ان کے غصے سے بچیں

فارسی زبان کے ایک شاعر انوری کو زمانے سے بہت گلہ تھا یہاں تک کہ وہ کسی بھی آسمانی بلا کو اپنے لیے ہی سمجھتا تھا۔


Abdul Qadir Hassan November 23, 2014
[email protected]

فارسی زبان کے ایک شاعر انوری کو زمانے سے بہت گلہ تھا یہاں تک کہ وہ کسی بھی آسمانی بلا کو اپنے لیے ہی سمجھتا تھا۔ اس نے ایک قطعہ کہا کہ آسمان سے جب بھی کوئی بلا زمین کا رخ کرتی ہے تو وہ یہ پوچھتے ہوئے آتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے۔

ہمارا پاکستان بھی مجھے کبھی کبھی خانۂ انوری دکھائی دیتا ہے کہ ایک بلا ختم یا کسی حد تک کمزور نہیں ہو پاتی کہ اس کی جگہ دوسری نازل ہو جاتی ہے بلکہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ بلائیں ہم پر مسلط رہتی ہیں۔ مجھے تو یہ ملک اپنے شہریوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے 'بددعایا' ہوا لگتا ہے اور ناراض نہ ہوں ہم اللہ سے معافی نہیں مانگتے اس کی نافرمانی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اس کی بلاؤں کو دعوت دیتے رہتے ہیں۔ ذرا اپنی حالت پر غور کیجیے اگر ہم تاجر ہیں تو ہمارے بازار بددیانتی سے بھرے ہوئے ہیں۔

اگر ہم سرکاری انتظامیہ میں ہیں تو ہمارے دفتر بدعنوانی سے بھرے ہوئے ہیں اور اگر ہم حکمران ہیں تو ہم کرپشن کا مرکز ہیں اور دن رات اسے پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ چوری چکاری اور بداعمالی ہمارا قومی نشان ہے۔ ہم نے سزائے موت ختم کر دی ہے تاکہ قتل اور خونریزی کا جو تھوڑا بہت خوف ہوتا ہے وہ بھی جاتا رہے۔ اگر اپنی خرابیو ں کی گنتی کرنے لگیں تو ہمارے قلم بھی شرما کر ہمارا ساتھ دینے سے انکار کر دیں۔ ان دنوں ہم ایک جہاد میں مصروف ہیں۔ قدرت نے ہماری سپاہ کو ابدی زندگی اور نعمتوں بھری زندگی دینے کا ایک ذریعہ دے دیا ہے کوئی ڈیڑھ لاکھ فوجی اس جہاد میں سربکف ہیں۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی زندگیوں کا سودا کر لیا ہے۔ یہ جہاد اپنوں کے خلاف ہے اور یہ اس کا ایک دردناک اور شرمناک پہلو ہے کہ ہم پر ایسا وقت بھی آنا تھا کہ ہم اپنوں کے خلاف جنگ پر مجبور کر دیے جائیں۔

بھارت نے ہمارے خلاف جو ہمہ گیر جنگ شروع کر رکھی ہے اور جو تخریب کاری کے محاذ پر ملک بھر میں جاری ہے اس کا ایک مرکز ہمارے قبائلی علاقے تھے۔ وزیرستان میں اسے کچھ کامیابی ہوئی اور اس نے یہاں سے تخریب کار بلکہ دہشت گرد پاکستان میں بھجوانے شروع کر دیے۔

انھوں نے ہماری زندگی عذاب میں کردی۔ کوئی گوشہ محفوظ نہ رہا چنانچہ طویل صبر وتحمل کے بعد ہماری فوج نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کو ان کے گھروں میں ہی ختم کرنا ضروری ہو گیا ہے چنانچہ کچھ عرصہ پہلے انتہائی بادل نخواستہ ہم نے اپنی سپاہ کو جو اصل میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کے لیے تھی ہمیں وہ اپنے بعض ہموطنوں کے خلاف میدان جنگ میں اتارنی پڑی اور آج کوئی ڈیڑھ لاکھ فوج اس محاذ پر سرگرم ہے۔ شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے اور جب اس جہاد میں ہمارا کوئی افسر شہید ہوتا ہے تو بھارت میں گھی کا ایک اور چراغ جل جاتا ہے اور ہمارے حکمران جو بھارت کے ساتھ دوستی کے نام پر اقتدار میں آئے ہیں شرمندہ ہو جاتے ہیں۔

دشمنوں کے خلاف اس جہاد میں کوئی بیس لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور پاکستان میں مقیم ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ ان کی بحالی پر ہمیں ستر ارب روپے خرچ کرنے ہوں گے اور یہ بے گھر نہ جانے کتنے جتن کرنے کے بعد پھر سے اپنے گھروں میں آباد ہوں گے۔ گزشتہ دنوں میرا پشاور کے ایک ایسے دانشور سے رابطہ ہوا جو اپنی افسری کے زمانے میں اس شمالی قبائلی علاقے میں متعین رہے اور ان کی فراست نے انھیں ان لوگوں کی روایات اور مزاج سے خوب آشنا کر دیا۔ وہ اس صورت حال سے بے حد پریشان تھے کیونکہ وہ وزیرستان کے باشندوں کے مزاج سے واقف تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ لوگ بے گھر ہونے کے بعد اس وقت شدید غم کی حالت میں ہیں۔

جس کے بعد غصہ کا مقام آتا ہے لیکن ہمیں یہ وقت نہیں آنے دینا چاہیے کیونکہ تیر وتفنگ میں پلے ہوئے یہ لوگ ہمیشہ اسلحہ کی زبان سے بات کرتے ہیں اور ان کا غصہ انھیں کہیں بھی لے جا سکتا ہے اس لیے لازم ہے کہ ہم ان کو اس غم کی کیفیت میں ہی واپس ان گھروںکو بھجوا دیں اور ان کے غصے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیں ورنہ ان کی دہشت گردی ہمیں بہت مہنگی پڑے گی۔ اپنے شمالی پہاڑی علاقوں کے ان باشندوں سے ہم نے ہمیشہ پیار کیا ہے ان کو اپنا بازوئے شمشیر زن سمجھا ہے اور ان کی دلجوئی سے کبھی احتراز نہیں کیا لیکن وجہ جو بھی ہے ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی دہشت گردی سے ہمیں زچ کر دیا اور اس حد تک مجبور کیا کہ ہم ان کے خلاف فوج کشی کریں یعنی اپنے شمشیر زن کا بازو خود ہی توڑنے کی کوشش کریں جو ایک انتہائی ناپسندیدہ اور مجبوری کا کام ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ وزیرستان کا کوئی نوے فیصد علاقہ ان دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے جو لوگ بے گھر ہوئے ہیں ان کے سات افراد پر مشتمل کسی کنبے کو بائیس ہزار روپے ماہانہ دیے جا رہے ہیں کوئی سات ارب روپے ان پر خرچ ہو چکے ہیں اور ہمیں ابھی کئی ارب روپے مزید درکار ہوں گے۔ ان کے علاقے میں جنگ ختم ہو تو یہ واپس جائیں۔ ان کی واپسی کی خوشی ان سے زیادہ ہمیں ہے اور نہ کوئی پاکستانی ان اسلحہ بازوں کو ناراض اور غصے میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے دیگر مسائل کیا کم ہیں کہ ہم مزید خطرناک مسئلے پیدا کریں۔

وہ تو ہمارا دشمن بھارت ہماری تاک میں رہتا ہے اور جہاں بھی اسے بار ملتا ہے وہ دامے درمے سخنے ہماری مخالفت کو پیدا کر دیتا ہے۔ اس وقت بھارت کی حکومت کا اولین مشن پاکستان کو حالت جنگ میں رکھنا ہے اور اس میں وہ کامیاب جا رہا ہے۔ ہماری ڈیڑھ لاکھ فوج اس کے پاکستان دشمن منصوبوں میں الجھ چکی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اپنی فوج کا سربراہ ایک صحیح پاکستانی مل گیا ہے ورنہ ہمارے بھارت کے خوشامدی سیاست دان ہمیں ہمارے گھروں میں بھارت کے ہاتھوں مروا دیتے۔

شمالی علاقوں اور وزیرستان کو جاننے والے پاکستانیوں کا یہ اصرار ہے کہ ہم جس قدر جلد ممکن ہو ان وزیرستانیوں کو واپس بھیجوا دیں جو علاقے دہشت گردوں سے خالی کر دیے ہیں ان کے بے گھروں کو ان کے گھر واپس دے دیں لیکن اس انتہائی پیچیدہ صورت حال میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہم کہیں اپنی محنت کو رائیگاں نہ کر دیں اور جو علاقے دہشت گردوں سے خالی ہو گئے ہیں ان کو آباد نہ کر دیں۔ ہماری فوج جو وہاں زندگیاں قربان کر رہی ہے اس تمام صورت حال کو ہم سے زیادہ جانتی ہے لیکن ان بے گھروں کے غم کو غصے میں ہرگز نہ بدلنے دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں