قرار دادِ لاہور ہی قرار دادِ مقاصد تھی

وسعت اللہ خان  منگل 22 مارچ 2016

ہم سب ڈھائی ہزار برس سے یقین کرتے آرہے ہیں کہ دانت بتیس ہی ہوتے ہیں۔ آج سائنس بتاتی ہے کہ ایسے انسان بہت کم پائے جاتے ہیں جو بتیسی کے مالک ہوں۔مگر ہم آج بھی بتیسی میں ہی پھنسے رہنے میں خوش ہیں۔

ہم سب اس علت کے اسیر ہیں کہ جو روایت چلی آرہی ہے اس کے ماخذ کا خود کھوج لگانے کے بجائے ہر جدی پشتی پر اندھا یقین کر لیں۔سہولت اسی میں ہے کہ بڑے جو کہہ رہے ہیں اسے کسی الجھن میں مبتلا ہوئے بنا مان لیا جائے۔بھلے حقیقت ایک ہاتھ کے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو۔

جیسے ہمیں چھہتر برس بعد بھی یقین ہے کہ منٹو پارک لاہور  میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کھلے اجلاس میں منظور ہونے والی قرار دادِ لاہور تئیس مارچ کو منظور ہوئی۔حالانکہ بائیس کی سہہ پہر کو جلسہ شروع ہوا جس میں قائدِ اعظم نے لگ بھگ دو گھنٹے تک دو قومی نظریے اور آیندہ کے لائحہ عمل پر اظہارِ خیال کیا۔اگلے دن یعنی تئیس مارچ کو قرار داد کا مسودہ عام بحث کے لیے  پیش ہوا اور چوبیس مارچ کو یہ مسودہ منظور کر لیا گیا۔مگر منایا تئیس مارچ ہی جاتا ہے جس دن قرار داد منظور ہی نہیں ہوئی۔

بالکل ویسے  جیسے اس ملک کا بنانے والا محمد علی جناح پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کی صبح قوم کو ریڈیو براڈ کاسٹ میں یومِ آزادی کی مبارک باد دے رہا ہے۔( اس خطاب کی ریکارڈنگ آج بھی انٹر نیٹ پر دستیاب ہے )۔مگر پھر یہ طے ہوا کہ نہیں ہمارا یومِ آزادی چودہ اگست ہے۔کسی نے اس بنیادی اصول پر غور نہ کیا  کہ جب ایک شے کو دو حصوں میں کاٹا جاتا ہے  تو دو حصے بیک وقت ہوں گے یا ایک ٹکڑا دوسرے سے ایک دن بعد الگ ہوگا ؟

اس قرار داد کا بنیادی مسودہ کس نے لکھا ؟ یہ تو ممکن نہیں کہ اکیس رکنی مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی یا پھر سبجیکٹ کمیٹی کے سب ارکان نے ایک ساتھ لکھا ہو۔باقیوں نے تجاویز دی ہوں گی اور کسی ایک صاحب نے ڈرافٹ تیار کیا ہوگا۔ہمیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ بائیس مارچ کی شام لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں قائدِ اعظم کی موجودگی میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے تیار مسودہ پڑھ کے سنایا اور پھر تھوڑی بہت بحث و تمحیص  کے بعد حتمی ڈرافٹ کی منظوری دی گئی۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ قرار داد تئیس مارچ کے اجلاسِ عام میں بنگال کے وزیرِ اعلی مولوی اے کے فضل الحق نے پیش کی اور یو پی کے چوہدری خلیق الزماں ، پنجاب کے مولانا ظفر علی خاں ، سندھ کے عبداللہ ہارون ، سرحد کے سردار اورنگ زیب خان اور برٹش بلوچستان کے قاضی محمد عیسیٰ نے قرار داد کی تائید کی۔مگر اسے ڈرافٹ کس نے کیا ؟ اس بابت چند برس پہلے تک سر ظفر اللہ خان کا نام لیا جاتا تھا۔مگر اب یہ مفروضہ حقیقت سمجھ کے قبول کرلیا گیا ہے کہ یہ بس ڈرافٹ ہوگئی۔آپ اس کھکیڑ میں کیوں پڑتے ہیں کہ کس نے کی ؟

اس قرار داد میں مسلم اسٹیٹس کا لفظ کیوں استعمال ہوا اور پھر اگلے برس مدراس کے مسلم لیگ سیشن کی قرار داد میں یہ وضاحت کیوں سامنے آئی کہ ’’ ہر ایک پر واضح ہونا چاہیے کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار مسلمان ریاست کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں ‘‘۔انیس سو اکتالیس اور بعد کی جناح صاحب کی تقاریر میں بھی ایک آزاد مادرِ وطن یا ایک آزاد مسلم مملکت کی اصطلاح ہی استعمال ہوئی۔

جو حضرات صرف اصل منظور شدہ مسودے کو ہی تسلیم کرتے ہیں اور بعد میں اسٹیٹس کو اسٹیٹ سے بدلنے والی ترمیم نہیں مانتے ان حضرات کے مقابلے میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اسٹیٹس کا لفظ غلطی سے اصل قرار داد میں شامل ہوگیا جسے بعد میں ایس نکال کے درست کرلیا گیا۔

اس نہ ختم ہونے والی بحث سے قطع نظر یہ بات ماورائے عقل معلوم ہوتی ہے کہ قائدِ اعظم جیسے جیورسٹ کی موجودگی میں ڈرافٹنگ کی کوئی سنگین غلطی ہو جائے اور ان سمیت سبجیکٹ کمیٹی کا کوئی رکن اسے نہ پکڑ سکے۔البتہ یہ جواز ضرور سمجھ میں آ سکتا ہے کہ قرار داد کی منظوری کے بعد مسلم لیگ قیادت شائد اس نتیجے پر پہنچی کہ ہندوستان کے مشرقی اور شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک سے زائد ریاستوں کے بجائے ایک متحدہ ریاست کے مطالبے کی جدوجہد زیادہ بہتر و موثر رہے گی اور پھر اس خیال کی روشنی میں مسودے میں ترمیم کر دی گئی ہو۔

اس قرار داد میں کہیں اسٹیٹس تو کہیں ریجنز کی اصطلاح  استعمال ہوئی ہے۔شائد یہ ابہام اس مصلحت کے تحت رکھا گیا ہو کہ ایک متحدہ ہندوستان میں کنفیڈرل ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل ہو سکے۔اگر ایک ’’ آزاد و خود مختار مسلمان ریاست ‘‘کی منزل پانے کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا تو قائد اعظم کیبنٹ مشن پلان اسکیم کیوں منظور کرتے کہ جس میں متحدہ ہندوستان کے اندر ہی ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن کی بات کی گئی تھی۔

قرار دادِ لاہور کے مسودے میں جن جن مسلم اکثریتی علاقوں کو یکجا کرنے کا مطالبہ کیا گیا، ان سب کا تعلق برطانوی اقتدار تلے آنے والے انتظامی علاقوںسے ہے۔اس وقت برٹش ہندوستان کے انتظام سے باہر پانچ سو پینسٹھ رجواڑے بھی تھے۔ان میں مسلم اکثریتی رجواڑے بھی تھے۔مگر یہ مسلم اکثریتی رجواڑے بھی قراردادِ لاہور کا موضوع نہ تھے نہ وہ قانوناً ہو سکتے تھے۔شائد اس وقت مسلم لیگ کے اندر اس موضوع پر غور بھی نہیں ہوا ہوگا ورنہ ایسے تنظیمی اجلاسوں کی تفصیلات یا قیادت کے بیانات اب تک علم میں آ چکے ہوتے۔

تو کیا قرار دادِ لاہور کا مقصد ایک یا ایک سے زائد مسلمان ریاست کا حصول تھا، یہ ایک  اسلامی ریاست کا حصول تھا۔کم ازکم قرار دادِ لاہور کے مسودے میں تو اسلامی ریاست نظر نہیں آتی ورنہ قرار داد میں بس یہ کہنا کافی ہوتا کہ نئی ریاست کا آئین شریعت کے تابع ہوگا اور اقلیتوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جن کی شریعت میں گنجائش ہے۔ قرار دادِ لاہور میں یہ پیرے ڈالنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کہ

’’ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی خطوں کے مسلمان اکثریتی علاقوں کو یکجا کرکے آزاد ریاستیں قائم کی جائیں۔ان خطوں میں آباد اقلیتوں کی مشاورت سے مذہبی ، ثقافتی ، معاشی ، سیاسی ، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے لیے موثر آئینی تحفظات ( سیف گارڈز ) فراہم کیے جائیں۔ہندوستان کے دیگر خطوں میں آباد مسلمان اقلیتوں  کی مشاورت سے ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے لیے موثر آئینی تحفظات ( سیف گارڈز ) فراہم کیے جائیں۔

یہ اجلاس ورکنگ کمیٹی کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ان بنیادی اصولوں کے مطابق آئینی خاکہ تیار کرے اور اس کے تحت  مذکورہ ریجنز کو دفاع، امورِ خارجہ ، مواصلات سمیت دیگر ضروری اختیارات منتقل کیے جائیں ’’۔

دراصل قرار دادِ لاہور ہی متفقہ قرار دادِ مقاصد تھی۔اگر  اسی کی روشنی میں آئین سازی کا ارادہ ہوتا تو قائدِ اعظم کی وفات کے بعد انیس سو انچاس میں منظور ہونے والی قرار دادِ مقاصد کی ضرورت پیش نہ آتی کہ جسے متفقہ کے بجائے اکثریت کے بل پر منظور کیا گیا اور اس منظوری کے بعد قرارِ دادِ لاہور محض ایک تاریخی دستاویز کے طور پر  رہ گئی۔

جو پاکستان متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کے مسلسل و مستقل اقتدار کی خرابیوں کے خوف میں منظور ہونے والی قرار دادِ لاہور کی بنیاد پر وجود میں آیا۔وہی ملک انیس سو اکہتر تک اپنی ہی بنگالی اکثریت کے خوف میں مبتلا رہا اور آج بھی اکثریت کے خوف تلے زندہ ہے۔اور یہ خوفزدہ اکثریت بھی ایک طاقت ور اقلیت کے چنگل میں ہے اور یہی اقلیت نظریہِ پاکستان کی مستند تشریح کی متواتر دعوے دار بھی ہے اور بضد بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔