سیاست کے بگڑتے انداز
عمران خان نو وارد ہے اور کسی جماعت کی قیادت میں تو وہ بالکل ہی اناڑی ہے چنانچہ اسے ایسے کئی صدمے برداشت کرنے ہوں گے۔
ایک بھرے ہوئے بڑے جلسے میں ایک مشہور اور سینئر سیاستدان کی تقریر سن کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں حاضرین سے وہ کچھ کرنے کو ننگے الفاظ میں کہہ دیا جسے آج کا مقرر اور حاضر بھی بولنے سننے کے لیے تیار نہیں اور اسے سن کر حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کیا کسی جلسہ عام میں ایسا بھی ہوسکتا ہے اسی جماعت کے دوسرے جلسے میں لیڈر نے سرگوشی میں کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اسے دہرایا نہ جائے، خود مقرر نے بھی اپنی تقریر میں گزشتہ جلسے کی تقریر واپس تو نہ لی کہ اس کی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن انھوں نے اپنی اس تقریر کو رات گئی بات گئی کے انداز میں رفت و گذشت کردیا اور اپنے لیڈر عمران خان کی شرمندگی پر کچھ مٹی ڈال دی۔
عمران خان نو وارد ہے اور کسی جماعت کی قیادت میں تو وہ بالکل ہی اناڑی ہے چنانچہ اسے ایسے کئی صدمے برداشت کرنے ہوں گے، اب وہ زمانے گئے جب مقرر اپنے سینئر ساتھیوں سے پوچھ لیتے تھے کہ اگر میں یہ جملہ تقریر میں بول دوں تو غلط تو نہیں ہو گا بلکہ میں نے تو ایک بار مولانا مودودی جیسے جید اور مہذب شخص کو اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے خود سنا کہ میں اگر تقریر میں یہ کہہ دوں کہ جماعت اب لوہے کا چنا ہے جسے چبایا نہیں جاسکتا تو آپ کا کیا خیال ہے۔
ایک تو جلسہ عام کی یہ تقریر تھی جس کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے جس پر اس پارٹی کا قائد بھی شرمندہ ہو گیا تھا دوسری ایسی ہی ناقابل یقین وہ گفتگو تھی جو میں نے ٹی وی پر سنی یہ سیدھی گالیاں تھیں جن کا مخاطب اس قدر مہذب اور شائستہ تھا کہ وہ یہ سب گالیاں سن کر برہم نہ ہوا اور پروگرام میں بیٹھا رہا ورنہ آجکل کسی سخت بات پر لوگ پروگرام چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
ایک جلسہ عام کی تقریر، دوسری ٹی وی پر گفتگو یہ دونوں کا حوالہ میں نے اس لیے دیا ہے کہ قارئین کو نئے دور کی سیاست کا اندازہ ہو سکے کہ ہم کس قدر گر گئے ہیں اور گرتے چلے جا رہے ہیں یہ گراوٹ کہاں جا کر پاتال سے ٹکرائے گی اس کا اندازہ شاید مشکل نہیں کیونکہ ان دنوں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ہمیں یہ سب سننے اور دیکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ اب زمانہ بہت بدل گیا ہے اور مسلسل بدلتا جا رہا ہے۔
یہ سب دیکھتے سنتے ہوئے مجھے بہت کچھ یاد آیا۔ میں ایک مدت سے عملی سیاست کو دیکھتا آ رہا ہوں۔ میں نے اپنی اخباری رپورٹنگ کے زمانے میں بڑے بڑے سیاستدانوں اور سیاسی جلسوں جلوسوں کو دیکھا ہے لیکن ان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کسی جلسے کو گویا اپنے گھر کی کوئی تقریب سمجھتے تھے جس کے احترام میں وہ سوچ سمجھ کر بولتے تھے کیونکہ ان کے جلسوں میں بزرگ بھی ہوتے تھے اور پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین بھی، اور جلوس جو جلسوں کے مقابلے میں آزاد ہوا کرتے تھے اور جن میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے تھے ان پر اگرچہ کسی سیاسی جماعت کا مکمل کنٹرول نہیں ہوتا تھا لیکن جو جماعت کسی جلوس کا اہتمام کرتی تھی اس کے کارکن حتیٰ الوسع جلوس کو آوارہ نہیں ہونے دیتے تھے۔
لاہور کا ایک جلوس یاد آ رہا تھا جس کے روٹ میں اس شہر کا ایک بازار اور مشہور سڑک بیڈن روڈ آتی تھی یہاں دکاندار جن میں پھل فروٹ بیچنے والے بھی ہوتے تھے وہ اپنا سامان اکثر دکانوں کے سامنے فٹ پاتھ پر رکھ دیتے تھے چنانچہ جلوس کے منتظمین نے یہ اہتمام کیا کہ ان دکانوں کو محفوظ رکھا جائے اس لیے جلوس کے رضا کار اور متعلقہ سیاسی جماعت کے کارکن ان دکانداروں کے پاس گئے اور ان کو تسلی دی کہ فکر نہ کریں جلوس سے آپ کا سامان محفوظ رہے گا آپ حسب معمول سامان بے شک باہر دکانوں کے سامنے لگائیں اور یہی ہوا جلوس اپنے روایتی جوش و خروش کے ساتھ بیڈن روڈ سے گزر کر ریگل چوک پر پہنچا لیکن دکانوں کا سامان بالکل محفوظ رہا، پھل فروٹ کو کسی نے دیکھا تک نہیں۔
جلوس میں گڑ بڑ ہوئی تھی مثلاً مخالف کسی جلسے میں کوئی بھینس چھوڑ دیتے تھے یا سانپ سانپ کا شور مچاتے تھے افراتفری ضرور پھیلتی تھی اور اکثر ایسے جلسے دوبارہ شروع ہو جاتے تھے لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔ جہلم کے تحریک انصاف کے جلسے میں ایک گروہ پر جو جلسے میں آرہا تھا حملہ ہوا کئی زخمی بھی ہو گئے لیکن ماضی میں ایسے واقعات شاذونادر ہی ہوا کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے ایک جلسے میں گولی چلی اور ایک کارکن اللہ بخش شہید بھی ہوگیا لیکن جلسہ جاری رہا جب کسی نے مقرر مولانا مودودی سے کہا کہ آپ اب بیٹھ جائیں تو انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ''اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا'' برصغیر اور پھر پاکستان میں سیاسی جلسوں جلوسوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
برطانوی حکومت سے آزادی کے لیے سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ تحریک خلافت میں بھی ایک ہنگامہ برپا رہا پھر پاکستان کی سیاسی زندگی میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا جو کسی نہ کسی مسئلے پر اب تک جاری ہے لیکن اس میں تشدد اب شروع ہوا ہے اور انسانی جانوں تک کو خطرہ لاحق ہوا ہے جس سے سیاسی زندگی بدصورت ہو گئی ہے ورنہ سیاست نظریاتی لوگوں میں رائج رہی جو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے سیاست کرتے رہے اور اس پر زبردست محنت بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اپوزیشن کا سیاسی دور ان کی شبانہ روز محنت کا نمونہ تھا۔
وہ اپنے ہوٹل سے سڑک پر سوار ہوتے تھے اور لاہور شہر کے بازاروں اور چوکوں میں تقریریں کرتے ہوئے صبح شام کر دیتے تھے ان کے پاس صرف پانی ہوتا تھا اور بس کھانا وہ رات کو واپس جا کر کھاتے تھے۔ ان کا یہ سیاسی سفر میں نے بار بار دیکھا اور میری طرح عام لاہوری بھی حیران ہوتے رہے۔ ایک تو بھٹو صاحب کے نعرے اور وعدے دوسرے ان کی محنت اور تیسری ان کی پنجابیوں کے لیے ایک دلچسپ شخصیت انھوں نے پنجاب کو جیت لیا اور اسی پنجاب کے ووٹوں پر انھیں اتنی نشستیں ملیں کہ وہ بعد میں جب وزیراعظم بننے لگے تو ان کے مقابلے میں مغربی پاکستان یعنی پاکستان میں اور کوئی نہ تھا ورنہ ان کے صوبے سندھ میں تو انھیں اکثریت نہیں مل سکی تھی۔
ان کے جلسوں جلوسوں میں کبھی کوئی گڑ بڑ نہ ہوئی مخالفانہ نعرے بازی جاری رہی لیکن ان کے حاضرین پر کوئی حملہ نہیں ہوا مگر اب یہی پاکستان ہے ماضی کیطرح ملتے جلتے مسائل ہیں اور کئی پرانی سیاسی جماعتیں بھی زندہ ہیں بہت کچھ وہی ہے لیکن سیاست میں ایسے لوگ آگئے ہیں جو بے باک نہیں منہ پھٹ ہیں اور سیاسی بدتمیز ہیں۔ سیاست کے ماحول میں یہ تبدیلی اگر سیاسی کے معروف دائرے میں رہے تو غنیمت ہے ورنہ مایوس سیاستدان اس کو خراب کر دیں گے اور دشمنوں میں گھرا ملک شدید پریشان ہو جائے گا۔