عدلیہ کی مداخلت سے قبل سندھ حکومت مسائل حل کرے چیف جسٹس

رٹائرڈ ججزکی کنٹریکٹ پر ٹریبونلزمیں تعیناتی کی حوصلہ شکنی کا حامی ہوں، جسٹس انور ظہیرجمالی کا خطاب


Numainda Express February 06, 2016
  رٹائرڈ ججزکی کنٹریکٹ پر ٹریبونلزمیں تعیناتی کی حوصلہ شکنی کا حامی ہوں،حیدرآباد میں وکلا کے عشایے سے جسٹس انور ظہیرجمالی کا خطاب   فوٹو: فائل

QUETTA: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے یہ بدانتظامی کا المیہ ہے کہ وسائل سے مالا مال ہمارے صوبے میں پیچیدہ مسائل پیش آ رہے ہیں ۔ میں امید کرتاہوں کہ حکومت اس سے قبل کہ عدلیہ مداخلت کرکے حکومت ان مسائل پرتوجہ دیکر انکامعقول حل نکالے گی۔

ان خیالات کااظہار انھوں نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سالانہ عشائیے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں شرکا سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ایاز تینو ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر سندھ ہائی کورٹ بار حیدرآباد کے صدر غلام اﷲ چانگ نے اپنے خطاب میں تھرپارکر کی صورتحال کا ذکر کیا اور کہا کہ آج موہن جو دڑو کے وارث تھرکے ایک سو پچاس سے زاید بچے غذائی قلت اور بیماریوں کی وجہ سے مرگئے ہیں لیکن انتظامیہ اورحکومت اتنی بڑی اموات پرخاموش ہے اور کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔

ہماری چیف جسٹس سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ اتنی تعداد میں بچوں کی اموات پر از خود نوٹس لیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے خطاب کے دوران ہائی کورٹ بار حیدرآباد کے صدر کا تھرپارکر کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ان کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں لیکن عدالت عظمٰی کو ازخود نوٹس لینے کے لیے ان باتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں عدالت اپنے اختیارات سے تجاوز تونہیں کر رہی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ایک بدانتظامی کا المیہ ہے کہ اتنے پیچیدہ مسائل ہمارے صوبے میں جو کہ اﷲ کرم سے وسائل سے مالامال ہے اس میں پیش آ رہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان مسائل کی طرف حکومت فوری توجہ دے گی اور اس سے قبل کہ عدلیہ مداخلت کرے ان کامعقول حل نکالا جائے گا۔ انھوںنے کہا کہ اعلی عدلیہ کی یہ مسلسل کاوشیں رہی ہیں کہ حکومت کے ساتھ مل کر وکلا کو بہتر سے بہتر ماحول فراہم کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں یہ سلسلہ کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے کہ رٹائرڈ جج صاحبان کو دوبارا ملازمت دیکر کنٹریکٹ کی بنیاد پر مختلف ٹریبونلز میں تعینات کیا جاتا ہے کہ لیکن وہ اس کی حوصلہ شکنی کرنے کے حق میں ہیںکہ رٹائرڈ جج صاحبان جو کہ اپنی اننگز کھیل چکے ہوتے ہیں انھیں وہاں لیجا کر پھر ایڈجسٹ کرنے سے زیادہ بہتر ہوگا کہ وکلا برادری میں سے ٹریبونلز میں براہ راست بھرتی کی جائے تاکہ اہل و قابل وکلاکو اپنی مہارتیں دکھانے کا موقع مل سکے اور اس معاملے پر بتدریج عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب وکلابرادری کے پاس عدلیہ کو خدمات فراہم کرنے کے متعلق پہلوتہی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ عدلیہ سے وابستہ افراد اب دیگر سرکاری محکموں کے افسران سے تین گناہ زیادہ تنخواہ لیتے ہیں اور اب سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ کا ماہانہ پیکیج ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔

مقبول خبریں