مولانا مودودی ایوب خان اور سیاسی گند

میں جب یہ کہتا ہوں تو کسی قسم کی نکتہ آفرینی نہیں کرتا کہ پاکستان اب نہ اسلامی ہےنہ جمہوری ہےاور نہ ہی پوراپاکستان ہے


Abdul Qadir Hassan September 03, 2015
[email protected]

گورنر نواب امیر محمد خان پرانی طرز کے ایک جاگیردار تھے سخت گیر مگر مخصوص قسم کا مذہبی رجحان بھی رکھتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ صدر ایوب خان اور مولانا مودودی کی ملاقات ہو جائے، جب ایک بار ایوب خان لاہور آئے تو نواب صاحب ان دونوں بڑوں کی ملاقات کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مولانا پروٹوکول کے تکلفات کو پسند نہیں کرتے تھے چنانچہ یہ ملاقات مولانا کی قیامگاہ پر نہیں لاہور کے گورنر ہاؤس میں منعقد کرنے کی تجویز ہوئی اور وقت مقررہ پر مولانا گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔

ایوب خان نے مولانا کے مقابلے میں بڑا بننے یا بڑا ظاہر کرنے کے لیے فوری توجہ نہ کی اور وہ میز پر پڑے کاغذات کو نمائشی طور پر الٹ پلٹ کرتے رہے۔ بالآخر انھوں نے میز سے سر اٹھا کر اپنے مہمان مولانا کا خیرمقدم کیا اور ان سے کہا کہ مولانا آپ تو ایک علمی شخصیت ہیں آپ سیاست کے گندے میدان میں کیوں آ گئے۔ مولانا جن کا دماغ ہر وقت حاضر رہتا تھا جواب میں کہا کہ کیا سیاست کے میدان کو گندہ ہی رہنے دیا جائے۔

اس ملاقات کی جتنی گفتگو سامنے آئی ہے وہ بڑی دلچسپ ہے جو کسی موزوں وقت پر نقل کی جا سکتی ہے، اس ملاقات کے بعد ایوب خان نے نواب صاحب سے کہا کہ آپ نے جو آدمی مجھے ملایا ہے وہ تو مجھ سے بھی بڑا آمر ہے۔ مولانا نے ایوب خان کی ہر پیش کش مسترد کر دی یہانتک کہ سخت ترین دھمکی کو بھی یہ کہہ کر بے معنی قرار دے دیا کہ جب یہ کام شروع کیا تھا تو یہ سب معلوم تھا کہ یہ کام کرنے والوں کے لیے دنیا والے کس انجام کے درپے رہتے ہیں۔

اس گفتگو میں سے سیاست کے گند والے حصے کو نقل کرنا مقصود تھا جو ہمارے حالات حاضرہ کا بھی ایک عکس ہے ہماری سیاست گند سے بھر گئی ہے۔ آپ کسی دن کا اخبار دیکھ لیں بڑے سے بڑے لیڈر بھی زبانی کلامی لڑ رہے ہیں۔ اب تو زرداری صاحب اور میاں صاحب کی دوستی ختم اور لڑائی شروع ہے۔

اسی طرح چھوٹے بڑے دوسرے لیڈر بھی اپنے حریف کو معاف کرنے پر رضا مند نہیں ہیں بلکہ بات مخالفانہ بیانات سے کسی حد تک گالی گلوچ کا رنگ اختیار کر گئی ہے اور اسے ہی سیاست سمجھ لیا گیا ہے ویسے ہمارے ملک میں سیاست کی دنیا میں کبھی ٹھہراؤ اور استحکام نہیں آ سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لیڈر کسی نظریے کے قائل نہیں رہے بس وقتی ضرورت اور روز مرہ کی سیاست کے قائل ہو گئے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاست کو ایک گندہ مشغلہ بنا دیا گیا ہے، ایوب خان جو ایک فوجی حکمران تھا اس سیاست کو مزید گندہ کرتا رہا اور ساتھ ہی اسے گندہ کہہ کر خود کو اس سے بے گناہ قرار دیتا رہا ورنہ سیاست میں غلاظت کا آغاز موصوف نے ہی کیا تھا۔ ایک نو آزاد اور برسہا برس تک غلامی کی زندگی سے آزادی میں سانس لیتے ہی اس قوم پر فوجی آمر مسلط ہو گیا جس نے سیاست کو الٹ پلٹ کر دیا۔

موصوف نے خود کئی لیڈر بھی تخلیق کیے جس میں سرفہرست جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے جو اپنی ایرانی نژاد بیگم نصرت کے ذریعے دوسری ایرانی خاتون ناہید سکندر مرزا کی سفارش پر اقتدار کے ایوان میں گھس گئے اور پھر ایوب خان تو ذہین بھٹو کے لیے ایک آسان شکار تھے۔ چنانچہ بھٹو اس دور میں خوب چمکے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بھٹو صاحب بطور لیڈر ایوب خان کی پیداوار تھے لیکن انھوں نے اپنا الگ مقام بنا لیا تھا۔ ان دنوں میری ان سے پہلی ملاقات ایچی سن کالج کی ایک تقریب میں ہوئی جس کے وہ خصوصی مہمان تھے۔

تقریب کے بعد جب چائے وغیرہ کا دور چلا تو محض اتفاق سے بھٹو صاحب اس ٹیبل پر بیٹھ گئے جہاں میں پہلے سے موجود تھا۔ مجھے یاد ہے کہ چائے انھوں نے بنائی اور مجھے بھی ایک پیالی دے دی۔ ان دنوں وہ یونیورسٹی کی ایک تقریب میں طلبہ کی ہلڑ بازی کا نشانہ بن گئے اور پولیس نے متعدد طلبہ کو گرفتار کر لیا جن کی رہائی کی کوشش جاری تھی، میں نے بھی عرض کیا کہ آپ ان نوجوانوں کو معاف کر دیں چنانچہ انھوں نے وعدہ کیا اور اسی دن یہ طلبہ رہا ہو گئے۔

اس واقعے کے بعد بھٹو صاحب سے رابطہ ان غیر ملکی سفروں اور دوروں میں ہوا جن میں وہ ایک برتر مسلمان لیڈر بن کر قذافی اور بومدین وغیرہ کو مسلمانوں کی تازہ سیاست سمجھایا کرتے تھے۔ اس دورے میں جو کوئی نو مسلمان ملکوں پر محیط تھا، مصر میں جب میں نے ان کے پریس سیکریٹری مرحوم خالد حسن سے پوچھا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں تو انھوں نے بتایا کہ وہ مصر کے لیڈر انور السادات کو سیاست سمجھا رہے ہیں، وہ ان نو مسلمان ملکوں میں جہاں بھی گئے سب حکمرانوں کو سبق پڑھاتے رہے وہ ان سب سے ذہنی لحاظ سے برتر تھے۔

بات پاکستان کی سیاست کی ہو رہی تھی جس کو ایوب خان گندی سیاست کہتے تھے اور مولانا مودودی اس گند کو صاف کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کہ ایوب خان کامیاب رہا اور وہ اس سیاسی گند میں مزید اضافہ کر گیا بلکہ کئی گندے سیاست دان پیدا بھی کر گیا۔ آج ہم خدا اور رسول پاک کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں جیسے سیاسی کھیل میں مصروف ہیں وہ تو ایک عام سی ریاست سے بھی بدتر ہے کجا کہ مقدس ناموں سے اسے منسوب کیا جائے۔

میں جب یہ کہتا ہوں تو کسی قسم کی نکتہ آفرینی نہیں کرتا کہ پاکستان اب نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اور نہ ہی پورا پاکستان ہے۔ اس کا نصف ہم نے لٹا دیا اور اب باقی ماندہ کی خدا خیر کرے۔ ٹیکسوں کا جو اندھا دھند حملہ جاری ہے سیاست اور مسلم قومیت سے بے خبر لوگ جس طرح ہم پر مسلط ہو گئے ہیں وہ سوچے سمجھے بغیر یا پھر ارادتاً ایسے ایسے ٹیکس لگا رہے ہیں جن پر پورا ملک سرتاپا احتجاج میں ہے۔ یہ ٹیکس پر ٹیکس اور ہر بات پر ٹیکس شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ہو۔

معقول حکومتیں ڈر کر ٹیکس لگاتی ہیں اور بار بار قوم کو اپنی مجبوری اور قومی مفاد سے آگاہ کرتی ہیں کہ یہ ٹیکس کیوں ضروری تھا۔ میں واشنگٹن میں اکمل علیمی کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں سڑک کی مرمت ہو رہی تھی اور آدھی سڑک بھی بند تھی اس پر ایک بڑا سا بورڈ لگا تھا کہ یہاں آپ کا ٹیکس صرف کیا جا رہا ہے یہ جمہوریت کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔ بہر کیف دعا کریں کہ خدا ہمیں ٹیکس کے جان لیوا عذاب سے محفوظ رکھے لیکن دعا سے کام نہیں چلے گا۔

مقبول خبریں