جی جی ہاں ہاں حکم کی تعمیل ہوگی

کمال دیکھیے کہ دو پاکستانی شہری ثبوت کے باوجود 2 گھنٹے تک چوکی پر فریاد کرتے رہے کہ یہ موٹر سائیکل اُن کی ہی ہے۔


عاقب ساحر December 24, 2015
سر تسلیمِ خم کا کلچر اب ہمارے ہر ادارے میں ہے۔ المیہ یہ کہ افسر بالا کے حکم پر قانون کو بھی باآسانی ہنسی خوشی قربان کر دیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پتہ چلا کہ کل دارالحکومت اسلام آباد میں ''جنرل ہولڈ اپ'' تھا۔ پتہ بھی یوں چلا کہ کل شام جب ہم تین دوست دفتر سے واپس اپنے فلیٹ پر جا رہے تھے تو سڑک پر اسلام آباد پولیس کے دو اہلکاروں نے روک لیا اور موٹر سائیکل کے کاغذات مانگے، لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ یہ وہی دن تھا جب کاغذات تو صبح گھر ہی بھول آئے تھے۔

گھر بھی محض دو گلی کے فاصلے پر ہے، عوامی محافظ و سہولت کاروں سے التجا کی کہ آپ بس کچھ وقت دیجیے کہ ہم ابھی کاغذات لے آتے ہیں اتنی دیر ہم میں سے کوئی ایک آپ لوگوں کے پاس ہی رکے گا۔ اگرچہ اُن کو کچھ بات سمجھ تو آئی کہ وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق کہا کہ پیدل جاؤ ٹیکسی پر جاؤ یا جہاز پر، آپ کے پاس صرف اور صرف دس منٹ ہیں، جلدی سے موٹرسائیکل کے کاغذات لے آؤ تو جان چھوٹے گی۔ بادل نخواستہ ٹیکسی لی کہ واپس بھی اسی پر آجائیں گے۔ صہیب الرحمٰن وہیں موٹر سائیکل کے پاس رک گیا جبکہ میں اور فیضان کاغذات لینے گھر پہنچے۔ گھر سے کاغذات لے کر فیضان واپس لوٹ گیا، جب کہ میں یہ سوچ کر آرام کی غرض سے گھر رُک گیا کہ اب تو بس کاغذات دِکھا کر موٹرسائیکل لے آئیں گے سو میری کیا ضرورت۔

آرام کرتے کرتے میں نے اسماعیل ساگر صاحب کے ناول ''میں ایک جاسوس تھا'' کا مطالعہ شروع کردیا۔ لگ بھگ گھنٹہ اسی کیفیت میں بیٹھا رہا پھر خیال آیا کہ ان لوگوں نے آنے میں کافی دیر لگا دی کام تو اتنا تھا نہیں۔ سوچا فون کرکے دیر کی وجہ دریافت کی جائے۔ فون کیا تو دوسری طرف سے فیضان کی آواز سننے کو ملی اور سوال کے جواب میں آگے سے یہ سوال ملا کہ کوئی وکیل جاننے والا ہے؟ کچھ پریشانی ہوئی کہ اب وکیل کی کیا ضرورت؟ تو پتہ چلا کہ اُس کے پہنچنے سے پہلے موٹرسائیکل چوکی پہنچائی جاچکی تھی اور اب کاغذات دیکھنے کے بعد بھی یہ لوگ چھوڑنے کو تیار نہیں۔

قصہ المختصر یہ کہ دو پاکستانی شہری ثبوت کے باوجود 2 گھنٹے تک چوکی کے ایک ایک اہلکار کے سامنے یہ فریاد کرتے رہے کہ یہ موٹر سائیکل ہماری ہی ہے۔ لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا اور محرر صاحب تک جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ایک صاحب تھوڑے رحم دل پائے گئے جنہوں نے کم از کم اتنا کہہ دیا کہ رات 10 بجے تک انتظار کرو، ممکن ہے کہ 10 بجے کے بعد جان چھوٹ جائے۔ چونکہ آج جنرل ہولڈ اپ ہے تو آج پولیس اپنی پرفارمنس دکھانے کیلئے سڑکوں سے اسی طرح شہریوں کو پکڑ پکڑ کر لائے گی اور 10 بجے انسپیکٹر صاحب آئیں گے تو کچھ فیصلہ کریں گے۔

پاکستان کا قانون جوکہ عام شہریوں کیلئے عذاب اور اہم شخصیات کے لئے سہولت کار ہے۔ آپ کے پاس پیسہ ہونا چاہیئے اور حکومتی طبقے سے مراسم تو سونے پر سہاگہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر یہ سب آپ کے پاس ہے تو آپ چاہے نادرا میں کسی غیر ملکی کو بھرتی کروا دیں یا کراچی میں کسی شاہ زیب کا سرعام قتل کردیں یا لاہور میں کسی زین کی جان لے لیں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔

ابھی ہماری آزمائش جاری تھی کہ اچانک اپنے ایک دوست کا خیال ذہن میں آیا جن کے رشتہ داروں میں ایک کمشنر صاحب بھی ہوتے ہیں۔ بس پھر دوست کو کال کرکے سارا معاملہ بتایا جس کے بعد کمشنر صاحب نے آئی جی صاحب کے پرسنل سیکرتری (پی ایس) کو کال کی تو پی ایس صاحب نے کہا کسی بھی اہلکار سے بات کرواؤ۔ اب جو اہلکار محرر صاحب کے پاس جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا خود کہہ رہا تھا مہربانی کرکے میری بات ان سے نہ کرواؤ محرر صاحب کے پاس جاؤ اور انکی بات کرواؤ۔

محرر صاحب نے فون کان کو لگایا نہ جانے پی ایس صاحب نے کیا کہا لیکن محرر صاحب کے منہ سے صرف تین جملے ہی نکل سکے ''جی جی، ہاں ہاں، حکم کی تعمیل ہوگی'' پھر اسکے بعد کسی نے موٹرسائیکل کے کاغذات بھی دیکھنے کی ہمت نہیں کی کہ کہیں چوری کی تو نہیں، نہ کوئی رسید بنائی گئی اور تو اور محرر صاحب نے یہ بھی دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی آیا کہ یہ پی ایس آئی جی اصلی بھی ہیں یا یوں ہی کوئی پی ایس بن بیٹھا۔ بلکہ محرر صاحب اپنے کمرے سے اٹھ کر سخت سردی میں خود باہر آئے اور موٹر سائیکل جانے دینے کا حکم صادر کیا۔

یہی سر تسلیمِ خم کا کلچر اب ہمارے ہر ادارے میں ہے۔ افسر بالا کے حکم پر قانون کو بھی باآسانی ہنسی خوشی قربان کر دیتے ہیں۔ چھوٹے شہر اور پسماندہ دیہات کا حال تو کجا تو یہ دارالحکومت اسلام آباد کا حال ہے۔

[poll id="841"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

مقبول خبریں