دنیا واقعی گول ہے

ہوتی آئی ہے کہ بد سے بدنام برا ہوتا ہے جب کہ ہر بدنام اتنا برا اور بد بھی نہیں ہوتا جتنا کہ مشہور ہو جاتا ہے،


Saad Ulllah Jaan Baraq October 29, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: ہوتی آئی ہے کہ بد سے بدنام برا ہوتا ہے جب کہ ہر بدنام اتنا برا اور بد بھی نہیں ہوتا جتنا کہ مشہور ہو جاتا ہے، اب ہمارے لیڈروں یعنی خادمان کرام اور رہبران عظام کو لے لیجیے، منفی تنقید ہے لوگوں نے ان بے چاروں کو اتنا زیادہ بدنام کیا ہوا ہے کہ لفظ ''بدنام'' ان کے لیے بہت چھوٹا پڑ جاتا ہے، ان کے ''کالے جامے'' پر اتنے سفید داغ ڈالے ہیں وہ بھی نہایت ہی ''ضدی'' داغ جو سوائے ''نیب و ریب'' کی ''واشنگ مشین'' کے اور کسی طرح بھی نہیں نکلتے جو بہت ہی مہنگی دھلائی ہے اکثر تو ''آدھی کمائی'' تک خرچ ہو جاتی ہے، بے چارے کریں بھی کیا، برص زدہ دامن اور جامہ اچھا بھی تو نہیں لگتا، حالانکہ اگر ان کے دامنوں پر سفید داغ ہیں تو جامہ تو بہرحال کالا ہوتا ہے، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ان میں ایسے بھی داغ ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ داغ اچھے ہیں، مثلاً ٹھیک ہے چور بھی ہوں گے ڈاکو بھی ہوں گے لٹیرے بھی ہوں گے، چلیے جھوٹے عیار مکار اور نوسر باز بھی ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے اندر کچھ صفات بھی رکھتے ہیں، چلو ملک کے لیے عوام کے لیے قوم کے لیے برے ہوں گے لیکن پھر بھی اپنے خاندانوں کے لیے حالیوں موالیوں کے لیے تو اچھے ہوتے ہیں، بے شک لوٹتے ہیں لیکن پھر انتخابات میں لوٹا بھی تو دیتے ہیں، ان ہی طرح کی ایک اور چیز ہے جو بری طرح بدنام ہوئی جا رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے لیکن اس کے اندر کچھ خوبیاں بھی تو ہیں ہمارا اشارہ اس آفت کی پڑیا شیطانی ڈبیہ اور مصیبت کے پٹارے کی طرف ہے جیسے موبائل فون ہے، کیا کمال کی چیز ہے، یہ بھی انھی چیزوں کے زمرے میں آتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

اٹھیں گے بھی کیسے دونوں ہاتھ اور دونوں کان تو اس کے قبضے میں چلے گئے ہیں ویسے تو اس کی خوبیاں ...؎ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے، لیکن اس کے ذریعے جو ایس ایم ایس آتے ہیں... واہ جی واہ ... ہمارا تو خیال ہے کہ اب دنیا کی تمام درس گاہوں، علم گاہوں اور دانش گاہوں کو ختم ہی کر دیا جائے جب وہی کام چار انچ اور دو اونس کا بحر العلوم و فنون کر رہا ہے تو اتنی بڑی بڑی عمارتوں سے کیا فائدہ، ابھی ابھی اس کراماتی ڈبیہ سے جو ''لعل بے بہا'' دستیاب ہوا ہے اس نے تو سائنس، تاریخ، فلسفے اور منطق تمام علوم کی ایسی کی تیسی کر دی ہے، سچ ہے کہ

شفق،دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے وہ دامن میں آئے تو

دنیا کے بارے میں اب تک کہا جاتا ہے کہ گول ہے لیکن پھر بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد نہیں مانتی تھی کہ اگر زمین گول ہے اور گھومتی ہے تو انسان گر کیوں نہیں جاتے، ٹھیک ہے کہ آئزک نیوٹن، آئن اسٹائن بلکہ گلیلیو گلیلی طرح طرح کے دلائل دے کر چلاتے رہے لیکن یقینی طور پر طے نہیں ہوا تھا کہ زمین واقعی گول ہے یا چپٹی ہے لیکن اب اس بحرالعلوم ڈبیہ کے ذریعے ایک ایسی دلیل سامنے آئی ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں، کم از کم شادی شدہ لوگ تو انکار کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، ٹھیک کچھ کنوارے اس کے منکر ہو سکتے ہیں لیکن آخر کب تک؟ ایک دن ان کو بھی تو ''پہاڑ'' کے نیچے آنا ہی ہے چاہے وہ شتر بے مہار ہی کیوں نہ ہوں، دنیا کے گول ہونے کا ثبوت یوں ہے کہ چوہا بلی سے ڈرتا ہے، بلی کتے سے ڈرتی ہے، کتا بھیڑیئے سے ڈرتا ہے، بھیڑیا چیتے سے ڈرتا ہے، چیتا شیر سے اور شیر ہاتھی سے ڈرتا ہے، ہاتھی آدمی سے ڈرتا ہے، آدمی بیوی سے اور بیوی چوہے سے، کون کہتا ہے کہ دنیا گول نہیں ... ہے کسی کے پاس اس کا جواب ...

دنیا کے بارے میں کتنا ہی کچھ کہا کیوں نہ گیا ہو اس سے اختلاف ہو سکتا ہے جہاں تک گلیلیو گلیلی وغیرہ کا تعلق ہے ان کے مقابلے اور مخالفت کے لیے تو وہ مذہبی رہنما ہی کافی تھے بلکہ وہ ان کے مقابل ''چیں'' بول بھی گیا تھا لیکن اب تک پیدا ہونے والے اور بھی بہت سارے دانا دانشوروں کے اقوال زریں بھی اقوال خاکین ثابت ہو گئے جنہوں نے دنیا کے ''کیریکٹر'' پر طرح طرح کی پھبتیاں کسی ہیں کہ یہ عیار ہے مکار ہے نابکار ہے بے وفا ہے بے مہر ہے ہرجائی ہے، خاص طور پر فارسی اور اردو کے قدیم شعرا اور دانشوروں نے تو اسے اتنی بری بری گالیاں دی ہیں کہ بے چاری اگر ڈھیٹ اور بے شرم نہ ہوتی تو اپنے ہی کسی سمندر میں ڈوب کر مر چکی ہوتی، لیکن اچھا ہے کہ اس کی طبیعت بھی سیاسی لیڈروں پر گئی ہے کہ کچھ بھی کہو ٹس سے مس نہیں ہوتی ''چکنی گھڑی'' کہیں کی ... شرم نام کی چیز تو اسے چھو کر بھی نہیں گئی ہے ورنہ فارسی شاعری اور پھر فارسی کی امامت میں ہر مشرقی زبان کے شاعروں نے تو اسے فاحشہ، طوائف، کٹنی، ویشیا، کلٹی اور نہ جانے کیا کیا کہا بلکہ اسے ''عروس ہزار داماد'' یعنی ایک ہزار شوہروں کی زوجہ تک کہا ہے

مجو درستی عہد از جہان ست نہاد
کہ ایں عجوزہ عروس ہزار داماد است

یعنی اس کلنکی دنیا سے وفا کی امید مت رکھ کہ یہ تو ''ہزار شوہری'' بیوی ہے نہ صرف یہ بلکہ اس کی گردش اور تعلق کی وجہ سے وقت اور ایام کو بھی خوب خوب لتاڑا گیا ہے کہ جیسی یہ ہے ویسی اس کی یہ اولاد بھی ہے بلکہ اسی کے تعلق سے آسمان فلک اور گردوں کو نہیں چھوڑا گیا ہے کہ یہ سیاسی لیڈروں کی طرح کسی کے بھی نہیں اور ہر کسی کے ہیں ... اور ان کی بے وفائی اور بدعہدی

رسم بدعہدی ایام چوں دیدا بر بہار
گریہ اش برسمن و سنبل و نسرین آمد

یعنی کی بدعہدی کو جب بہار کے بادلوں نے دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کے آنسو پھول اور پتیوں پر گرنے لگے، مطلب یہ کہ دنیا اور اس کے لواحقین اور متعلقین کو اتنی گالیاں دی گئی ہیں کہ اتنی گالیاں کسی اپوزیشن لیڈر نے حزب اقتدار کو بھی نہیں دی ہوں گی اور اتنے کوسنے اور بددعائیں دی ہیں کہ اتنی دونوں چھوٹے بڑے ''بشوں'' اور اوباما کو بھی نہیں دی گئی ہوں گی، بیج میں ایک ایک لطیفہ + حقیقہ دم ہلا رہا ہے اسے بھی نمٹائے دیتے ہیں جب افغانستان پر روس نے یلغار کی اور بے پناہ مہاجر پاکستان آگئے تو جگہ جگہ ان کے کیمپوں میں عطائی ڈاکٹروں کی بھی بھرمار ہو گئی چنانچہ ہمارے گاؤں میں بھی جو ایک مہاجر کیمپ کے قریب تھا بہت سے بیروزگاروں نے ڈاکٹری کی دکانیں ڈال دیں، ان میں ایک ڈاکٹر جو بہت چل نکلا اور چند ماہ میں کروڑ پتی بن گیا اس کا گاؤں کے ایک شخص سے ٹاکرا ہو گیا تو اس شخص نے کہا کہ اتنے افغانی روسیوں نے نہیں مارے ہوں گے جتنوں کو تم نے یہاں اپنے علاج سے مار دیا ہے، بات دور پھسل گئی ہم دنیا کی گولائی کے اس نئے ثبوت کی بات کر رہے تھے جو بحرالعلوم، کوہ فنون اور گنج اقوال زرین موبائل کے ذریعے ابھی ابھی نشر ہوا اور چونکہ اس کے آخر میں ''فارورڈ'' بھی تھا اس لیے بہت دور دور تک پہنچا اور یہ واقعی بڑی دلیل ہے جو چوہے سے شروع ہو کر چوہے پر ختم ہوتی ہے، ہم نے اس گول زنجیر میں بہت ڈھونڈا کہ سب سے کمزور کڑی کون سی ہے یعنی جو بہت زیادہ ڈرتا ہے یا جس کا خوف مستقل اور زیادہ ہے تو قرعہ فال اس بدنصیب کے نام پڑا جو بھاگ بھی نہیں سکتا تھا اور ٹھہر بھی نہیں سکتا۔

مقبول خبریں