پاکستان ایک نظرمیں پاکستان میں ذات پات پراجتہاد

کیا کبھی پاکستان میں ذات پات کے مسائل کو کسی ٹاک شو یا تحریک کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی؟؟؟


عقیل احمد December 25, 2014
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم لوگ ذاتی اور معاشرتی کاموں میں برادری اور ذات پات سے الگ ہو کر سوچیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ذات پات کی یہ خلیج کوئی نئے مجرم میدان میں لا کھڑے کرے۔ فوٹو: فائل

ہم انسانوں کو ذاتوں اور قبائل میں تقسیم کیا گیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو شناخت کر سکیں۔ یہ تقسیم قطعاً امارت یا غربت کی بنیاد پر نہ تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ آج کل ذات پات کی تقسیم میں دولت سب سے بڑا عنصر ہے۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ کسی غریب انسان کا بیٹا جب پڑھ لکھ کر کچھ بن جاتا ہے تو وہ اپنا علاقہ، شہر چھوڑ کر دوسری جگہ کیوں چلا جاتا ہے؟۔

یہ معاشرہ کسی سیلف میڈ کو برداشت نہیں کرتا۔ اس کی جان بوجھ کر تضحیک کی جاتی ہے اس سے حسد کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے امیر ہو گیا حالانکہ اس کام میں اس بے چارے کے والدین کی ساری جمع پونجی خرچ ہو جاتی ہے۔

ہمارے ایک معزز کالم نویس لکھتے ہیں کہ جب میں لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ذات تبدیل کرتے دیکھتا ہوں تو میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ کیا چوہدری صاحب، میاں صاحب کہلانے کے لئے ان صاحب سے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔

اگر کسی پاکستانی کا باپ یا دادا غربت کی وجہ سے برتن بناتا تھا، پانی بھرتا تھا، موچی تھا یا کوئی اور ایسا چھوٹا موٹا کام کرتا تھا اور اس نے اس غربت کے باوجود اپنے بچوں کو اچھا پڑھایا لکھایا۔ اس کے اولاد معاشرے میں ایک اچھی نوکری حاصل کرنے یا کاروبار چلانے کے قابل ہو گئی تو کیا اب بھی اس فیملی کو ان کے آباٴو اجداد کے پیشے کی نسبت سے ہی پکارا جانا چاہئے یا ہمارا معاشرہ اتنا وسیع الذہن ہو گیا کہ ان کو بھی کوئی معزز نام دے سکے۔ کیونکہ ابھی تک انسانوں کو ان کے گلی محلوں میں رہنے کی وجہ سے پرکھا جاتا ہے کہ یہ آدمی فلاں محلہ میں رہتا ہے تو پکا چور ہو گا، ان پڑھ ہوگا وغیرہ وغیرہ

اس دور میں سب سے بڑی مشکل جوان لڑکیوں کے رشتے کرنے میں ایسے خاندانوں کو ہوتی ہے۔ لوگ اچھی بھلی تعلیم یافتہ لڑکی کسی میٹرک پاس کو بیاہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیونکہ ارد گرد اچھا رشتہ تو موجود ہوتا ہے لیکن برادری مسئلہ ہوتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں لوگ کیا سوچیں گے۔ یہ نئی رسم شروع کرنے چلا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا میں ہندوستان کے ذات پات کے نظام کو انتہائی برا دکھایا جاتا ہےجو کہ صحیح بھی ہےلیکن کیا کبھی پاکستان میں ہونے والے اس غربت اور امارت کے تفاوت سے جنم لینے والے ذات پات کے مسائل کو کسی ٹاک شو یا تحریک کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی؟؟؟؟

کیا ابھی بھی یہ وقت نہیں آیا کہ ہم لوگ رشتے ناطے بنانے، معاشرتی مسائل حل کرنے، ووٹ ڈالنے اور غرض اسی طرح کے دوسرے کاموں میں برادری اور ذات پات سے الگ ہو کر سوچیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ذات پات کی یہ خلیج کوئی نئے مجرم میدان میں لا کھڑے کرے۔

ذات پات سے مراد اگر اونچ نیچ کا تصور ہے تو اسلام میں ذات پات کی بنیاد پر کسی کو اونچا نیچا سمجھنا درست نہیں ہے۔ ہمارے علماء کرام ہاتھ سے کھانا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں اور منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو تلقین بھی کرتے ہیں لیکن جب آئس کریم اور کسٹرڈ کھانے کی باری ہو تو اجتہاد کرتے ہوئے چمچ پکڑ لیتے ہیں کیا اب یہ ان کا بھی مسئلہ نہیں کہ ایسے معاشرتی مسائل کے حل کے لئے بھی منبر کو استعمال کیا جائے۔ شاید اِنہیں حالات کو دیکھتے ہوئے بلھے شاہ یہ کلام کہا تھا۔۔۔
میں ذات پات میں اونچ نیچ میں
اور فرقوں میں بٹا ہوا
جو سچائی کو ڈھونڈ لا دے
شکوہ نہیں جسم کی مٹی سے
پر روح بھی اب بےتاب نہیں
تیرے حکم پر چلنا ایک طرف
تیرا نام بھی لینا یاد نہیں
کم سے مجھ کو لوٹا دے
وہ روح اور جسم کی جنگ جنگ
تیرے رنگ رنگ، تیرے رنگ رنگ، تیرے رنگ رنگ
میں جہاں بھی جاؤں دنیا میں
تیرے جلوے میرے سنگ سنگ

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مقبول خبریں