ذرا نم ہو تو!

فرح ناز  ہفتہ 23 جنوری 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

بارش موسلادھار ہو یا ہلکی پھلکی، روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، صبح ہو شام یا چوبیس گھنٹے، ذرا سا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، لگاتار ہوجائے تو سیلاب کا خطرہ ہوجاتا ہے، کب ہوگی اور کس طرح ہوگی کچھ پتہ نہیں ہوتا، ہاں ہم صرف اچھے انتظامات کرسکتے ہیں کہ اگر سیلاب کا خطرہ ہوجائے تو جان و مال کو کس طرح محفوظ بنایا جائے، وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اسی طرح بہتر سسٹم وجود میں آتے رہتے ہیں، شرط ہے کہ بنائے جائیں، سوچا جائے، پلان کیا جائے۔

اﷲ ہر طرح کی طاقت رکھتا ہے، قدرت رکھتا اور ہم صرف بے بس، یہی حقیقت ہے، یہی سچ ہے لیکن اس بڑی عالیشان دنیا میں کئی بدمست ہاتھی بھی موجود ہیں، خود کو طاقتور بنانے والے بھی، بادشاہ بھی اور وزیر بھی، طاقتور امریکا بھی خود کو افغانستان میں بے بس محسوس کرتا ہے اور 14 برس کے بعد شاید اس کو بے بسی کا احساس بھرپور ہوا ہوگا، صدر اوباما نے اسٹیٹ آف دی یونین سے اپنے آخری خطاب میں کہاکہ امریکا زمین پر سب سے طاقت ور ترین ملک ہے اور امریکی فوج انسانی تاریخ کی سب سے بہترین فوج ہے، مٹھی بھر دہشت گرد بھی بہت نقصان پہنچاسکتے ہیں، دہشتگردوں نے نوجوانوں کے ذہن متاثر کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لینا شروع کردیا ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ امریکی صدر نے  یہ بھی کہاکہ پاکستان، افغانستان، مشرق وسطیٰ، امریکا اور افریقہ کے بعض حصوں میں عدم استحکام کئی دہائیوں تک جاری رہے گا۔

عدم استحکام نے ہماری زندگی بے حد مشکل کردی ہے، چارسدہ یونیورسٹی کا واقعہ اور ایک دفعہ پھر تعلیمی اداروں پر خونیں حملہ، پھر کئی خاندان سے ان کے پیارے جدا ہوگئے، درد اور تکلیف کا ایک اور در کھل گیا، ہم کس کو روئیں اور کس کو الزام دیں، تانے بانے پھر سے افغانستان سے مل رہے ہیں اور کچھ ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ ’’را‘‘ کا ہاتھ بھی ہے، ہاتھ کسی کا بھی ہو مگر اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نقصان صرف ہمارا ہے۔

ہم کیوں انتظار کریں کہ زلزلہ، سیلاب یا کوئی ناگہانی مصیبت آئے تو ہم یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے، ہم کیوں نہیں اب بھیڑ سے نکل آتے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لوگوں کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیں۔ زندگی ایک پہیہ ہے جو گھومتا رہتا ہے، کبھی کوئی اور کبھی کوئی نتیجہ، مگر نظم و ضبط، برداشت اور یقیناً اچھی پلاننگ۔ ہمیں جنگل کے ماحول اور جنگل کے رویوں سے اپنے آپ کو آزاد کرنا ہوگا، آج نہیں تو کل یکجہتی۔ اچھا ہو کہ یہ کام آج سے ہی شروع ہوجائے۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کے صدر میں بے بسی نظر آتی ہے تو ہم اور دوسرے ترقی پذیر ملک کیوں اتنے بے خبر ہیں۔

معدنی اور قدرتی ذخائر سے مالامال ہمارا ملک بے انتہا شاندار اور خوش بخت ملک ہے اور اسلامی ملکوں میں اہمیت بھی بہت رکھتا ہے، ماشا اﷲ ہماری افواج بھی دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہوتی ہے، ہمارے لوگ بھی سچے جذبوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن آج تک Missing ہیں وہ افراد جو بھیڑ سے نکل کر سامنے آئیں اور ہم سب کے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑلیں اور ہم پھر ایک زبردست قوم بن کر پوری دنیا کو حیران کردیں۔ کب تک شہادتوں کو قربانیوں کا نام دے کر اپنے آپ کو تسلی دیتے رہیں گے۔

بے شک اﷲ ہر کام پر، ہر علم پر قدرت رکھتا ہے اور وہی ہم کو یہ سمجھ بھی دیتا ہے کہ ہم غلط اور صحیح کا انتخاب کرسکیں، ذہن کا صاف ہونا ضروری اور کچھ علم کا ہونا ضروری، نہ بھولیے کہ آپ اور ہم انسان ہیں، نبی نہیں کہ اﷲ ہمیں وحی بھیجے گا اور ہمیں بتائے گا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی، تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھٹک جاتے ہیں، کچھ ایسے مقام زندگی میں آجاتے ہیں کہ مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔ کچھ چیزیں Missing ہیں کہ بھیڑ زیادہ ہوگئی ہے اور سلجھی ہوئی محفلیں کم کم، رویے عجیب تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں، ضرورتیں بڑھتی جارہی  ہیں اور وسائل کم۔

مریض زیادہ اور ڈاکٹر کم، تو یہ جو علاج کرنے والے ڈاکٹر ہیں، ہر موڑ پر ہر شعبے میں ان کی پیداوار بڑھانی ہوگی اور باقاعدہ علم کے ساتھ ساتھ تربیت کا انتظام کرنا ہوگا، بالکل ایسے ہی جیسے جانوروں کے ڈاکٹر الگ اور انسانوں کے الگ ہوتے ہیں، سب سے ضروری کہ ہم سب کو اپنے آپ کو اور دوسروں کو ’’انسان‘‘ سمجھے جو میری ضرورت ہے وہ یقیناً میرے پڑوس میں رہنے والی بھی ہوگی، بس فرق صرف اتنا ہوگا کہ اس کا اسٹائل الگ ہوگا۔

جس طرح ہم بارشوں کو روک نہیں سکتے، زلزلے روکنا ہمارے اختیار میں نہیں، یا کوئی بھی قدرتی آفات ہماری طاقت سے باہر ہیں، بس ہم یہی کرسکتے ہیں اپنے لوگوں کو ان سے بچنے کے لیے اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے بہترین تعلیم یافتہ لوگوں کو ڈھونڈا جائے اور بہترین تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کھیپ تیار کی جائیں مگر کسے خوف و ڈر ہے کہ یہ لوگ اگر آجائیںگے یا تیار ہوجائیںگے تو ہمارا کیا ہوگا اور پھر ہمیں کون پوچھے گا؟ عزت اور ذلت دینے کا دعویٰ تو صرف اﷲ عالیشان کا ہے، ہمیں تو صرف اپنی اوقات میں رہتے ہوئے اچھائی ہی کرنی ہے، باقی کام اﷲ پاک کا ہے دولت و امارت سب کچھ ہی رہ جائے گا صرف اعمال کا ٹوکرا ہی ساتھ جائے گا۔

جنگلی خود رو پودے ہمارے ارد گرد پروان چڑھ رہے ہیں ان پودوں کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی بہتر ہوگا اور پھر ان کے دوبارہ نہ اُگنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے ہوںگے، کام مشکل ضرور ہے مگر اب ہر فرد اپنے دل میں غم لیے ہوئے ہیں تو فاصلہ جلدی بن جائے گا اور ہر فرد اپنی بہتر کارکردگی بھی دے گا جب حال میں مستقبل کے لیے اقدامات اٹھائے جائیںگے تو بہتر مستقبل کی جھلک یقینا انتقام کے جذبات کو مارنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

یہ فرد اپنی انرجی کو اگر صحیح سمت کے لیے استعمال کرے گا اور ویژن بھی صاف ہوگا کوئی شبہ نہیں کہ ایک فرد سے ہزاروں، لاکھوں کا یہ قافلہ چمکتا ہوا روشن آسمان بن جائے گا، پوری دنیا میں انقلابات، نظریات کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں اور اگر اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں مرنے مارنے کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نظر آتا ہے کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنی نسل کو صحیح ویژن دینے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔

کیا ایک ایٹمی ملک ہونا ہی ہمارے لیے کافی ہے یا اس سے بھی آگے جانا ہوگا۔

قوم کی رہنمائی کرنے کے لیے نوجوانوں کو سمت دکھانے کے لیے ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی ایک طاقت ور ذریعہ ہے کہ اس کی رینج گاؤں سے لے کر شہروں تک موجود ہے ہمیں یاد ہے کہ پی ٹی وی پر تعلیم بالغاں کے پروگرام بھی ہوا کرتے تھے، اور لوگ ان سے سیکھتے بھی تھے مذاق بھی اڑاتے تھے پڑھایا جاتا تھا، لکھایا جاتا تھا، تلفظ بتائے جاتے تھے اور میرے خیال میں وہ ایک کامیاب تجربہ تھا۔ آج جدید دور میں بے تحاشا مثبت پروگرام ترتیب دیے جاسکتے ہیں مگر بد قسمتی سے گورے ہونا، دبلے ہونا، وغیرہ وغیرہ سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔

ایسی ایسی شادیاں کروانے کی تراکیب بتائی جاتی، مایوں سے لے کر ولیمہ تک کے تمام فنکشن اتنی لگن کے ساتھ بتائے جارہے ہوتے ہیں کہ جیسے ہم اسی طرح رہتے ہیں جب کہ ٹی وی تمام ملک میں چھوٹے بڑے تمام جگہوں پر دیکھا جارہاہوتا ہے۔

کہنا صرف اتنا ہے کہ وقت برباد کرنے کے بجائے اگر اس کا استعمال مثبت ہوجائے اور ایک ایجنڈا لے کر چلا جائے تو یقینا منفی نہیں ہوگا۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی

بڑی زرخیز ہے ساقیؔ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔