بات کچھ اِدھر اُدھر کی میں بھی تو کباڑی ہوں

آخرکب تک معصوم بچے ذلت کی زندگی بسرکرتے رہیں گے؟ اب تک کے حالات کے تناظرمیں اِس سوال کا جواب ملنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔


ہدایت الرحمٰن November 14, 2014
ہمارے ارد گرد ایسے لاکھوں بچے ہیں جن کے کمزور کاندھوں پر گھروالوں کی کفالت جیسے بھارت ذمہ داری اُن کو تعلیم سے محروم کردیتی ہے۔ لیکن اِس مسئلہ کا حل ہے اور حل حکومت کے پاس ہوتا ہے مگر اِس کے لیے اہلیت کی شدید ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

جنید کوساتھ لے کر سکول میں داخل ہو ا تو بریک ٹائم جاری تھا ۔بچے کھیل اور گپ شپ میں مصروف تھے، میں سکول دفتر کی طرف بڑھا تو پیچھے سے آوازیں آنے لگی، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بچے مجھ سے مخاطب ہیں۔

بچے بار بار پکاررہے تھے کہ 'اے کباڑی رک جا' ، بچوں کے بار بار کہنے پر میں نے رک کر پیچھے دیکھا تو پکارنے والوں نے فوراً کہا،'ہم آپ کو نہیں آپ کے ساتھ کھڑے جنید سے کہہ رہے ہیں'۔ میں نے جنید کی طرف دیکھاتو اُس کا چہرہ سرخ اور آنکھیں نم زدہ تھیں ۔ جنید نے ہچکچاتے انداز میں مجھ سے کہا کہ سر۔۔ سر ۔۔۔میں اِن سے بار بار کہہ رہا ہوکہ مجھے کباڑی نہ کہیں مگر پھر بھی روزانہ مجھے اِس نام سے پکارتے ہیں جس سے میں سخت تنگ ہوں ۔

جنید کی آواز آہستہ مدھم ہوتے ہی وہ رونے لگ گیا ۔ میں نے آگے بڑھ کر سینے سے لگایا جیب سے رومال نکال کر اُس کے معصوم چہرے کو اشک کے قطروں سے خشک کیا لیکن جنید مسلسل روتا ہوا اپنے احساس کمتری کاشکار دل کے آنسو بہا رہاتھا۔ میں نے بچوں کے جملے بازی سے بچنے کیلئے جنید کی کان میں سرگوشی کی،'بیٹا! میں بھی تو کباڑی ہوں ۔۔ نا، یہ جملہ سنتے ہی جنید کاچہرہ مسکراتے ہوئے پُررونق ہوگیا اور تعجب بھرے انداز میں مجھے دیکھنے لگا، پھر میں اس کا ہاتھ تھام کر پرنسپل دفتر کی جانب روانہ ہوگیا۔

یہ جنید کا سکول میں پہلا قدم ہے جو اسے بہت اجنبی لگا۔ بچوں کا ہنسنا ، مسکرانا، اُن کا اچھے کپڑے پہن کر اسکول آنا، یہ سب جنید کے لیے بہت اجیب اور حیران کن تھا۔

جنید بچپن کے ابتدائی سالوں میں شفقت کے سائے سے محروم ہوگیا تھا۔ وہ تین بہنوں کا اکیلا بھائی ہے اور اُس کے سر پر ماں اور تین بہنوں کا بوجھ تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کے تلخیاں لمحات گزارنے پر مجبور ہے۔ اِن تلخیوں کے درمیاں جنید روزانہ کی بنیاد پر جب بچوں کو اسکول کمر پر بستہ باندھے، صاف ستھرے کپڑے پہنے سکول پہنچتے دیکھتا تو اُس کا دل اُداس ہوجاتا کہ اگر چہ وہ بھی اسکول جاتا ہے مگر پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی خالی بوری کمر پر رکھ صفائی کے لیے، جہاں روز روز اسکول میں زیرِ تعلیم بچے اُسے کباڑی کہہ کراُسکا مذاق اُڑاتے ہیں۔

میری جنید کیساتھ پہلی ملاقات عید کے بعد ہوائی تھی جب چائلڈ پروٹیکشن پراجیکٹ والوں کے کہنے پر ان کے سینٹر گیا تھا جس کے بعد مستقل طور پر سینٹر جانے کا ارادہ کرلیا۔ یہ ادرہ نومبر2012 میں پشاور میں کھولا گیا تھا جس میں معاشرے میں کباڑی کے نام سے مشہور بچے آکر آپنے آپ سے کباڑی کی چھاپ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جنید بھی ان بچوں میں سے ایک تھا ۔آج دفتر سے جنید کو باقاعدہ طور پر سکول داخل کرانے کا حکم ملا تھا۔

سوال تو یہ ہے کہ آخر کب تک یہ معصوم بچے اسی طرح ذلت کی زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ اب تک کے حالات و واقعات کی موجوگی میں اِس سوال کا جواب ملنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

پشاور میں صرف جنید نہیں ہے جو اس وقت زندگی کی تلخیوں کا سامنا کررہا ہے بلکہ وطن عزیز میں اِس طرح کے کئی جنیدہیں جو اس نظام میں عزت کے لائق نہیں سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کیلئے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کیلئے تو بہت نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن افسوس کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی یہ عملی شکل بننے کے بجائے نعرے ہی رہ جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل 'پڑھو اور زندگی بدلو' کے عنوان سے صوبائی حکومت نے ایک مہم شروع کی ہے۔ اِس مہم کے مطابق صوبے کے ساڑھے 7 لاکھ بچوں کا داخلہ اسکولوں میں کروایا جائے گا اور سرکاری اسکولوں کو نجی اسکولوں کے معیار پر لایا جائے گا۔ اگرچہ ارادہ اور اعلان قابل تحسین ہے مگر وہ اعلان ہی کیا جس پر عمل نہ ہو۔ ہمیں اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ تعلیم ہی اصل زیور ہے اور اِس سے ہربچے کو لیس ہونا چاہیے مگر جناب جس بچے کے کمزور کاندھوں پر گھر کی ذمہ داری کا بھاری بوجھ آجائے بھلا وہ کیا کرے؟ اگر آپ کے شروع کردہ تعلیمی مہم کا حصہ بن جائے گا تو پھر اُس کا چولہ کیسے جلے گا؟ لہذا دست بستہ گزارش ہے کہ صوبے کے ہر بچے کو تعلیم سے استوار ضرور کیجیے مگر اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا بھی بندوبست کیجیے کہ سانس ہے تو جہاں ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں