خانہ جنگی اجتماعی خودکشی ہے

عمر قاضی  پير 6 اپريل 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

ویسے تو جنگ عربوں کے لیے نئی بات نہیں۔ عرب تاریخ جنگوں کی طویل داستان ہے۔ ہم اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ عرب قوم بنیادی طور پر بہادر ہیں۔ کیوں کہ جن لوگوں کے رزمیہ گیت محبت کے افسانوں سے شروع ہوتے ہوں وہ لوگ تو جنگوں میں بھی ایک قسم کا رومانس محسوس کرتے ہیں۔ مگر جنگ تو پھر بھی جنگ ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے ان جنگوں کو نہیں دیکھا جو جنگیں تاریخ میں لڑی گئیں اور ان جنگوں کا قدیم عربی شاعری میں جو تذکرہ ہوتا ہے وہ دل میں احساس کے جذبات ابھارنے سے زیادہ انسان میں برداشت اور بہادری کے احساسات کو پیدا کرتا ہے۔ مگر یہ دور مختلف ہے۔ اس دور کی جنگیںبھی مختلف ہیں۔ کیوں کہ تاریخ کی جنگوں میں سورما سورماؤں سے لڑا کرتے تھے۔

ان جنگوں میں عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا تھا۔ مگر موجودہ دور کی جنگوں میں سب سے زیادہ زخم عورتوں اور بچوں کو آتے ہیں۔ یہ تو کمیونیکیشن کا دور ہے۔ اس دور میں جب ہم انٹرنیٹ پر معصوم بچوں کے لاشے دیکھتے ہیں تب زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسان وحشت اور درندگی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ کیوں کہ جن جنگوں میں عورتوں اوربچوں کو زخم پہنچائے جائیں اور انھیں بموں اور گولیوں کا نشانہ بنایا جائے ان جنگوں پر کوئی شاعر رزمیہ نغمے کس طرح لکھ سکتا ہے۔ ایسی جنگوں پر تو صرف نوحے لکھے جاسکتے ہیں۔ مگر وہ اداس الفاظ ان سفاک حکمرانوں اور دہشت گردوں کے دل پر کیا اثر کریں گے جو بچوں اور عورتوں کو اس لیے بیدردی سے قتل کرتے ہیں تاکہ ان کی دہشت کا دائرہ بڑھ جائے۔

کچھ عرصہ قبل جب فلسطین کے شہر غزہ پر ہوائی حملے ہو رہے تھے تب درد کے ساتھ ساتھ دل میں غصہ بھی تھا۔ کیوں کہ فلسطین کے نہتے لوگوں پر ایک عرصہ سے اسرائیل ظلم کر رہا ہے اور ارض فلسطین پر فلسطین کے لوگوں کا بہتا ہوا خون نیا نہیں ہے۔ مگر اس وقت جب یمن میں عرب باشندوں پر عرب قوم سے تعلق رکھنے والے بارود کی بارش کر رہے ہیں تب درد کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ ایک مغربی مفکر نے لکھا ہے کہ ٹکراؤ کی تین اقسام ہوتی ہیں اور ہر قسم کا ٹکراؤ الگ کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ جب برائی برائی سے ٹکراتی ہے ہم اچھا محسوس کرتے ہیں۔

اس ٹکراؤ میں جس برائی کو نقصان پہنچتا ہے ۔ ہمیں اچھا لگتا ہے۔ اور دوسرے قسم کا ٹکراؤ اچھائی اور برائی کے درمیاں ہوتا ہے۔ اس ٹکراؤ میں برائی کو شکست ہوتی تو ہم خوش ہوتے ہیں اور اگر اچھائی کو نقصان پہنچتا ہے تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ مگر ٹکراؤ کی تیسری قسم الگ نوعیت کی ہوتی ہے۔ وہ ٹکراؤ اچھائی کا اچھائی سے ہوا کرتا ہے اور اس ٹکراؤ کا نتیجہ جو بھی نکلے انسان کے حصے میں درد آتا ہے۔

خانہ جنگی میں محسوس ہونے والے درد کو عالمی ادب میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ وہ ادب ہمیشہ آنسوؤں سے لکھا جاتا ہے۔ ہم اس وقت جس جنگ کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ جنگ مسلمانوں اور کافروں کے درمیاں نہیں اور نہ وہ جنگ عرب اور غیر عرب قوتوں کے مابین ہے۔ اس جنگ میں دونوں طرف سے ایک عقیدے اور ایک ہی قوم کا خون بہہ رہا ہے۔ اس لیے یمن میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک المیہ ہے۔ اس میں درد محسوس ہوتا ہے۔ وہ درد جو ہمارے دل کی دیواروں سے اس طرح ٹکراتا ہے جس طرح فیض احمد فیض نے اپنی ایک نظم میں لکھاہے کہ:

’’اور کچھ دیر بعد… جب میرے تنہا دل کو… فکر آ لے گی کہ… تنہائی کا کیا چارہ کریں؟… درد آئے گا دبے پاؤں… لیے سرخ چراغ… وہ جو ایک درد دھڑکتا ہے… دل سے پرے… شعلہ درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا… دل کی دیوار پر ہر نقش چمک اٹھے گا‘‘

جی ہاں! یہ درد بھی ایسا درد ہے۔ جس کے شعلے انسان کی روح کو مسلسل جلاتے رہتے ہیں اور سب سے زیادہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ اس درد کا کوئی درماں نہیں۔ ہم اس جنگ میں بے بس ہیں۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس کا ساتھ دیں؟ کس کو بچائیں اور کس کو قتل کریں؟ یہی بات کہ جب پاکستان کو سعودی عرب کی طرف سے مدد کی اپیل کی گئی تو یہ قوم بہت پریشان ہوگئی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دو بھائیوں کے درمیاں وہ کس کا ساتھ دیں؟ اس لیے پاکستان بہت تکلیف میں ہے۔ اگر یہ جنگ اسرائیل کے خلاف ہوتی تو پاکستان کو فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ مگر یمن کی سرزمین پر پاک فوج کس کا لہو بہائے؟ یہ سوال اس ملک اور اس قوم کے سینے میں سنگین کی طرح پیوست ہوجاتا ہے۔

اس سوال کی سفاکی کو ہم نہ صرف اجتماعی طور پر بلکہ انفرادی طور پر محسوس کر رہے ہیں۔ میں عربوں سے اس لیے محبت نہیں کرتا کہ وہ مسلمان ہیں اور اسلام کا سورج ان کی سرزمین سے طلوع ہوا تھا۔ مجھے عرب اپنی بہادری اور اپنے رومانوی مزاج کے باعث اچھے لگتے ہیں۔ مگر آج جس طرح میڈیا پر عربوں کے ہاتھوں عربوں کا خون بہہ رہا ہے تو تاریخ کے اس ستم کو دیکھ کر ہم بہت اذیت محسوس کر رہے ہیں اور ہماری نظریں ان قوتوں کو تلاش کر رہی ہیں جو ان میں صلح کروائیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں لڑانیوالے تو بہت ہیں مگر امن کروانیوالے بہت کم ہیں۔ پاکستان کیلائے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ پاکستان کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کے بجائے امن کا ساتھ دے!

وہ امن جس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب جنگ چھڑ جاتی ہے۔ جب ماؤں کی لاشوں پر بچے اور بچوں کی لاشوں پر مائیں روتی ہیں۔ جب پوری قوم ایک ماتم میں ڈھل جاتی ہے۔ جب کھانے کے لیے گولیاں اور پینے کے لیے آنسو باقی بچتے ہیں، تب ہمیں امن کی قدر کا احساس ہوتا ہے۔ وہ امن جو ایک پرندہ ہے اور ایک عرصہ سے اس دھرتی پر اپنا آشیانہ تلاش کر رہا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ امن کا یہ پرندہ جہاں پر بھی بیٹھتا ہے وہاں سے وہ اس طرح اڑایا جاتا ہے جس طرح حضرت باہو نے فرمایا تھا کہ:

تاڑی مار اڈار نہ باہو
اساں آپے اڈن ہارے ہو

مگر اس پرندے کو تاڑی مار کر نہیں بلکہ گولی داغ کر اڑایا جاتا ہے اور یہ پرندہ اپنے بہتے ہوئے لہو کے ساتھ کبھی افغانستان کی چٹانوں پر بیٹھتا ہے تو کبھی عراق کے صحراؤں کی ریت پر۔ آج یہ پرندہ یمن میں کھڑے کھجوروں کے اداس درختوںمیں اپنے لہو میں بھیگے ہوئے پروں کے ساتھ پناہ لینے کی کوشش کررہا ہے۔ مگر وہ پرندہ وہاں پر انسانیت کے ساتھ ہونے والے اذیت ناک سلوک کا مشاہدہ کررہا ہے اور اگر حساس سماعت سننا چاہے تو اس پرندے کی زخمی چونچ سے وہ گیت نکل رہے ہیں جو گیت عرب شاعروں نے اپنے بیٹوں کے جسموں سے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر لکھے ہیں۔ وہ گیت جو کبھی پرانے نہیں ہوئے، مگر اب بھی عرب سرزمیں کے معصوم دل شاعر ایسے گیت تخلیق کر رہے ہیں جن میں پوری دنیا کا درد سمایا ہوا ہے۔

وہ سارے اداس اور آنسو بہاتے گیت آج یمن کی سلگتی ہوئی دھرتی سے اٹھ رہے ہیں۔ وہ گیت جو ہمیں کہہ رہے ہیں کہ:

آخر انسانیت کا خون کب تک بہے گا؟
آخر لوگ اپنے خصیص مفادات کے لیے
بچوں کو کب تک قتل کرتے رہیں گے؟
آخر انسان انسانیت پر ظلم کرنا کب بند کریں گے؟
آخر ظلم کی تاریک اور سیاہ رات کب ختم ہوگی؟
آخر انسان یہ کب جان پائے گا کہ
’’خانہ جنگی اجتماعی خودکشی ہے‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔