تجزیہ کار اور اُن کی اقسام

میرا اور مجھ جیسے کئی لوگوں کا سوال سادہ سا ہے کہ تجزیہ آخر ہے کیا؟


مشہود تبارک April 11, 2015
زندہ ہاتھی لاکھ اور مردہ سوا لاکھ کا یہ محاورہ صادق آتا ہے اُن لوگوں پر جوخود کو دفائی تجزیہ کار کہلوانے پر بہت شاد رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

گذشتہ چند برسوں میں پاکستانی میڈیا میں ٹی وی چینلز کی بدولت لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آگیا ہے۔ اس انقلاب کی بدولت عوام جہاں شعور سے بہرہ مند ہوئے وہیں اس پیشے سے وابستہ افراد کی زندگیوں میں معاشی خوش حالی بھی آئی۔

چینلز مالکان نے کرنٹ افیئر پر مبنی پروگرام شروع کئے جن میں عمومی طور پر ایک اینکر تین یا چار مہمانوں کو بلا کر کسی نہ کسی موضوع پر انکی لڑائی کرواتا ہے۔ ابتدائی برسوں میں یہ مہمان کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے ہوا کرتے تھے جو اینکر اور اس کے پروڈیوسر کی خوشامدیں اور سفارش کرکے پروگرام شروع ہونے سے دو دو گھنٹے قبل ہی اسٹوڈیو آجایا کرتے تھے۔ ٹی وی پر مفت پبلسٹی اور اپنی پہچان کروانے کی حرص میں یہ سیاستدان اینکر اور اس کی ٹیم کو مختلف طریقوں سے راضی رکھتے رہے اور یوں وہ وقت آگیا کہ لوگ فلمی اداکاروں سے زیادہ اِن سیاسی اداکاروں کو جاننے لگے اور یہیں سے اِن سیاسی اداکاروں کے نخروں کا آغاز ہوا۔

پہلے پہل تو اُس اسٹوڈیو جہاں آنے کے لئے منتیں کی جاتی تھیں وہاں آنا اپنی شان کے خلاف سمجھا جانے لگا اورگھر پر ڈی ایس این جی وین کی فرمائش کی جانے لگی، پھر باقی مہمانوں کے بارے میں تفتیش شروع ہوئی اور باور کروایا جانے لگا کہ فلاں ہوگا تو میرا آنا مشکل ہے کیوں کہ میرا لیول سیاست میں اُس سے زیادہ ہے یا پھر یہ کہ کیا میں جونیئر لوگوں کے ساتھ بیٹھوں؟؟؟

اگلے مرحلے میں اِن سیاستدانوں کی اکثریت نے پورے پروگرام میں اکیلے آنے کی فرمائشیں شروع کردیں اور اس طرح چینلز کی انتظامیہ کو پروگرام چٹپٹا بنانے اور دنگل کا اکھاڑا بنانے میں سخت مشکلات پیش آنے لگیں۔ اب چینل کو تو پروگرام کا پیٹ بھرنا ہی تھا لیکن سوال یہ تھا کہ بھلا سیاستدانوں کے بے جا نخروں کے بعد وہ کون سی مخلوق ہوسکتی ہے جو بالکل سیاستدانوں کی طرح نہ صرف کسی کی پگڑی احسن طریقے سے اُچھالے اور جو سیاستدانوں ہی کی طرح چینل کو فری میں اپنا وقت دے سکے؟

تو یہیں سے اُن لوگوں کی لاٹری نکلنے کا آغاز ہوا جو اپنے آپ کو کرنٹ افیئرز کے پروگرامز میں تجزیہ کار کہلوا کر روز شام سے رات بارہ بجے تک کسی نہ کسی چینل پر دنگے اور فساد کی محفل برپا کرتے ہیں۔ کسی بھی شعبے مہارت کے لئے رفتہ رفتہ منازل طے کرکے ہی آپ اس کے بلند ترین مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ مثلاً ایم بی بی ایس کے بعد سرجن بننے میں بالکل اسی طرح تجربہ اور محنت درکار ہوتی ہے جیسے کسی لیکچرار کو کسی یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بننے میں ہوتی ہے۔ مگر شاید اللہ کا کچھ خاص کرم شعبہ صحافت میں ہے کہ جتنی تیزی سے شدید گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کے مارے ہوئے غریب آدمی کے جسم پر گرمی دانے نہیں نکلتے، اُس سے کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ یہ تجزیہ کار اپنے بِلوں سے باہر نکل آئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کی کئی اقسام ہیں۔ اِن میں سے کچھ عمر رسیدہ ہیں، کچھ درمیانی عمر کے اور کچھ نوجوان ہیں۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ زیادہ قہقہہ نوجوانوں کو دیکھ کر لگانے کا جی کرتا ہے جنکی اکثریت سطحی باتوں کو تجزیے کا نام دے کر بقراطی انداز میں لوگوں کے ذہنوں میں زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے۔

عمر رسیدہ یعنی انکل ٹائپ تجزیہ کاروں کی اکثریت کسی خوبرو دوشیزہ کے ساتھ پرو گرام کرنے کو ترجیح دیتی ہے، جسکا بنیادی کام پروگرام میں بریک لینا اور انکل کی بتائی گئی سنسنی خیز باتوں (جن کی اکژیت جھوٹ ہوتی ہے) پر اتنے زور سے سر ہلانا ہوتا ہے جیسے انکی سمجھ میں سب آرہا ہے اور انکی پروگرام کے موضوع پر مکمل گرفت ہے۔ جب کہ صاف دِکھ رہا ہوتا ہے کہ اِن بیچاریوں کی کرنٹ افیرز میں نالج اور قابلیت اُتنی ہی ہے جتنی وزیراعظم کی صاحبزادی کو اِنکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ بنانے کے لئے درکار تھی۔

https://twitter.com/medicophilic/status/163172775945715714



خاتوں میزبان کے کئی فائدے ہیں مثلاً اگر انکل کی فالتو ٹیں ٹیں آپکو بور کررہی ہو تو آپ گلیمر کے لئے بٹھائی گئی خاتون کو دیکھ کر دل بہلا لیں۔ ان دو شیزاوں کا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بیچاریاں پروگرام کے دوران ہی انکل کی ڈانٹ ڈپٹ بھی برداشت کرلیتی ہیں جو شاید کوئی باقائدہ صحافی نہ کرے بلکہ انکل کی تصحیح کرنے لگ جائے۔ دیکھا تو یہ بھی گیا ہے کہ عموماً لوگوں کا سفر چھوٹے چینل سے بڑے چینل کی جانب ہوتا ہے مگر ایک انکل کے ساتھ اُلٹا معاملہ ہوا۔ موصوف آجکل ایک چھوٹے چینل پر پائے جاتے ہیں اور تجزیہ نگاری کے خوان میں لذت دیکھئے کہ پورا ہفتہ ایک ہی کام کرکے وہ نہ ہی بور ہوتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔

درمیانی عمر کے تجزیہ کاروں کی اکژیت اپنے آپکو انکلوں سے بہتر سمجھتی ہے۔ اِس لاٹ کا ہر تجزیہ کار خود کو علامہ اور دوسرے کو ایک پرندے کا پٹھہ سمجھتا ہے۔ اِن میں سے ایک صاحب جو خود کو حد سے زیادہ 'اِنٹیلیکچوول' سمجھتے ہیں اور آجکل اُس میڈیا گروپ کے ٹی وی پر بے شرموں کی طرح پروگرام کرتے ہیں جس کا نام ہی امن کی ضد ہے۔ موصوف اپنے سقراتی کالمز میں یہ پابندی کے ساتھ لکھا کرتے تھے کہ کئی برس پہلے پارلیمنٹ میں کی گئی متنازع تقریر کے منظرِعام پر آنے کے بعد وزیرِدفاع خواجہ آصف بس تبدیل ہونے کو ہیں۔

درمیانی عمر کے تجزیہ کاروں کے ایک ٹولے نے تو حد ہی کردی ہے۔ یہ چار پانچ دوستوں کا گینگ ہے جو ایک دوسرے کو اپنے پروگرام میں بُلا بُلا کے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ پیر سے جعرات دو دوست ایک چینل پر مصروف عمل رہتے ہیں اور باقی دوست مہمان بنتے ہیں۔ پھر جمہ سے اتوار دوسرے چینل اور پروگرام میں وہ مہمان میزبان بن جاتے ہیں اور یوں حقِ دوستی ادا کرکے احسان کا بدلہ اُتارتے ہیں۔ اِن لوگوں کے صدقے واری جانے کا دل اس لئے بھی کرتا ہے کہ اِن کے پاس کتنا فارغ وقت ہے جو وہ ملک و قوم کو بہتر مشورے دینے میں صرف کرتے ہیں۔ ہر وقت ٹی وی اسکرین پر مسلط رہنے کی ہوس انسان کی رہی سہی کریڈیبیلٹی بھی ختم کردیتی ہے۔





تجزیہ کاری کس قدر منافع بخش کاروبار ہے اِسکا اندازہ یوں ہوتا ہے کی لوگ سیاست چھوڑ کر اس کاروبار کو اپنا رہے ہیں۔ ایک صاحب پہلے سابق فوجی صدر کی خوشامدوں میں مصروف نظر آئے پھر وہاں تسلی نہ ہونے پر اُس وقت کی برسرِاقتدار پارٹی میں چلے گئے اور وزیراعظم کے آگے پیچھے خوشامدی انداز میں بھاگتے دوڑتے نظر آئے۔ اُسکے بعد آخری لائف لائن کے تحت پارٹی سربراہ کے مشیر لگنے میں کامیاب ہوئے مگر جلد ہی وہاں سے بھی فارغ کئے گئے۔ جب کہیں دال گلتی نطر نہ آئی تو اب وہ کونسا شعبہ تھا جہاں پاور ہو، جہاں شہرت ہو اور جہاں زاتی مفادات کا تحفظ ہوسکے۔ جی جی ٹیھک سمجھے آپ ۔۔۔۔ یہ موصوف بھی اب تجزیہ کاروں کے ریوڑ میں پائے جاتے ہیں۔

کم و بیش ایسا ہی ایک کیس انکل تجزیہ کاروں میں بھی ہے وہ کورٹ کا نوٹس ملنے کے بعد ککھ نہ بگڑنے کی خوش فہمی میں رہے مگر قیادت سے تعلقات اتنے بگڑے کے اُنھوں نے بھی تجزیہ کاری کے ڈربے غٹرغوں کرنے میں عافیت جانی۔ کوئی اِن دونوں سے نہیں پوچھتا کہ حضرات اپ دونوں کو اگر اس قبیلے میں آنا ہی تھا تو کم از کم دو تین سال گمنامی میں گزار کر اپنی سیاسی وابستگی کا دھبہ تو دھو لیتے کیونکہ کہنے ہی کی حد تک صحیح مگر تجزیہ کار کو نیوٹرل ہونا چاہیے۔مذکورہ درمیانی عمر والے تجزیہ کار آجکل چار دوستوں کے ٹولے کی مرہونِ منت اُن ہی کے پروگرامز میں زیادہ جلوہ افروز ہوتے ہیں۔

آخر میں آتے ہیں نوجواں تجزیہ کار کی طرف ۔۔۔۔ اِن کی اکثریت چار پانچ سال غلط تلفظ کے ساتھ نیوز ریڈر رہی ہے۔ چونکہ سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے کُلیئے کے مطابق چینل کے پروگرامز زیادہ تھے اور باقاعدہ اینکرز کی تعداد کم اِسی بنا پر کم خرچ بالا نشیں کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اِن لوگوں کو چانس دیا گیا۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ ہی لیتا ہے، اسی لئے یہ لوگ بھی مختلف پروگرامز میں بیپر یا مہمان کے طور مدعو کرنے پر اپنے نام کے آگے نہ صرف تجزیہ کار بلکہ اب تو سینئر تجزیہ کار لکھنے پرمصر رہتے ہیں جنکو عموماً اِن کا دل رکھنے کو پورا بھی کردیا جاتا ہے۔

اِسکی ایک چھوٹی سی مثال ایک ایسے اینکر ہیں جنھیں دیکھ کر سمجھ ہی نہیں آتا کہ اِنکو بچوں میں گنا جائے یا بڑوں میں؟؟ موصوف نے اپنا چینل اِس اُمید پر چھوڑا کے نئی جگہ ضرورت سے زیادہ بول سکیں گے لیکن ابھی تک گونگوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں اور شاید اسی بے چینی کی وجہ سے لوگوں کو ملتجیانہ فون کرکے خود کو مہمان بنانے پر اصرار کرتے ہیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ یہ صاحب اپنے پرانے چینل واپس جانے کے لیئے بھی انتظامیہ سے رابطہ کر رہے ہیں جسکی بنیادی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ رمضان ٹرانسمشن میں لوگوں کو سچے جھوٹے جزباتی خطوط سنا کر اور سحری افطاری کا میلہ ہوسٹ کرنے میں ثواب پھی ملتا ہے اور اچھے پیسے بھی۔



زندہ ہاتھی لاکھ اور مردہ سوا لاکھ کا یہ محاورہ صادق آتا ہے اُن لوگوں پر جو خود کو دفائی تجزیہ کار کہلوانے پر بہت شاد رہتے ہیں۔ نام دفاعی تجزیہ کار اور تبصرہ ملکی سیاست پر۔۔۔ سبحان اللہ۔ ایک صاحب نے ایک مشہور اینکر کے پروگرام میں بریکنگ نیوز پر آکر اپنا بیپر دیا کہ وہ شہیدوں کی وارث سیاسی جماعت جوائن کرچکے ہیں پھر ہم نے دیکھا کہ مزکورہ سیاسی جماعت کے کسی پروگرام میں تو آپ نظر نہ آئے لیکن اکثر شام کو مختلف پروگرامز میں دفاعی تجزیہ کار کے طور پر آپ قوم کو اپنے اِرشاداتِ جلیلیہ سے مستفید کرتے رہتے ہیں۔

میرا اور مجھ جیسے کئی لوگوں کا سوال سادہ سا ہے کہ تجزیہ آخر ہے کیا؟ کیا آپکا وہ خیال جو آپکی ذہنی اختراع ہے اور جسے آپ ہر صورت صحیح ثابت کرنے پر تُلے نظر آتے ہیں یا تجزیہ کہیں سے دی گئی وہ لائن ہے جسکی بنیاد پر آپ راتوں رات موٹر سائیکل سے بلٹ پروف گاڑی تک جا پہنچے ہیں؟

[poll id="349"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

مقبول خبریں