یہ ہے ہمارا پڑوسی
ہندو اس قدر تنگ دل قوم ہے کہ ہماری طرف سے دوستی کی تمام تر خواہشات کے باوجود وہ ہمیں مسلسل رنج دے رہا ہے۔
KARACHI:
ایشیا کے قریبی ملکوں میں جب کبھی جانا ہوتا تو نجی محفلوں میں ان چھوٹے چھوٹے ملکوں کے صحافی اور دانشور بڑی بے بسی کے عالم میں یہ کہا کرتے کہ ہمیں بھارت سے صرف پاکستان ہی بچا سکتا ہے پھر وہ بھارت کی زیادتیاں بیان کرنے لگ جاتے اور تو اور دنیا کی واحد سرکاری طور پر ہندو ریاست نیپال بھی شکائتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیتا اور سری لنکا کے خلاف تو بھارت نے گوریلا جنگ بھی شروع کر رکھی تھی جو بھارتی تامل ناڈو کر رہے تھے غرض جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک ہی بھارت سے شکوہ سنج تھے اور اس خطے میں پاکستان میں اپنا تحفظ تلاش کرتے تھے۔
تحریک پاکستان کے زمانے میں تو ہمارا ہندو سے براہ راست واسطہ تھا اور اس کی تنگ نظری حد سے زیادہ تھی۔ میں اس سلسلے میں اپنی ایک مثال دیتا ہوں کہ میں جب پہلی بار بھارت گیا تو میں نے ایک کالم لکھا کہ میں بھارت میں شاپنگ کرنے نہیں جارہا کیونکہ میں نے بچپن میں اپنے ہندو دکاندار سے شاپنگ کر لی تھی اور میرا شوق پورا ہو گیا تھا۔ اس کالم کے چھپتے ہی بھارت کا متعلقہ محکمہ سیخ پا ہو گیا۔ مانی شنکر آئر جن کو ہم پاکستانی خوب جانتے ہیں کہ وہ یہاں بھارتی سفارت خانے کے ایک سرگرم افسر رہے ہیں اور اب بھی پاکستانیوں سے ان کا رابطہ رہتا ہے کیونکہ وہ نوکری چھوڑ کر سیاست میں آ گئے ہیں اس وقت وہ بھارت کے محکمہ اطلاعات کے بیرون ملکی معاملات کے انچارج تھے۔
ہمارے دوست راجندر سیرین نے جو اپنے ملک کے لیے ہمارے کالموں کا ترجمہ کرتے تھے یہ کالم بھی معمول کے مطابق ترجمہ کر کے دے دیا اور پھر کیا ہوا کہ دوسرے دن بھارت کے تمام اخباروں میں اس کالم کے خلاف ادارتی نوٹ لکھے گئے جنھیں پڑھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا کہ بچپن میں ہندو بنئے سے خریداری میں ہندو کی کون سی توہین تھی۔ ان اداریوں کا سن کر صدر ضیاء الحق نے جن کے ساتھ میں دلی گیا تھا سیکریٹری اطلاعات جنرل مجیب کے ذریعے مجھے مبارک باد بھیجی۔
سیرین صاحب مجھے مانی شنکر صاحب کے پاس ان کے دفتر لے گئے۔ انھوں نے کہا کہ جو ہو گیا اسے چھوڑیں اور اب ہمارے مہمان بن کر بھارت کا دورہ کریں جس شہر میں بھی جانا چاہیں جائیں۔ تمام انتظام ہم کریں گے۔ میں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر دی اور دلی میں اپنے خرچ پر چند دن مزید ٹھہرنے کے بعد واپس آ گیا۔ دلی کے کئی صحافی مجھے ملتے تو تعارف کے بعد ہنسنے لگ جاتے وہ دراصل اپنی حکومت پر ہنس رہے ہوتے تھے کہ ایسی کیا بات ہوئی کہ ملک بھر میں اس کا چرچا کیا گیا۔
اسی تنگ نظر بھارت کے تمام پڑوسی جو اب سارک کے رکن ہیں بھارت سے شاکی تھے اور پاکستان کو اپنا سہارا سمجھتے تھے۔ اب اگر ان سے کبھی ملاقات ہو تو میں عرض کروں کہ آپ لوگ بھارت سے ہماری سفارش کریں کہ ہم پر نظر کرم رکھے۔ ہم اور ہمارے حکمران یہاں تک بھی چلے گئے ہیں کہ ہمیں تو پاکستانیوں نے ووٹ ہی بھارت دوستی کے لیے دیے ہیں ہم اس سے بڑھ کر خوشامد کیا کر سکتے ہیں لیکن ہندو اس قدر تنگ دل قوم ہے کہ ہماری طرف سے دوستی کی تمام تر خواہشات کے باوجود وہ ہمیں مسلسل رنج دے رہا ہے اور اب اس کی نئی حکومت تو پاکستان اور بھارت کے مسلمان باشندوں سے بھی معاندانہ سلوک کر رہے ہیں۔ ہندو قوم کے بارے میں مجھے بابائے قوم حضرت محمد علی جناح کا ایک ارشاد یاد آ رہا ہے۔
''قائداعظم سے ایک صحافی نے کہا کہ آج تو آپ حددرجہ خوش ہوں گے آخر آپ نے پاکستان حاصل کر ہی لیا۔ جواب میں قائد نے فرمایا میں نے پاکستان اکیلے حاصل نہیں کیا اس کے حصول میں میرا حصہ روپے میں صرف دو آنے تھا (اس زمانے میں روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے) چھ آنے کے برابر 10کروڑ مسلمانوں کا ہے اور روپے میں آٹھ آنے یعنی نصف ہندوؤں کا حصہ ہے۔ ان کی یہ بات سن کر تمام غیر ملکی نامہ نگار حیران رہ گئے۔ قائداعظم نے ان کی حیرت دور کرنے کے لیے کہا: اگر ہندو قوم متعصب اور تنگ دل نہ ہوتی تو ہمیں پاکستان مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ یہ ہندو قوم کا تعصب اور ہٹ دھرمی تھی جو ہمارے لیے بالآخر کامیابی کا سبب بنی''۔
قائداعظم کو ہندو ذہنیت کا سب سے زیادہ تجربہ اس لیے ہوا کہ انھوں نے حصول پاکستان کے لیے ہندو قوم سے طویل رابطہ رکھا اور اس کی قیادت سے ملاقاتیں رہیں۔ ہندوؤں کے مہاتما گاندھی قائد کے مدمقابل تھے جن کے ساتھ وہ معاملہ کرتے تھے اس طرح انھیں ہندو قوم کی تنگ نظری کا خوب تجربہ ہوا۔ قائداعظم جیسے صاف گو اور منصف مزاج انسان کا یہ تجربہ اور مشاہدہ ہندو قوم کے بارے میں حرف آخر ہے آج اتنے برسوں کے بعد بھی ان کی تنگ نظری اور تعصب ہمارے لیے ایک پرابلم بنا ہوا ہے اور ہمارے ہاں تخریب کاری اور دہشت گردی کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔
جب سے ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے تب سے وہ چونکہ کھلی جنگ کا حوصلہ نہیں کر سکتے اس لیے تخریب کاری پر اترے ہوئے ہیں اور پاکستان کے خلاف جو قوتیں بھی ہیں وہ ان کے مدد گار ہیں۔ پشاور کے اسکول میں جو کچھ ہوا اس میں جدید ترین اسلحہ اور دوسرا سامان استعمال ہوا جو بھارت نے فراہم کیا یا اس کا بندوبست کیا۔ ہم پاکستانیوں کو بھارت کی اس حرکت کا یقین ہے اور بھارت کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔
سقوط ڈھاکا کا حتمی فیصلہ بھارت کی فوجی مداخلت سے ہوا اور اب برسوں بعد اس دن بھارت نے ایک اور ایسا ہی صدمہ ہمیں دے دیا۔ کیا ہم اب بھی بھارت کی خوشامد کریں گے اور اسے دوستوں کی صف میں شامل رکھیں گے۔ کوئی غیرت مند پاکستانی ایسا نہیں کر سکتا ویسے میر جعفر اور میر صادق ہمارے ہاں اب بھی ہو سکتے ہیں جو دوستی امن اور بھائی چارے کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور کسی تخریب کاری میں بھارت کا نام نہیں لیتے اور بیرونی دشمن یا باہر کے ہاتھ کے بزدلانہ الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔