اکرام اللہ گران… مر گئے چپ چاپ

پشتو کے واحد اور آخری غزل گو شاعر اکرام اللہ گران بھی اسی راہ پر چلے گئے


Saad Ulllah Jaan Baraq December 25, 2014
[email protected]

MUZAFFARGARH: پشتو کے واحد اور آخری غزل گو شاعر اکرام اللہ گران بھی اسی راہ پر چلے گئے جہاں پر لوگوں کو صرف جاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے اور کبھی کسی نے کسی کو واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا ہے کیوں کہ یہ راستہ اس شہر کو جاتا ہے جس کے دروازے صرف آنے والوں کے لیے کھلتے ہیں، جانا تو اسے تھا کیوں کہ جو بھی پہلا قدم اٹھاتا ہے اس کا کبھی نہ کبھی آخری قدم بھی آتا ہے اور سانسوں کی گنتی جب شروع ہوتی ہے تو ایک دن اسے ختم ہونا بھی ہوتا ہے، غزل اکثر شاعر کہتے ہیں لیکن کچھ شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاص طور پر غزل کے لیے پیدا ہوتے ہیں، پشتو شاعری میں اگر بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری کے بعد کوئی دوسرا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ اکرام اللہ گران ہی کا نام ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کوئی اور شاعر اچھی غزل نہیں کہتا، پشتو میں اور بھی ایسے شاعر ہیں جن کی غزلیں انتخاب ہوتی ہیں لیکن اکرام اللہ گران میں جو بات تھی وہ کسی اور میں نہیں ہے، رحمان بابا نے کہا ہے کہ

پہ غزل کے یو سو شعرہ انتخاب دی
د رحمان غزل ھمہ دے انتخاب

یعنی غزل میں تو چند شعر ہی انتخاب کے ہوتے ہیں لیکن رحمان کی غزل پوری کی پوری انتخاب ہوتی ہے۔ مقدار کے لحاظ سے اکرام اللہ گران نے ''کم'' کہا ہے لیکن جو بھی کہا ہے وہ (پشتو میں) ''سم' یعنی درست کہا ہے، اچھا کہا ہے بہترین کہا ہے خوب صورت کہا ہے، یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اکثر بہت بڑے بڑے شعراء کی طرح اکرام اللہ گران کو بھی سنانے کا ڈھنگ نہیں تھا، وہ جتنا بڑا شاعر تھا اتنا ہی غیر پرکشش سنانے والا تھا، ہم اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر اکرام اللہ گران کو مشاعرہ پڑھنے کا خوب صورت ڈھنگ بھی آتا تو اس کی شاعری نہ جانے کیا غضب ڈھاتی کیوں کہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ چھوٹے چھوٹے شاعر اپنی ترنم یا ڈھنگ سے بہت بڑے شاعر بن جاتے ہیں لیکن جب وہ فوت ہو جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کا کلام بھی فوت ہو جاتا ہے۔

ان میں اکثر ایسے بھی شاعر دیکھے جاتے ہیں کہ ان کی کل شاعری ''بیس بائیس الفاظ'' کی ادلا بدلی اور تکرار کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی، وہی چند مخصوص الفاظ آگے پیچھے کر کے اور اپنے مخصوص سکہ بند ڈھنگ ترنم یا پرفارمنس سے مشاعرے لوٹ لیتے ہیں، لیکن اکرام اللہ گران جب اسٹیج پر آتا تھا تو اپنا کلام کچھ یوں سناتا تھا جیسے کوئی انتہائی برا کام نہایت مجبوری کے عالم میں کرنا پڑ رہا ہو اور اس پر بے چارے کو انتہائی شرمندگی ہو رہی ہو، ہم نے بارہا سمجھایا بھی لیکن وہ خدا کا سادہ دل بندہ مرتے دم تک ویسے کا ویسا ہی رہا، سادہ دل سادہ پوش سادہ بیان... لیکن اس کے باوجود اس کا قد کاٹھ ڈیل ڈول، رنگ و روپ بھی کوئی خاص پرکشش نہیں تھا، کلام سنانے کا انداز بھی غیر دل چسپ تھا، پی آر کے معاملے میں کورا تھا لیکن جس مشاعرے میں بھی ہوتا تو مشاعرہ مشاعرہ بن جاتا، لوگ بار بار شعر سننے کی فرمائش کرتے اور وہ جھینپ جھینپ بل کہ کچھ بیزار ہو کر سنا بھی دیتا، جیسے اگر جلدی جلدی اپنے کلام سے چھٹکارا پا کر اترا نہیں تو انرت ہو جائے گا، بلکہ اس کے اپنے ایک شعر کے مطابق جتنی جتنی اس کی قدر و قیمت اور مقبولیت بڑھتی گئی اتنا ہی اس کا سنانے کا انداز پھوہڑانہ ہوتا گیا،

سومرہ چہ زڑہ مے اوچتگی ستا د بامہ سرہ
دومرہ پہ خکتہ را خوشیگم دہر گامہ سرہ

یعنی جتنا جتنا میرا خیال ترے بام کی طرف اونچا ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی میں ہر ہر قدم کے ساتھ نیچے پھسلتا ہوا جاتا ہوں، اسی غزل کا ایک اور شعر ہے کاش کسی شعر کا صحیح ترجمہ کسی اور زبان میں مکمل طور پر ہو پاتا اس شعر کا ا صل لطف تو پشتو ہی میں ہے لیکن پھر کچھ نہ کچھ جھلک تو ترجمے میں آجائے گی

اوس پہ خوبونو کے ھم مہ رازہ بدنامہ بہ شے
خلقو دی کلی پریخودلی مابدنامہ سرہ

یعنی اب تو تم میرے خوابوں میں بھی نہ آیا کرو، بدنام ہو جاؤ گی کیوں کہ ساری دنیا نے مجھ ''رسوا'' کے ساتھ ہر تعلق توڑ لیا ہوا ہے۔ یہ ہماری کم نصیبی تھی کہ ہم اس کے جنازے پر نہیں پہنچ پائے کیوں کہ خبر ہی اس وقت پہنچی جب انھیں لحد میں اتارا جارہا تھا لیکن خبر سنتے ہی آنکھوں کے سامنے وہ مجسم ہو گیا جو اس نے خود ایک شعر میں بیان کیا ہے کہ

چہ پہ جوندون کے ئے محرومہ لہ ژجوندونہ کڑمہ
نن مے لحد تہ کوزوی سہ د آرامہ سرہ

یعنی جنہوں نے مجھے ''زندگی'' میں ''زندگی'' سے محروم کیا ہوا تھا آج وہ مجھے کس آرام اور احترام کے ساتھ لحد میں اتار رہے ہیں۔ زندگی میں اکثر لوگوں کے ساتھ یہ دنیا ایسا ہی کرتی ہے کہ جب وہ زندہ ہوتے ہیں تو زندوں کے ہاتھوں زندگی سے شرمندہ ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی مر جاتے ہیں تب ان سے اظہار عقیدت شروع کر دیتے ہیں کیوں کہ اب وہ ان سے کچھ بھی مانگنے یا چھیننے یا جیتنے والا نہیں ہوتا ہے۔ خادم بابا نے بھی اس مضمون کو بڑے خوبصورت انداز میں باندھا ہے

چہ جوندے وم تا سو ویشتے وم پہ کانڑو
اوس مے سہ لہ خکلوئی د قبر کانڑی

یعنی جب میں زندہ تھا تو تم مجھے پتھر مارتے تھے تو اب کیوں میری قبر کے پتھر چومتے ہو۔ اکرام اللہ گران کو بے شک کسی نے پتھر نہیں مارے تھے وہ تھا ہی اتنا پیارا، اتنا بیبا اتنا میٹھا کہ کوئی اسے ناپسند ہی نہیں کر سکتا تھا اور اس لیے نہیں کر سکتا تھا کہ وہ خود سب کو پسند کرتا تھا وہ نہ تو کسی ادبی صف بندی میں تھا نہ کسی نظریاتی خرخشے میں پڑتا تھا بالکل ایک معصوم بچے جیسا تھا، اپنے کام سے کام رکھنے والا، سر جھکا کر اپنی راہ چلنے والا اور اپنی شاعری اپنی غزل کی دنیا میں مست و مگن رہنے والا... حافظ کی اس نصیحت پر عمل کرنے والا کہ

امور مصحلت ملک خسرواں دانند
گرائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش

اکرام اللہ گران تقریباً ہمارا ہم عمر تھا داڑھی سفید ہو گئی تھی کمر جھک گئی تھی نظر دھندلا گئی تھی اور قویٰ مضمحل ہو گئے تھے لیکن جب بھی ملاقات ہوئی مجھے ایسا لگتا جیسے کسی ایسے معصوم بچے سے مل رہے ہیں جو ابھی ابھی گھر سے نکل کر اجنبی دنیا میں آگیا ہو، جتنی معصومیت اس کی شاعری اور غزل میں تھی اتنی ہی اس کی شخصیت میں بھی آخر تک موجود رہی

ہم ترے د مینے باور پورتہ ھم د خلقو شولو
سہ حادثے شولے را پیخے د اکرامہ سرہ

یعنی محبت کا اعتبار بھی اٹھ گیا اور سارے لوگوں کا بھی اٹھ گیا، کچھ ایسے ہی عجیب حادثے ''اکرام'' کے ساتھ پیش آگئے، کہ کہیں کا نہیں رہا اور آخر میں اسی کا ایک شہر ''پڑانگ'' کے اس عظیم الشان مقبرے کے لیے جس میں اس سے پہلے بھی بہت بڑے بڑے مشاہیر پیوند خاک ہیں کہ

داد یادونو دیرہ چہ بے نواپرے نہ گدو
رازئی چہ اوخکے پرے ڈیوے کڑو د ماخامہ سرہ

یعنی یہ یادوں کا مقبرہ ہے آؤ اس پر اپنے آنسوؤں کے چراغ سر شام جلائیں۔

مقبول خبریں