حمزہ نے تو اپنی غلطی تسلیم کرلی، کیا تحریک انصاف بھی کریگی؟

سدرہ ایاز  جمعرات 2 اپريل 2015
دوسروں کو ہمہ وقت تنقیدی نگاہوں کی دیکھنے والے حمزہ اپنے گریبان میں جھاکنا بھول گئے۔

دوسروں کو ہمہ وقت تنقیدی نگاہوں کی دیکھنے والے حمزہ اپنے گریبان میں جھاکنا بھول گئے۔

ڈرامہ سیریل پیارے افضل سے شہرت پانے والے اداکار حمزہ علی عباسی نے اپنے کیرئر میں کبھی پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں سیکھا، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر گرزتے دن کے ساتھ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے جارہے ہیں۔

لیکن وہ کہتے ہیں نہ انسان سے غلطیاں ہونے کے امکانات اُس وقت ہی سب سے زیادہ ہوتے ہیں جب وہ شہرت کے عروج پر ہوتا ہے۔ بس شاید حمزہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کی خواہش نے شاید حمزہ سے سوچنے اور سمجھنے صلاحیت کو کچھ کم کردیا تھا اور وہ اس دور میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ اب ان کے پاس سوائے شرمندگی اور ندامت کہ کچھ نہیں بچا۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی شرمندگی کا اظہار کچھ یوں کیا ہے؛

ندیم بیگ کی ہدایت میں بننے والی فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ میں حمزہ شرٹ کے بغیر سوئمنگ پول میں موجود مختصر لباس پہنی ہوئی لڑکیوں کو دیکھ رہے ہیں، ساتھ ہی انہیں نائٹ کلب اور سمندر کنارے بھی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

فلم کے ٹریلر کے ریلز ہوتے ہی حمزہ نے تحریک انصاف کے کلچرل سیکریڑی کے عہدے سے استعفی دے دیا۔ دینا بھی چاہئے تھا کیونکہ وہ اب ’’گڈ بوائز‘‘ کی فہرست سے اپنا نام خارج کراچکے ہیں۔ ویسے میرے لئے تو حمزہ کا یہ انداز نیا نہیں ہے، کیونکہ کچھ اطلاعات کے مطابق حمزہ کراچی کے ایک مشہور ہوٹل میں اکثر راتوں کو مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔


چلو مان لیا کہ حمزہ علی عباسی فلمی دنیا کی چکاچوند میں کھوئے تھے، لیکن تحریک انصاف کو تو ہوش کے ناخن لینے چایئے نا۔ تحریک انصاف پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس میں نہ صرف مرد و خواتین بلکہ نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ جو عمران خان کی ایک آواز سنتے ہی ملک میں انقلاب لانے کے لئے کمر کس لیتے ہیں۔ گذشتہ سال دھرنوں میں عمران خان نے عوام کے سامنے ’’نئے پاکستان‘‘ کی اتنی خوب صورت تشیہر کی تھی کہ ناامیدی کے گھپ اندھیرے میں گھرے عوام سوچے سمجھے بغیر ان کے پیچھے چل دیئے۔ میں نے بھی اپنی سوچ کا زاویہ تبدیل کرلیا کہ یہ شخص ضرور انقلاب لائے گا اور ہمارے قائد کے خواب کی تعبیر ہوگی، لیکن اب میں شکر کرتی ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

کیونکہ جس جماعت کا کلچرل سیکریڑی کھلے عام خواتین کے ساتھ رومانس کررہا ہو وہ ملک میں کیا خاک ثقافت کو فروغ دے گا؟ کسی بھی ملک کے شہریوں کے لئے ان کا لیڈر آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے، تو اگر انقلاب آجاتا، تو آج ہمارے ملک میں بھی بالی ووڈ کلچرعام ہوچکا ہوتا، بے راہ روی، کھلے عام رومانس، عمران خان جیسے ’’پلے بوائے‘‘ لڑکے گلی گلی میں کھڑے ہر آتی جاتی لڑکی پر جملے کس رہے ہوتے۔

لوگ صحیح کہتے ہیں کہ تحریک انصاف دراصل ایک کچرادان ہے جو ناکارہ لوگوں کو اکھٹا کررہی ہے، یہ چھان بین کیئے بغیر کہ پارٹی جوائن کرنے والا کیا کرتا ہے؟ کیا کرتا تھا؟ کس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہے؟ چاہے کوئی چور ہو، ڈاکو ہو، لٹیرا ہو، خواہ کوئی بھی ہو، بس آجاؤ سب کو کھلےعام دعوت ہے تحریک انصاف میں شامل ہوجاؤ۔

یہی کچھ حمز علی عباسی کے ساتھ بھی ہوا، انہوں نے سوچا باقی چیزیں تو چلتی ہی رہیں گئی کیوں کہ تحریک انصاف میں شامل ہو کر کیوں نہ ایک نیا ’’پبلیسٹی اسٹنٹ‘‘ کھیلا جائے۔ کیونکہ حمزہ وہ واحد اداکار ہیں جو ہر چھوٹے بڑے معاملے پر تبصرہ کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں، خاص طور پر صبا قمر کے ساتھ اپنی محبت کی پتنگوں اور پاکستانی فلموں میں ’’شیلا کی جوانی‘‘ جیسی آئٹم سانگ کی بڑھتی ہوئی روایت کی حمزہ کے تبصرے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں، انہوں نے حال ہی میں بالواسطہ طور پر صبا قمر کے بھڑکیلے اور ژالے سرحدی کے چمکیلے آئٹم سانگ پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے خود کو ’’ماہان‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اب کیا ہوا؟ دوسروں کو ہمہ وقت تنقیدی نگاہوں کی دیکھنے والے حمزہ اپنے گریبان میں جھاکنا بھول گئے۔

کہتے ہیں کہ جب آپ کوئی زندگی کی رنگینیاں میسر نہ ہو تب تک اس چیز میں ہزار برائیاں نظر آتی ہیں، لیکن جیسے ہی یہ رنگ آپ کا رخ کریں تو ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز اچھی نہیں ہوتی، بس یہی حال حمزہ کا بھی ہے، انہوں نے موقع پاتے ہی اپنی ’’جوانی‘‘ کو بھرپور انداز میں جی لیا، اور صدیوں سے بےوقوف بنتی پاکستانی عوام کے سامنے دامنِ شرمندگی پھیلا کر بیٹھ گئے۔ ایک مشورہ ہے حمزہ صاحب، آپ چاہے اداکاری کریں یا سیاست کریں لیکن کچھ تو ڈھنگ سے کریں۔

اپنے دعوے کے مطابق ماضی میں حمزہ بالی ووڈ کی فلم میں کام کرنے سے انکار کرچکے ہیں، لیکن اس بار انہوں نے دل کی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ فلم کر ہی ڈالی۔ میری نظر میں حمزہ علی عباسی سے گلا کرنا بیکار ہے، لیکن کیا اب عوام ایک بار پھر تحریک انصاف کے نام نہاد کچرل سیکریٹری پر بھروسہ کرنے کو تیار ہیں؟

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔