یہ ہندو مسلم بلوے کا قصہ نہیں

’دکھیارے‘ نثر میں ایک ایسا شہر آشوب ہے جسے پڑھتے جائیے اور آنچل یا آستین سے آنکھیں خشک کرتے جائیے‘


Zahida Hina November 23, 2014
[email protected]

''دکھیارے'' کہنے کو ایک مختصر سا قصہ ہے لیکن کتنے ہی پیچیدہ سوال اٹھاتا ہے ۔ بٹوارے کے بعد لکھنو کا شہر آشوب'انیس اشفاق کے قلم سے نکلا جسے انھوں نے 'دکھیارے' کا نام دیا ۔ یہ اس لکھنو کا قصہ ہے جس نے زوال کا زہر پی لیا اور اب اس کی نبضیں چھوٹ رہی ہیں ۔

اسے لکھنے کے لیے انھوں نے کتنے آنسو بہائے ہوں گے اور کتنی ہچکیاں ضبط کی ہوں گی'اس کا حساب وہی دے سکتے ہیں ۔ میں تو اتنی سی بات جانتی ہوں کہ جب میں اسے پڑھ رہی تھی تو سنہ 69ء اور سنہ 74ء کا ذکر پڑھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ ہندو مسلم بلوے کا قصہ نہیں ، شیعہ سنی فسادات کا معاملہ ہے ، جس میں ہندو ایک طرف ہوکر ہمارے اخلاقی زوال کا تماشہ دیکھتے رہے ۔ ہم لکھنؤوالوں کو کیا کہیں کہ ان معاملات میں ماشااللہ ہم بھی خود کفیل ہیں ۔ہزارہ برادری کے 99 بے گناہ مار دیتے ہیں' تو وہ جو ایک ہمارے ہاتھوں ذبح ہونے سے رہ گیا'اسے ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔

'دکھیارے' نثر میں ایک ایسا شہر آشوب ہے جسے پڑھتے جائیے اور آنچل یا آستین سے آنکھیں خشک کرتے جائیے' شرط صرف اتنی سی ہے کہ اس تہذیبی شہر کا عشق آپ کی نس نس میں اترا ہو ا ہو ۔یہ وہی لکھنؤ ہے جس کے بارے میں ولیم ہارورڈ رسل نے لکھا تھا کہ:

''شادابی کے ایک خاموش ٹھہرے ہوئے سمندر میں سے ابھرتے ہوئے لاجوردی اور سنہرے محلوں ' میناروں' گنبدوں اور مدوربرجوں' کھمبوں کی قطاروں'حسین متناسب ستون والے طویل روکاروں اور سائبان چھتوں کا ایک منظر ۔میلوں میل نگاہ دوڑاتے چلے جائو' یہ سمندر پھیلتا چلا جاتا ہے اور اس کے درمیان اس پرستانی شہرکے مینار چمکتے نظر آتے ہیں اور سنہری برجیاں دھوپ میں جگمگاتی ہیں ۔''

ان سطروں کو لکھنے والا پھر اس پرستانی شہر کا موازنہ پیرس' روم' ایتھنز' قسطنطنیہ اور دوسرے بڑے شہروں سے کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ '' مجھے اتنا حسن اور تاثر ان میں سے کسی دوسرے شہر میں نظر نہیں آتا۔''

اور پھر 1856ء میں اس پرستانی شہر کی شکست کے صرف سوا سو برس بعد انیس اشفاق لکھتے ہیں:

''میں ان کے حویلی نما مکان کاجائزہ لے رہا تھا جس میں بڑے بڑے دالان تھے ،صخچیاں تھیں، شہ شینیں تھیں اور ایک بہت بڑا چبوترہ ۔ اسی چبوترے سے متصل ایک چھوٹا سا حوض تھا جو خالی تھا اور جس کی دیواروں پر جمی ہوئی کائی سوکھ چکی تھی''۔

دیواروں کے گرنے، چھتوں کے دھنسنے اور اپنے قبضوں پر دروازوں کے جھول جانے کے کتنے ہی منظر انیس اشفاق ہمیں دکھاتے ہیں ۔ ان صفحوں پر وہ امام باڑے ہیں جن کی دیواریں گزرتے ہوئے وقت کی کائی سے سیاہ ہوگئی ہیں اور جن کے گنبدوں پر گھاس اگ آئی ہے۔ دیواروں کا پلاستر جگہ جگہ سے اکھڑگیا ہے اور اینٹیں دکھائی دے رہی ہیں ۔ دیواروں کی کارنسوں پر قرآنی آیات کی خوبصورت خطاطی قریب قریب مٹ چکی ہے ۔ ستونوں اور محرابوں کی نقاشی بھی نام کو رہ گئی ہے ۔

اس قصے کی ہیروئن سفید بالوں والی ایک ماں ہے جس کا شوہر اپنے تین بچوں کو اور اسے زندگی کے گرداب میں چھوڑ کر کہیں چلا نکلا ہے ۔ انیس اشفاق تفصیل میں نہیں جاتے' شوہر شاید پاکستان چلا گیا ہو کہ یہ اس زمانے کی بہت سی عورتوں کا مقدر ہوا ۔ یہ عورت اس منجھدار سے اپنے بچوں کی اور اپنی زندگی کو نکالنے کی کوشش کرتی رہتی ہے اور آخر کار جان سے جاتی ہے ۔

کتابوں کی رسیا' زہر عشق 'امرائو جان ادا اور دوسری بہت سی اعلیٰ ادبی کتابیں پڑھنے والی' انھیں سینت سنبھال کر رکھنے والی یہ نازک خیال عورت کیسی حوصلے والی ہے کہ جب گھر کی دیوار گرتی ہے تو لکھوریاں جمع کر کے پوری دیوار خود اٹھاتی ہے اور اس پر مٹی اور چونے کا پلاستر کرتی ہے ۔ محرم میں پورے گھر میں چونا خود پوتتی ہے اور بقر عید کی انتیس کو علم کھڑے کردیتی ہے پھر رات بھر امام باڑہ سجاتی ہے ۔

'دکھیارے' کا ہیرو اس عورت کا وہ بڑا بیٹا ہے ' لوگ جسے پاگل اور وہ آشفتہ سر کہتی ہے ۔اسے ماں سے اور اپنی تہذیبی روایتوں سے عشق ہے ۔ ایسا عشق دماغ کا خلل ساتھ لاتا ہے سو وہ آشفتہ سر ماں کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اسے زندہ مانتا ہے ۔ اس سے ملاقاتیں کرتا ہے ۔ اپنے شہر سے اسے عشق ہے' اور اس کے امام باڑوں کی گرتی ہوئی دیواروں کو سنبھالنے کے لیے کیسے دل بہلادے تراشتا ہے جنھیں انیس اشفاق نے آشفتہ سر بیٹے کے قلم سے یوں لکھا ہے کہ

''میں نے ایک بہت بڑی حویلی کا نقشہ تیار کیا ہے۔ شیش محل کے آگے جہاں سے گل لالہ شروع ہوتا ہے' ایک ویران مقام ہے جہاں بہت بڑی زمین خالی پڑی ہے ۔ اسے خریدنے کا ارادہ ہے۔ اس پر حویلی بنے گی ۔ حویلی کی صورت اس طرح ہوگی: اچھی طرح ترشے ہوئے برابر کے چوکور پتھروں سے چہار دیواری کی تعمیر ہوگی جس کے چاروں کونوں پر پہل دار گنبد ہوں گے جن کے کلس پر طلائی چاند ہوں گے ۔ اس کا صدر دروازہ اتنا بڑا ہوگا کہ ہاتھی مع ہودہ نکل جائے ۔حویلی کے پھاٹک پر ایک نوبت خانہ ہوگا جس میں شہنائی کے بجنے کا بھی انتظام ہوگا اور ایک سپاہی گھنٹہ بجانے پر مقرر کیا جائے گا ۔

حویلی کے اندر دہرے دالان اور بڑے بڑے کمرے ہوں گے جن کے پہلو میں خوبصورت صخچیاں اور شہ شینیں ہوں گی ۔ دالانوں میں خوبصورت جھاڑ ہوں گے جن میں کئی بتیاں ہوں گی اور جو رنگ رنگ کے کنولوں اور ڈالوں کے ساتھ چھتوں سے لٹکتے ہوں گے ۔ ایک بہت بڑا صحن ہوگا ، صحن کے بیچ میں چمن ہوگا اور چمن کے بیچ میں فوارہ ۔ ماں کی خدمت کے لیے مغلانیاں اور پیش خدمتیں ہوں گی ۔ ایک بہت بڑا باورچی خانہ ہوگا جس میں ہر وقت پکوان پکتے رہیں گے ۔ صحن کے بعد کے بڑے حصے میں ماں کے لیے ایک بڑا امام باڑہ ہوگا جیسا حکیم صاحب عالم صاحب کے مکان میں تھا۔ ماں وہاں شوق سے عزاداری کرے گی ۔دعا کرو کہ مجھے اچھے اور ماہر کاریگر مل جائیں ۔''

دکھیارے کا یہ آشفتہ سر ہیرو کبھی الیاس کا امام باڑہ نئے سرے سے تعمیر کراتا ہے اور کبھی آصف الدولہ کے بڑے امام باڑے کی تزئین کے لیے بے قرار ہوتا ہے ۔ وہی آصف الدولہ جس کے لیے کہا جاتا تھا کہ جسے نہ دیں مولا ' اسے دلائیں آصف الدولہ ۔ دکھیارے پڑھتے ہوئے مجھے جان عالم پیا کی یاد آتی ہے ۔ وہ جس نے ہندو اور مسلمان کو شیر و شکر کردیا تھا ۔ اندر سبھا سجاتا اور رہس رچاتا تھا ' جو گیا میلہ اس کے دم قدم سے تھا ۔

اس کے لکھنؤ پر جو گزری ' اس کا شہر زوال کی جس ڈھلان پر چلا' اس پر جان عالم نے، عالم بالا میں اپنا گریباں کیوں نہ چاک کیا ہوگا اور بالا خانے سے اتر کر محل میں آنے اور لکھنٔو پر فرنگیوں کے حملے کے بعد رہوار پر سوار ہوکر لکھنؤ کو بچانے کی کوشش کرنے والی اور پھر اپنے ہندو مسلم سپاہیوں کو ساتھ لیے فرنگیوں سے لڑتی ہوئی نیپال کی ترائی تک جا پہنچنے اور جان سے جانے والی حضرت محل یہ کیوں نہ سوچتی ہوگی کہ کیا ایسے لوگوں کے لیے میں نے فرنگی راج سے آزادی چاہی تھی؟

'دکھیارے' کہنے کو ایک مختصر سا قصہ ہے لیکن کتنے ہی پیچیدہ سوال اٹھاتا ہے ۔ وہ سوال جو ہماری تاریخ ، تحریک آزادی اور آزادی موہوم کے معاملات سے جُڑے ہوئے ہیں ۔ اس شہر آشوب کو لکھ کر انیس اشفاق نے ہمیں بٹوارے کے بعد ہندوستان میں آویزشوں کا ایک نیا رُخ دکھایا ہے ۔ ان آویزشوں اور نفرتوں کا سلسلہ صرف ہندوستان میں آباد مسلمانوں کے درمیان ہی محدود نہیں ہے ۔ تقسیم کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے ۔ تقسیم کے بعد ہندو مسلم آویزش میں بڑی کمی آئی لیکن پاکستان میں مسلمانوں کے مختلف مسلکوں کے درمیان رواداری کی بجائے محاذ آرائی میں بہت شدت آئی ہے ۔

مذہبی انتہا پسندی نے بھیانک دہشت گردی کا روپ دھار لیا ہے اور اس کا شکار اپنے ہم مذہب ہورہے ہیں ۔ غور کیجیے ،اعداد و شمار جمع کیجیے اور حیرت زدہ ہوجائیے کہ تقسیم کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں لاکھوں مسلمان مارے جاچکے ہیں جن میں ہر قومیت، نسل اور مسلک کے مسلمان شامل ہیں ۔ اس کے برعکس 66 برسوں میں ہندو مسلم آویزش میں بہ مشکل چند ہزار جانیں گئی ہوں گی ۔ میری جسارت کو معاف فرمائیں اور میرے ملک دشمن ہونے کا فتویٰ جاری نہ کریں اگر میرا دکھی دل آپ سب سے یہ سوال کرے کہ کیا پاکستان ہم نے ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے بنایا تھا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں