکتا۔
اپریل 2012ء میں بھی یہ خبر گردش میں آئی تھی کہ خان آف قلات آغا میر سلیمان داؤد احمد زئی وطن واپس آنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ اس خبر کا ماخذ ان کے اپنے صاحبزادے آغا محمد احمد زئی تھے لیکن ''ہز ہائی نیس'' سلیمان داؤد نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا کوئی ایسا ارادہ ہے نہ گزشتہ دو برسوں سے ان کی احمد زئی سے کوئی بات چیت ہی ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا تھا کہ ان کا بیٹا حکومت نواز بلوچ نواب (میر عالی بگٹی) کے زیرِ اثر ایسی خبریں پھیلا رہا ہے۔ اسی سانس میں سلیمان داؤد صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ بلوچستان میں وہ نوجوان جو ''آزاد بلوچستان'' کے لیے جنگ کر رہے ہیں، وہی دراصل ان کے بیٹے ہیں۔
خان آف قلات جناب سلیمان داؤد گزشتہ آٹھ برسوں سے لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کے دن گزار رہے ہیں۔ اس دوران انھوں نے لندن ہی میں بلوچستان کی ''آزاد حکومت'' بنانے کی کوششیں بھی کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ لندن روانہ ہونے سے قبل بھی انھوں نے اس ''آزاد حکومتِ بلوچستان'' کے قیام کے لیے اپنے ہاں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بلوچ وڈیروں کا ایک جرگہ بلا کر اس بارے میں مشورہ کیا تھا لیکن یہ دیکھ کر ان کا دل کھٹا ہو گیا کہ وہ اس آرزو میں یک و تنہا ہیں۔ یہ ''دل شکنی'' بھی ان کی خود ساختہ لندن جلا وطنی کا باعث بنی جہاں سے وہ مبینہ طور پر بلوچستان کے مرکزِ گریز عناصر کو اشیرواد دیتے رہے۔
یہ حقیقت مگر حیرت خیز ہے کہ قلات کے یہ بڑے صاحب خود تو مبینہ طور پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں لیکن ان کے شاہی خاندان کے کئی لوگ حقیقت شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور پاکستان کے وسیع تر فریم میں عام انتخابات میں حصہ بھی لیتے رہے اور بلوچستان حکومتوں میں وزارتوں کے قلمدان بھی سنبھالے رہے۔ مثال کے طور پر پرنس آغا عرفان کریم صاحب اور پرنس عمر داؤد خان صاحب۔ دونوں حضرات کا تعلق جناب سلیمان داؤد خان احمد زئی کے خاندان سے ہے۔ دونوں مذکورہ افراد نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں قلات ہی کے دو حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیا۔
پرنس کریم نے 2008ء کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا اور وہ نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ کے رکن بھی تھے، اگرچہ صوبائی وزیر ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے وزیر اعلیٰ رئیسانی صاحب کے سخت ناقد بھی رہے۔ پرنس کریم صاحب کی اہلیہ محترمہ بلوچستان اسمبلی کی رکن بھی رہی ہیں اور صوبائی وزیر بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خان آف قلات میر آغا سلیمان داؤد خان بوجوہ حکومتِ پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ سے ناراض اور نالاں ہیں تو دانشمندانہ اور مصلحانہ طریقے سے ان کی ناراضی ختم کر کے انھیں قومی دھارے میں واپس لایا جا سکتا ہے۔
برطانیہ میں بیٹھ کر جناب سلیمان داؤد احمد زئی ''کچھ نہ کچھ'' ضرور ایسا کرتے رہے ہیں کہ پاکستانی حکومتیں اور حساس ادارے ان سرگرمیوں کو ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھتے۔ تقریباً تین سال قبل کوئٹہ میں ان کے ایک قریبی عزیز، آغا محراب خان، کا نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوا تو سلیمان داؤد صاحب سخت طیش میں آئے اور اس کی ذمے داری ''ایف سی'' پر ڈال دی۔ غالباً اس سانحہ کا بھی ردعمل تھا کہ 2013ء میں سویڈن کے دارالحکومت، اسٹاک ہولم، میں ایک روزہ سیمینار ہوا (جس کا انتظام مغربی ممالک میں سیاسی پناہ یافتہ چند بلوچ لیڈروں نے کیا تھا) تو سلیمان داؤد خان لندن سے سفر کر کے وہاں پہنچے اور نہایت سخت الفاظ میں پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دل کی بھڑاس نکالی۔
اس سیمینار میں داؤد صاحب کے علاوہ بلوچ ''لیڈر'' ہربیار مری نے بھی شرکت کی تھی۔ سویڈن، برطانیہ، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور امریکا میں ہونے والے نام نہاد جلسوں، جن میں گنے چنے بلوچ ''لیڈر'' شریک ہوئے، میں ہربیار مری اور میر سلیمان داؤد صاحب نے پاکستان کی سلامتی اور یک جہتی کے خلاف جو اسلوبِ گفتگو اختیار کیا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالباً انھی وجوہ کی بنا پر آج کے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک صاحب ان ناراض عناصر کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ورنہ وہ تو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہوں گے کہ غیر ممالک میں خودساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے یہ سب لوگ اپنے وطن پاکستان تشریف لائیں اور ملکی سیاست و معیشت میں اپنا کردار ادا کریں۔
واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان کے حالات کو بگاڑنے میں جہاں بھارت کی لگائی بجھائی اپنا اثر دکھا رہی ہے، وہیں امریکا بھی جلتی پر تیل چھڑک رہا ہے۔ مثال کے طور پر فروری 2014ء میں امریکی کانگریس کے تین ارکان نے ہربیار مری اور میر سلیمان داؤد خان سے ملاقاتیں کر کے ان کی جس انداز میں حوصلہ افزائی کی، پاکستان اسے کیسے اور کیونکر ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتا ہے؟ اسی طرح سوئٹزر لینڈ میں سیاسی پناہ یافتہ مہران مری (خیر بخش مری کا سب سے چھوٹا بیٹا) اور براہمداغ بگٹی نے پاکستان کے خلاف جو محاذ کھول رکھا ہے، اس سے صرفِ نظر کرنا پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے لیے ممکن نہیں۔
خان آف قلات میر سلیمان داؤد کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاستِ قلات کے وارث اور بادشاہ ہیں۔ اس کے لیے وہ ''ہیگ'' میں عالمی عدالتِ انصاف کے دروازے پر دستک دینے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہ یہ حقیقت ماننے سے انکاری ہیں کہ اب وقت کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ ان بدلے حالات میں وہ اگر بلوچستان اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کے تحت اپنے وطن آ جاتے ہیں تو ان کا ہر جگہ خیرمقدم بھی کیا جائے گا اور برطانیہ کے شہر کارڈف سے کہیں زیادہ ان کی یہاں عزت ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے منتخب ارکان کی محبتوں کے برعکس جناب سلیمان داؤد چاہتے کیا ہیں؟ اس کا کھوج لگانے کے لیے ان کے ایک طویل انٹرویو کا پھر سے مطالعہ کرنا ہو گا۔ یہ انٹرویو برطانیہ کے مشہور اخبار ''دی انڈی پینڈنٹ'' میں مارچ 2009ء کو شایع ہوا تھا۔ اس کی شہ سرخی یوں تھی: From Pakistan to Cardiff: The King of Kalat تحمل و صبر سے اگر اس مفصل انٹرویو کو پڑھا جائے تو خان آف قلات کے بہت سے ارادوں، بہت سی تمناؤں سے آشنائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ان کی بے بسی و بے کسی کا عالم دیکھئے کہ وہ کبھی قلات میں مہنگے سنگِ مرمر سے بنے سنورے محلات میں رہتے تھے اور آج وہ برطانیہ کے ایک چھوٹے سے شہر ''کارڈف'' میں صرف تین چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یقینا انھیں وطن یاد آتا ہو گا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ ضد چھوڑ کر اپنے خوبصورت آبائی علاقے میں دوبارہ آبسیں؟