حرمت انسانیت اور متوازن معاشرہ

مجاہد حسین  بدھ 16 ستمبر 2015

انسانی تمدن کی بنیاد جن قوانین پر قائم ہے اس میں اولین جان کو محترم کہا گیا ہے، یعنی انسان کے تمدنی حق میں پہلا حق زندہ رہنے کو دیا گیا ہے جب کہ اس کے تمدنی فرائض میں بھی اول فرض زندہ رہنے دیے جانے کا فرض عائد کیا گیا ہے۔

دنیا میں جتنی بھی شریعتیں اور مہذب قانون موجود ہیں ان میں احترام نفس کا قانون ضرور موجود ہے، البتہ جن قوانین یا مذاہب میں اسے تسلیم نہیں کیا گیا وہ مہذب انسانوں کا قانون تو بن سکتا ہے لیکن اس کے ماتحت رہ کر کوئی انسان یا انسانی گروہ پر امن زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ہی اسے فراغ حاصل ہو سکتا ہے۔

یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جہاں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ ہو، اس کا کوئی احترام نہ ہو اور نہ ہی حفاظت یعنی امان کا بندوبست نہ ہو وہاں کیسے چند افراد بھی رہ سکتے ہونگے، ان میں باہم کاروبار یا دیگر معاملات بحسن و خوبی انجام پا سکتے ہیں کیونکہ ہر شخص کو تجارت، صنعت کاری، گھر داری، سیر و تفریح اور متمدن زندگی گزارنے کی ضروت ہوتی ہے۔

پھر اگر ضروریات زندگی سے قطع نظر خالص انسانیت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی فائدے کی خاطر یا کسی ذاتی عداوت کسی دوسرے انسان کو قتل کرنا بدترین سنگدلی ہے۔ دنیا کے سیاسی قوانین تو احترام حیات انسانی کو صرف سزا اور قوت کے زور سے قائم کرتے ہیں لیکن ایک سچے اور حقیقی مذہب کا کام دلوں میں اس کی درست قدر و قیمت کا پیدا کرنا ہے تا کہ جہاں انسان کوکسی کو تعزیر کا خوف ہو اور نہ ہی اسے کسی قانون کے اہلکار کے روکنے کا ڈر ہو۔

احترام انسانیت کی موثر اور جامع تعلیم اسلام ہی میں دی گئی ہے ۔ قرآن کریم جو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک ضابطہ حیات ہے اس میں جگہ جگہ انسانی جان کے احترام کی مختلف پیرائیوں میں تعلیم دی گئی ہے۔ سورۃالمائدہ میں حضرت آدم ؑ کے دوبیٹوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیاکہ ’’اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل کو یہ لکھ دیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیا اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔‘‘

حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مومن اپنے دین کی وسعت میں اس وقت تک برابر رہتا ہے جب تک وہ کسی حرام خون کو نہیں بہاتا۔‘‘ سنن نسائی میں حدیث ہے کہ ’’قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہو گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کا فیصلہ لوگوں کے درمیان کیا جائے گا وہ خون کے دعوے ہونگے۔‘‘ نبی ﷺ کی بعثت سے قبل عرب کے خونخوار ماحول میں انسانیت کا احترام اور امن پسندی کا نظام تباہ ہو چکا تھا پھر وہیں رحمت للعالمین ﷺ کی موجودگی میں مہذب معاشرہ تشکیل پایا جس کا اثر چہار سو پھیل گیا اور اسلامی تعلیمات نے انسان کی بے شمار غلط کاریوں اور دیگر گمراہیوں کے ساتھ ساتھ انسانی جان کی بے قدری کا بھی استحصال کر دیا۔ آج دنیاکے مہذب قوانین میں حرمت نفس کو وہ درجہ ملا جو کسی بھی لحاظ سے کسی انقلا ب سے کم نہیں ہے۔

قیدیوں اور غلاموں کو درندگی سے محفوظ کر دیا ورنہ جاہلانہ عرب معاشرے میں قیدیوں اور غلاموں کو مختلف انداز میں سزا و عذاب سے دوچار کیا جاتا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ ایک بار پھر وہی جاہلانہ کیفیت دکھائی دی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ بغیر کسی وجہ یا اپنی ذاتی خواہشات کے بل بوتے پر کشت و خون کا بار گرم ہو گیا ہے۔

حالانکہ قرآن مجید میں واضح فرمایا دیا گیا ہے کہ ’’انسانی جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اس کو قتل نہ کرو مگر اس وقت جب کہ حق اس کے قتل کا مطالبہ کرے۔‘‘ یعنی صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ انسانی جان کی حرمت صرف اسی وقت تک ہے جب تک اس پر حق قائم نہ ہو جائے۔ ہر شخص کواس وقت تک زندہ رہنے دیا جائے جب تک وہ معاشرے میں فتنہ و فساد یا انتشار پھیلانے میں اپنا حصہ نہ ادا کرے یعنی اسے اس وقت تک امان حاصل ہے جب تک وہ کسی دوسرے کی جان پر ناحق حملہ نہ کر دے اگر کسی بھی صورت ایسا ہو جائے تو گویا اس نے حرمت نفس کی نفی کی ہے۔

اب اسے قتل کر دینے کا حکم ہے چاہے وہ کسی قوم یا کسی ملک نے اسلام کی حلقہ بگوشی اختیار کی ہو یا نہ کی ہو۔ اجتماعی تاریخ کا کوئی قانون و انصاف پسند معاشرہ اس سے انکاری نہیں کہ دنیا کے اخلاقی قوانین میں انسانی جان کی حرمت قائم کرنے کا فخر جتنا اسلام کو حاصل ہے اتنا کسی اور مذہب کو حاصل نہیں۔ ہمارے پاس تاریخ میں المیہ یہ ہے کہ ہم مال و متاع اور جاہ و حشم کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں جب کہ قانون کی عملداری صرف غریب اور مفلس و محکوم افراد پر لاگو کی جاتی رہی ہے حالانکہ عدل و انصاف کے پیمانوں میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔ ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں فاطمہ نامی عورت کا مقدمہ پیش ہوا، کئی معتبرین نے اس معاملے میںسفارش کی مگر نبی محترم ﷺ نے اس پر برہمی کا اظہارکیا اور فرمایاکہ اگر اس کی جگہ فاطمہؓ بنت محمد ﷺ بھی ہوتی تو قانون کے مطابق فیصلہ کیا جاتا۔ پاکستان پر گزشتہ دودہائی سے ایک پرائی جنگ مسلط ہے۔

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے باعث ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کی کئی وجوہات میں اہم وجہ پھانسی سمیت کئی کڑی سزاؤں کی معطلی ہے۔ 2008ء سے 2015ء کے اوائل تک ان سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہو سکا جس کی وجہ سے ملک ہر طرح کے انتشار کا شکار رہا ہے۔ اب نیشنل ایکشن پلان کے باعث ان سزاؤں سے پابندی اٹھائے جانے سے بہتر نتائج برآمد ہو رہے ہیں دوسری جانب دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف ضرب عضب کے باعث امن و امان کی ملک گیر صورتحال بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے ماحول میں بالخصوص مغربی ممالک پھانسی جیسی سزاؤں پر عمل درآمد کے مخالف ہیں اور ان کا دباؤ ہے کہ ان سزاؤں پر فوری طور پر عمل درآمد بند کیا جائے۔

ان کے نزدیک یہ سزائیں انسانیت سوز ہیں جو حرمت نفس کے عین خلاف ہیں جب کہ دین خداودندی کے نزدیک جب حق کا اطلاق ہو جائے وہاں کسی کی نہیں سنی جاتی۔ انسان بنیادی طور پر اپنی جبلت میں نیکی کے ساتھ بدی اور اطاعت کے ساتھ معصیت بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کی سرکش طبیعت کو اطاعت پر مجبور کرنے کے لیے ایسے قوانین کی ضرورت ہے جس میں حکم دینے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر س کی تعمیل نہ کی گئی تو سزا کیا ہے۔ اور منع کرنے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر فعل ممنوعہ سے اجتناب نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ کیا بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ صرف یہ کہہ دینا کافی نہ ہو گا کہ ’’ًجس جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہ کرو‘‘ بلکہ جب تک یہ بتا دیا کہ اگر اس عظیم گناہ سے اجتناب نہ کیا اور فساد فی الارض پھیلایا گیا تو اسے کیا سزا ہو گی۔

انسانی تعلیم میں اس نقص کا رہ جانا ممکن ہے البتہ خدا کے قانون میں ایسا ہونا غیر فطری ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی خون کی حرمت اس وقت تک ہے کہ جب تک اس پر حق نہ لاگو ہو جائے، اسے زندگی گزارنے کے تمام حقوق حاصل ہیں جب تک کہ وہ حدود سے تجاوز نہ کر جائے، جوں ہی وہ حدود سے باہر نکلا اور زمین پر فساد و انتشار کا باعث بنا اسے سزا کا دیا جانا فرض عین ہے تا کہ ایک متوازن معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔