ایک تھا حجاج بن یوسف

اس کی ایک تقریر تو تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور اس کا عنوان بھی معنی اور مقصد دونوں کے اعتبار سے


Abdul Qadir Hassan October 04, 2015
[email protected]

مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا ایک نہایت ہی سخت گیر حکمران تھا حجاج بن یوسف اور یہ جس قدر سخت گیر تھا اتنا ہی دلفریب مقرر بھی تھا۔ لوگ اس کے نام پر دور دور سے چلے آتے اور اس کی تقریر سے لطف اندوز ہوتے۔ اس کی تقریریں مسلمانوں کی حکمرانی کی تاریخ کا ایک نادر سرمایہ ہیں جو سیاسی تذکروں میں کہیں کہیں مل جاتی ہیں۔

اس کی ایک تقریر تو تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور اس کا عنوان بھی معنی اور مقصد دونوں کے اعتبار سے۔ ہوا یوں کہ حکمران کو اطلاع ملی کہ فلاں بڑے شہر غالباً بغداد میں سفید ریش بزرگ حکومت سے بہت ناراض ہیں اور کسی صورت بھی مخالفت سے باز نہیں آتے۔ ان سفید ریش بزرگوں میں کئی بڑے بڑے نام بھی تھے اور ان کی سرکوبی کے لیے حجاج جیسے بے رحم حکمران کو کُلی اختیار دے دینا آسان نہیں تھا لیکن جب حالت حد سے بڑھ گئی اور بزرگوں نے نوجوانوں کو بھی جمع کرنا شروع کر دیا تو دارالحکومت میں طے پایا کہ حجاج کو بغداد کا گورنر مقرر کر دیا جائے۔

اس کے سوا اور کوئی علاج نہیں ہے۔ چنانچہ حجاج اپنے پروٹوکول کے ساتھ ایک دن بغداد میں داخل ہوا اور آنے والے جمعہ کے دن عوام سے خطاب طے ہوا۔ مسلمانوں کے ہاں جمعے کے دن خطبہ میں اہم اعلان ہوا کرتے تھے۔ اس جمعہ کو خطبہ خود حجاج نے دیا۔ بلند منبر پر کھڑے ہو کر اس نے حاضرین پر نظر ڈالی ان کا جائزہ لیا کہ کون لوگ ہیں اور کن کی اکثریت ہے۔

پورا بغداد حجاج کے خطبہ جمعہ کا منتظر تھا۔ مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور اس کے باہر بھی حاضرین موجود تھے۔ حجاج نے خطبہ جمعہ کے روایتی الفاظ سے بات شروع کی۔ مسلمانوں کی امن و سلامتی کی بات کی اور کہا کہ میں امن کی اس خواہش کے باوجود میں کچھ اور دیکھ اور سن رہا ہوں۔ سفید بالوں والے میرے سامنے ہیں اور سروں کی فصل پک چکی ہے جس کے کاٹنے کا وقت آ چکا ہے۔ اگر یہ فصل بروقت کاٹی نہ گئی تو ظاہر ہے کہ خراب ہو جائے گی اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سروں کی پکی ہوئی فصل کاٹ لی جائے ورنہ اس کی خرابی اور تعفن سارے ماحول کو گندہ کر دے گی اور مسجدوں کی بے حرمتی ہو گی۔

اس خطبہ کے بعد جو درحقیقت ایک حکومتی فیصلہ تھا سروں کی فصل کٹنی شروع ہو گئی۔ تاریخ نے ایک بے رحم تماشا دیکھا اور اسے خون سے لکھ دیا۔

حجاج بن یوسف کی یہ تقریر تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔ اس تقریر میں حکمراں حجاج بھی تھا اور عربی زبان کا ایک بادشاہ مقرر بھی۔ آج جب پاکستان میں حالات پر نظر پڑی ہے تو سروں کی فصل پکی ہوئی اور لہلاتی دکھائی دیتی ہے۔

بدعنوانی جسے اب کرپشن کہا جاتا ہے اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس گناہ سے شاید ہی کوئی پاکستانی بچا ہوا ہو۔ یہاں تک کہ ایک نوجوان شہید کیپٹن افراسیاب کا باپ کہتا ہے کہ میں نے تو بیٹا دے دیا اب حکمران بدعنوانی ختم کر دیں یعنی ایک نوجوان شہید کا باپ قوم سے اپنے بیٹے کا یہ اجر مانگتا ہے اور یہ کس قدر دلدوز بات ہے کہ انسان نڈھال ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔

کرپشن بذات خود ایک کفر ہے جس کو ختم کرنے کے لیے اسفند نے جان دے دی اور یہ شہید خدائے تعالیٰ کے حضور جب پیش ہو کر اپنی شہادت کا اجر پائیگا تو جنت کی فضاؤں میں شاید اسے اپنے ہم وطن بھی یاد آئیں اور والد ماجد بھی جو اپنے ملک میں کرپشن کے ہاتھوں ایک مسلسل عذاب میں مبتلا ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنے ایک جانثار بندے کی بات سن کر اس قوم کو غضب کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے غیظ و غضب سے اس روئے زمین سے ملیا میٹ ہو گئیں۔ صرف کھنڈرات باقی رہ گئے جن کے قریب سے گزرنے والے مسافروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد یہاں سے گزر جائیں یہ مغضوب لوگوں کی سرزمین ہے۔

میں تو کچھ عرصہ سے اپنے حالات سے سخت خوفزدہ ہوں۔ اسے میری بزدلی سمجھیں یا تاریخ کا خوف کہ اپنے پیارے پاکستان اور پاکستانیوں کو میں کسی غضب کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ خصوصاً اس صورت میں کہ ان کی اکثریت بے گناہ ہے جو گنہگار ہیں وہ یا تو بدستور حکمرانی کر رہے ہیں اور پاکستانی مسلمانوں کو مغضوب بنائے ہوئے ہیں یا پھر پاکستان کو اس قدر لوٹ چکے ہیں کہ یہ دولت انھیں دنیا کے خوبصورت محلّوں اور آبادیوں میں لیے پھرتی ہے۔ میں نے اپنی بات کو کسی تازہ بدعنوانی سے آراستہ کرنے کے لیے آج کا اخبار کھولا تو دیکھا اور یہ خبر دیکھتے ہی حیرت زدہ رہ گیا۔ بتایا گیا کہ گزشتہ عید کے موقع پر بینکوں نے جعلی نوٹ جاری کیے۔ اس کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں کیا گیا۔

غور کیجیے اگر آپ ہوش و حواس میں ہیں کہ بینک بھی جعلسازی کرتے ہیں اور لوگوں کو جعلی نوٹ جاری کرتے ہیں۔ ایک دن مجھے بتایا گیا کہ تم اپنے بینک سے جو کیش لاتے ہو اسے ہی چیک کر لو کیونکہ تمہارا بینک اس سلسلے میں بدنام ہے۔ چنانچہ میں نے اعتراض کرنے والے کا منہ بند کرنے کے لیے نوٹوں کی ایک دستی چیک کی تو اس میں ایک نوٹ کم تھا یعنی ایک ہزار روپے۔ میرے جیسے تنخواہ دار کے لیے یہ بڑا حادثہ تھا۔ میں غصے میں بینک گیا تو جواب تھا کہ ہم نے تو آپ کو گن کر رقم دی تھی۔ اس کے بعد اس کو سنبھالنا آپ کا کام تھا۔

بات وہی حجاج بن یوسف والی ہے کہ سروں کی فصل پک چکی ہے اور اس فصل کی کٹائی کا وقت آ گیا ہے بلکہ گزرتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اب تو وہ وقت آیا ہے کہ آپ بدعنوان ہیں اگر نہیں ہیں تو اس کا ثبوت پیش کریں مگر میں خود تو یہ ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتا اور بد عنوانی قبول کرنا آسان سمجھتا ہوں کہ زمانے کا چلن اب یہی ہے اور اس کا تذکرہ کرتے رہنا لازم ہے۔

مقبول خبریں