ایک تقریب کا ’’عینکوں‘‘ دیکھا حال

’’عینکوں دیکھا حال‘‘ پر چونکیے گا نہیں کیونکہ سوائے اتفاق یا خوبی اتفاق سے ہماری دور کی نظر الٹ پلٹ ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq December 31, 2015
[email protected]

NEW DELHI: ''عینکوں دیکھا حال'' پر چونکیے گا نہیں کیونکہ سوائے اتفاق یا خوبی اتفاق سے ہماری دور کی نظر الٹ پلٹ ہے بلکہ اگر اس بنیاد پر دیکھ لیا جائے تو ہم پورے پاکستانی نہیں ہیں کیوں کہ جہاں تک ہم نے دیکھا سنا یا پڑھا ہے پاکستانیوں کی دور کی نظر یا ''آئی سائٹ'' بے پناہ طاقتور ہوتی ہے کیونکہ انھیں ہزاروں میل دور کسی اور کے چہرے کے سارے داغ دھبے صاف صاف دکھائی دیتے ہیں لیکن اپنی ہتھیلی کا میل بالکل بھی دکھائی نہیں دیتا بلکہ اکثر کے سامنے تو آئینہ بھی اگر رکھو تو اپنے چہرے کے یہ چھوٹے موٹے بیر جتنے ''مہاسے'' بھی نظر نہیں آتے، آئی سائٹ یعنی بصارت کے ساتھ ساتھ پاکستانی آئی کیو یعنی بصیرت کا بھی یہی حال ہے جب کہ ہمارا معاملہ بالکل ہی الٹ ہے یوں اگر کوئی چاہے تو ہمیں پاکستانیوں کے زمرے سے خارج بھی کر سکتا ہے۔

ایک حقیقہ دم ہلا رہا ہے اسے بھی نپٹائے دیتے ہیں بنوں میں ایک دماغی کیس کو شاعر ہونے کا زعم ہو گیا تھا عبدالرحیم مجذوب جو پشتو کے بے مثل نظر گو شاعر ہیں اسے ساتھ لیے پھرتے تھے ایک مرتبہ دونوں میں ناچاقی ہو گئی ہم نے پوچھا استاد کیوں مجذوب صاحب کے ساتھ کٹی ہو گئی بولے دفع کرو وہ کافر ہے، پوچھا کیسے؟ بولے دیکھتے نہیں اس کی ناک میں بال ہیں، اس لیے کافر ہے، اور ہمیں بھی اپنی بصارت کا معاملہ چھپانا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی یہ فتویٰ نہ لگا دے کہ اس کی دور کی نظر اچھی اور قریب کی خراب ہے اس لیے یہ پاکستانی ہر گز نہیں ہو سکتا، خیر وہ تو دیکھیں گے مسئلہ یہ ہے کہ اپنی اس کم زوری کی بناء پر ہم اکثر تقریبات کو آنکھوں کے بجائے ''عینکوں'' سے دیکھتے ہیں مجبوری ہے کیا کیا جا سکتا ہے اپنی کمزور آئی سائٹ کا بھرم بھی تو رکھنا پڑتا ہے۔

دراصل جس طرح نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں دریافتیں سامنے آ رہی ہیں اور انسان نئی نئی پینترے بازیاں سیکھ رہا ہے ویسے ہی بہت سارے نئے نئے امراض بھی پیدا ہو رہے ہیں جیسے کینسر، ایڈز، یرقان، لیڈر، وزیر، نئی نئی پارٹیاں، تنظیمیں، این جی اوز، ٹھیکیدار اور منتخب نمایندے وغیرہ ۔۔۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں ان میں سے تو کوئی ''مرض'' لاحق نہیں ہے اور نظر کی کمزوریاں تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ہوتی ہیں اکثر تو پیدا ہونے سے پہلے ہی چشمہ پوش ہو جاتے ہیں اس لیے اکثر پیشہ ور گواہ چشمہ دید پائے جاتے ہیں خاص طور پر جو دیوانی مقدمات سے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ ہماری طرح زیادہ چیزیں آنکھوں کے بجائے عینکوں سے دیکھتے ہیں، خیر گولی ماریئے چشم دید اور چشم دید دونوں کو ۔۔۔ ہم اپنی بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑا تھا۔

اس تقریب میں ایک نہایت ہی سالخوردہ شاعر کی ''رونمائی'' تھی کتاب وغیرہ کی نہیں بلکہ خود اس کی، حالانکہ وہ نہ جانے کس زمانے سے اس دنیا میں موجود تھے لیکن لوگوں نے اسے دیکھا بھی ان دیکھا کیا ہوا تھا، اکثر مشاعروں میں بن بلائے چلا جاتا تھا لیکن منتظمین اس کی موجودگی کو بھی ناموجودگی میں بدل دیتے، بے چارا خود ہی چٹ پر اپنا نام لکھ کر اور منتظمین کی داڑھی ٹھوڑی پکڑ کر اپنا اندراج کرتا تھا لیکن وقت کی ''کمی'' کی بناء پر وہ چٹ اور یہ خود کہیں گم ہو جاتے، لیکن اب اچانک ساری دنیا کو نہ صرف اس کے وجود کا پتہ چل گیا تھا بلکہ اس کا کلام بے لگام بھی بلاغت نظام ہو گیا تھا وجہ یہ ہوئی کہ اس کا ایک بیٹا اچانک وزیر بن گیا تھا اور بیٹے کے وزیر بنتے ہی ساری دنیا کو اچانک یہ ادراک ہوا کہ اس کا باپ تو شعر و ادب کا کوہ نور ہے۔

دنیا بھر کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے اس کے کلام میں رحمان و خوشحال دونوں کو ایک ساتھ جلوہ گر دیکھا نہ صرف ادبی اور غیر ادبی تقریبات کی صدارت اس سے کرائی جانے لگی بلکہ سب نے مل کر اس لائیو لیجنڈ کے اعزاز میں یہ تقریب رونمائی و پذیرائی منعقد کی، ظاہر ہے کہ مہمان خصوصی کے لیے اس کے وزیر بیٹے کو گانٹھا گیا اور اس وزیر بیٹے کی نظروں میں آنے کے لیے دور و نزدیک کے تمام دانشوروں، محققوں اور تجزیہ نگاروں نے لمبے لمبے مقالے بھی پیش کرنا تھے دس بڑے بڑے مقالہ نگاروں نے تو باقاعدہ مقالے لکھے تھے جن کی فہرست کارڈ میں دی ہوئی تھی لیکن ایسے مواقع پر جب مہمان خصوصی ایک وزیر ہو اور تقریب وزیر کے باپ کی ہو تو کچھ بے قاعدہ قسم کے بولنے والے بھی آ جاتے ہیں۔

تقریب ابھی شروع نہیں ہوئی تھی لیکن حیرت انگیز طور پر ہال کھچا کچ بھر گیا تھا تقریب کے منتظم اعلیٰ جو شہر کے مانے ہوئے مکھن باز تھے اسٹیج پر یہاں وہاں پھر کر موبائل پر لگے ہوئے تھے، ہم بھی تقریب کے دولہے یعنی وزیر کے باپ اور ابھی ابھی دریافت شدہ نابغہ روزگار شاعر کو دیکھ رہے تھے جو اسٹیج کے ایک کونے میں غالباً اپنا ''بھاشن'' ازبر کرنے میں لگے ہوئے تھے آٹھ دس اوراق کو بار بار پڑھنے اور یاد کرنے میں دنیا و مافہیا سے ناخبر جھکے ہوئے تھے ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ہال میں کیا حال چال چل رہے ہیں ہمیں بھی بڑی دیر بعد احساس ہوا کہ کوئی بات ہو گئی ہے؟ کیونکہ اچانک موبائل فون رکھنے والے کچھ زیادہ مصروف دکھائی دینے لگے جہاں جہاں تک ہماری عینک کام کر رہی تھی لوگ فون پر کچھ سنتے فون سننے کے بعد کچھ مبہوت سے رہتے اور پھر کہیں غائب ہو جائے۔

تھوڑی دیر میں ''ہال'' چھدرنے لگا بھیڑ بھاڑ کم ہوتی چلی گئی، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بھرا ہوا ہال آہستہ آہستہ کیوں خالی خالی سا لگنے لگا ہے تھوڑی دیر بعد صاف پتہ چل رہا تھا کہ ہال خالی سا ''لگنے'' ہی نہیں واقعی خالی ہو رہا تھا، ادھر اسٹیج پر منتظمین بھی تیز تیز یہاں وہاں ہو رہے تھے اور تقریباً سب یہ موبائل پر مصروف دکھائی دینے لگے، تھوڑی دیر بعد منتظمین ایک جگہ سر جوڑ کر کھڑے ہو گئے، اسٹیج سیکریٹری بھی مائیک چھوڑ کر ان میں شامل ہو گیا حالانکہ اس کے اندر سے پتہ چل رہا تھا کہ ابھی وہ کچھ بولنے لگے گا اور پھر وہ بولا بھی لیکن منتظمین کے ساتھ مسکوٹ کرنے کے بعد خواتین و حضرات بس تقریب شروع ہونے ہی والی ہے میں مشہور شاعر فلاں کو دعوت دے رہا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنے ترنم سے حاضرین کو محظوظ کریں۔

فلاں شاعر کو موقع ملا تو اس نے گلے کا پورا والیوم کھول کر وزیر کے باپ کا کلام سنانا شروع کیا کلام کیا تھا وہی آموختہ تھا جو حضرت آدم کے زمانے میں ہر زبان کا شاعر اور گویا کہتا آ رہا ہے، محبوب کا غیر انسانی سراپا، ہجر کی حشر سامانیاں اور رقیب روسیاہ کو گالیاں دینا، بہت سارا کلام بے لگام سنانے کے بعد وہ جانے لگا تو اسٹیج کے دور سے اشارہ کر کے ''جاری'' رکھنے کو کہا، جو بدستور منتظمین کے ساتھ سر جوڑ کر ''کھڑا'' ہوا تھا، ایک طرف خواتین کی ایک بڑی داڑ بیٹھی ہوئی تھی یہ بھی وزیر باتدبیر کی برکت تھی ورنہ مشاعروں اور پھر پشتو مشاعروں میں خواتین؟ جنھیں ''مہذب زبان'' میں لیڈیز کہا جاتا ہے یہ لیڈیز دراصل وہ ''غریب'' خواتین ہوتی ہیں جو مالدار خواتین کی طرح تہہ در تہہ اور بھاری بھرکم لباس کی توفیق نہیں رکھتیں اور چند گرہ کپڑے پر گزارہ کرتی ہیں مارے غربت کے بال باندھنے کے لیے ربن یا چوٹی کی استطاعت بھی نہیں رکھتیں بلکہ اس بے چاریوں کے پاس ڈرائر بھی نہیں ہوتا اس لیے کاندھوں پر جھولتے ہوئے بالوں سے ۔۔۔ دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ شبنم ٹپ رہی ہوتی ہے۔

ان خواتین سوری لیڈیز میں پہلے کھسر پھسر ہوئی پھر ایک دوسری سے مڑ مڑ کر کانا پھوسی اور پھر اچانک ساری کی ساری اٹھ کر غائب ہو گئیں، اتنے میں اسٹیج سیکریٹری نے مری ہوئی آواز میں کہا خواتین (حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی) و حضرات! ہمارے مہمان خصوصی کو کسی اہم کام کے لیے اسلام آباد جانا پڑ گیا اس لیے ہم ان کی جگہ ان کے والد محترم حضرت فلاں فلاں کو مہمان خصوصی مان کر پروگرام کا آغاز کرتے ہیں لیکن ان کی اس بات کے اختتام سے پہلے ہی ہال خالی ہو چکا تھا صرف چند خدا مارے شاعر ہی اکا دکا سیٹوں پر بیٹھے تھے اور تازہ ترین مہمان خصوصی جو کانوں سے بالکل ہی بہرے تھے بدستور اپنا مقالہ یاد کرنے میں لگے ہوئے تھے اس سے قطعی بے خبر کہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی اور اس سے بھی بے خبر کہ اب تقریر یاد کر کے سنائیں گے کس کو؟

پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ

مقبول خبریں