خوبصورت چہروں پر تیزاب

فرمان نواز  ہفتہ 17 جنوری 2015
حسن عورت کا زیور ہے اور مرد اس زیور سے عورت کو محروم کرکے اپنے ادھورے پن کا بدلہ لیتا ہے۔ فوٹو رائٹرز

حسن عورت کا زیور ہے اور مرد اس زیور سے عورت کو محروم کرکے اپنے ادھورے پن کا بدلہ لیتا ہے۔ فوٹو رائٹرز

غزل نظم کی وہ قسم ہے جو بنیادی طور پر عورت کے حسن کی تعریف کے لئے متعارف ہوئی تھی۔ گوکہ غزل میں اکثر اوقات محبوب سے گلے شکوئے بھی کئے جاتے ہیں لیکن کبھی اُس کی تحقیر نہیں کی جاتی۔ لیکن آج حالت وہ نہیں رہے۔ اب محبوب کی خوبصورتی تب تک قابلِ تعریف ہے جب تک محبوب معشوق کے سارے مطالبے مانتا رہے۔ اِدھر محبوب نے منہ پھیرا تو عاشقِ نامعقول محبوب کے خوبصورت چہرے پرتیزاب پھینک کر یہ ثابت کرتا ہے کہ اُسے محبت محبوب سے نہیں بلکہ ہوس تھی۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال اندازاََ 100 سے زائد خواتین پر تیزاب پھینکا جاتا ہے۔ تیزاب پھینکنے کے واقعات ایک طرف لیکن عورت کے ساتھ اس مردانہ سماج کے بے رحم رویئے کو ظاہر کرتے ہیں تو دوسری طرف مرد کے مشروط محبت کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ ابھی تک کسی باپ نے گھر سے بھاگی ہوئی بیٹی کے چہرے پر تیزاب نہیں پھینکا بلکہ گھر سے بھاگی ہوئی بیٹی کو موت کی سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ حرکت مرد صرف اُس عورت کے ساتھ کرتا ہے جس کیلئے وہ دل میں ہوس رکھتا ہے۔

اخلاق کے ساتھ ساتھ نسوانی حسن ہی عورت کا زیور ہے اور مرد اس زیور سے عورت کو محروم کرکے اپنے ادھورے پن کا بدلہ لیتا ہے۔ لیکن عورت ادھوری ہوکر بھی ہمت نہیں ہارتی۔ عورت اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ تو نہیں لے سکتی لیکن اُس کا بگڑا ہوا چہرہ مرد کی حیوانیت کو ظاہر کرتا ہے جو ہم سے ہر روز مرد کی مردانگی کے متعلق سوال کرتا ہے۔ لیکن لاہور کی ایک معروف بیوٹیشن نے اس ظلم کے شکار عورتوں کے بگڑے ہوئے چہرے کو دوبارہ ٹھیک کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ نہ صرف اُن کے چہرے کی مفت سرجری کی جاتی ہے بلکہ ایسی خواتین کو میک اپ کا ہنر سیکھا کر روزگار بھی فراہم کیا جاتا ہے۔لیکن افسوس صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے کچھ نہیں کر رہی۔ایک حد تک تو قانون سازی کر دی گئی ہے لیکن قانون پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔

قانون پر عمل تو ایک طرف ایسی خواتین کو جس طرح کی سرجری کی ضرورت ہوتی ہے حکومت وہ ضرورت بھی پوری نہیں کررہی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ نہ صرف حکومت ایسے درندوں کو کڑی سزائیں دیتی بلکہ سرکاری سرپرستی میں ایسی خواتین کیلئے اسپیشل سرجری سینٹر بنائے جاتے جہاں اُن کے چہرے کے خدوخال دوبارہ درست کئے جاتے۔ ایسی حکومت کس کام کی جو عورتوں کو نہ تحفظ دے سکے اور نہ انصاف۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ویسے تو فیمین ازم کا شور مچاتی ہیں لیکن اس حوالے سے ابھی تک حوصلہ افزا کام نہیں ہوسکا۔ صحافی حضرات بھی حقوق و فرائض کی ایک لمبی لسٹ لئے پھرتے ہیں لیکن گنتی کی ایسی خواتین صحافی ہیں جو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرتی ہیں۔ باقی لوگوں کو صرف ملکی اور غیر ملکی سیاست سے غرض ہے۔ علماء حضرات اپنے خطبوں میں اسلام میں عورتوں کے حقوق کے حوالے تو بڑے دیتے ہیں لیکن عورتوں کو حقوق دینے سے متعلق اُن کی عملی کاردکردگی قابلِ تعریف نہیں۔ سیاست دان عورتوں کے ووٹ لیکر جیتتے ہیں لیکن جیت کر عورت کی فلاح و بہبود سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔

عورت کا دل جیتنا ایک فن ہے۔ یہ فن اخلاق اورعورت کے حقوق کے ادراک کے امتزاج سے بنتا ہے۔ جو مرد اخلاق سے عاری ہے اورعورت کے حقوق کا خیال نہیں رکھ سکتا وہ عورت کا دل نہیں جیت سکتا اورآج کل کے دور میں جب ایک مرد عورت کا دل نہیں جیت سکتا تو اُس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتا ہے ۔اگر یہی حال رہا تو کل کو وہ اپنی بیوی کا دل کیسے جیت پائے گا؟ کل کو وہ اپنی بیٹی کا دل کیسے جیت پائے گا؟ کل کو وہ اپنی بہو کا دل کیسے جیت پائے گا؟ یہی وہ بات ہے جس اِس وقت سوچنے کی ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔