اخلاقِ حسنہ اہلِ ایمان کا وصفِ عالی
انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی تعلقات پر استوار ہے۔
May 06, 2016
انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی تعلقات پر استوار ہے۔ یہ انسان کی فطری ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی کہ اسے زندگی کے ہر مرحلے پر اپنی کسی حاجت کے لیے دوسرے افراد سے تعلق استوار کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کے تمام تر معاملات خواہ ان کا تعلق اعتقادات، عبادات، باہمی تعلقات، لین دین، تجارت، سیاست، معاشرت، ثقافت یا زندگی کا کوئی بھی شعبے ہو، اگر اﷲ اور اس کے آخری رسول رحمتؐ کی پاکیزہ تعلیمات کے مطابق قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں تو وہ حسن خلق کہلاتے ہیں۔
اخلاق حسنہ کے متعلق قرآن مجید و احادیث کے مطابق سیرت رسولؐ سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے چینی ختم اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ قیام عمل میں آئے کہ جس میں سب انسان امن و سلامتی کے ساتھ خوش گوار زندگی گزار سکیں اور دیگر معاشروں کے لیے ہمارا معاشرہ قابل فخر روایات کا مظہر بن جائے۔ جس کے نتیجے میں یقینا ہماری دنیاوی زندگی بھی سنور جائے گی اور آخرت کی لازوال نعمتیں بھی جنت کی صورت میں حاصل ہوں گی اور سب سے بڑھ کر اﷲ کی رضا ہمیں حاصل ہوجائے گی۔
سورۃ القلم کی ابتدائی آیات میں اﷲ رب العالمین نے قلم اور صاحبان قلم جو کچھ لکھتے ہیں، کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے محمدؐ آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے دیوانے نہیں ہیں۔ چوںکہ جن اعلیٰ اخلاقی پیغام و اوصاف حمیدہ سے آپ متصف ہو کر کائنات ہستی میں تشریف لائے ہیں وہ چیزیں ایک ایسے معاشرہ میں کہ جس میں ہر طرف برے اخلاق و اعمال اس قدر رچ بس چکے تھے کہ انہیں اعلیٰ اخلاقی اقدار و تعلیمات عجیب معلوم ہو رہی تھیں کہ ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت کہ ہم جس کے بدن اطہر پر کوڑا کرکٹ پھینک دیتے ہیں وہ اسی پھینکنے والی عورت کی عیادت کو تشریف لے آتے ہیں۔
جو لوگ ان کی بات سننے سے انکاری ہیں یہ پیغمبرؐ ان کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں پر معمولی باتوں پر قتل و غارت عام ہو وہاں ایسی پاکیزہ تعلیمات و کردار کا اظہار یقیناً باعث تعجب ہی گردانا جائے گا۔ تب ہی آپؐ کے مخالفین آپ کو دیوانہ اور مجنون کہنے لگے کہ بہ قول ان کے ایک صحیح الدماغ آدمی اس طرز عمل کا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتا، بل کہ (نعوذباﷲ) آپ فاتر العقل ہیں جب ہی تو تمام تر گستاخیوں اور دشنام طرازیوں کے باوجود آپؐ ان لوگوں کے ساتھ اخلاق حسنہ سے پیش آتے ہیں اور آپ کا طرز عمل مثبت انداز میں ناصحانہ ہی ہے۔
کبھی آپؐ کسی کی بدگوئی کا جواب نہیں دیتے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتے بل کہ ان کے تمام تر ظلم و ستم کے جواب میں آپ اﷲ سے ان کی ہدایت کی دعا مانگتے کہ یااﷲ میری قوم کو اپنی معرفت عطا فرما کہ یہ لوگ میرے مرتبے و مقام سے واقف نہیں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولؐ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپؐ خلق عظیم کے منصب پر فائز ہیں اور پوری کائنات انسانیت میں آپؐ کے ہم پلہ کوئی اور ہے ہی نہیں۔ یہ نبی کریمؐ کے اخلاق کریمانہ کی رب تعالیٰ کے دربار میں پزیرائی کا احوال ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر نبی کریمؐ کے پاکیزہ اخلاق کریمانہ کا تذکرہ یوں کیا گیا۔ (لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں، تمہاری تکلیف انہیں گراں معلوم ہوتی ہے اور وہ تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے اور مہربان ہیں۔ پھر اگر یہ لوگ پھر جائیں (اور نہ مانیں) تو کہہ دیجیے کہ اﷲ میرے لیے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میرا بھروسا ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (سورۃ التوبہ)
ان آیات مبارکہ میں نبی رحمت ﷺ کے پاکیزہ اخلاق کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ نبی تو ایسے ہیں کہ تمہاری معمولی تکلیف بھی انہیں بہت گراں گزرتی ہے اور وہ تم پر نہایت شفقت و محبت کرنے والے ہیں۔ ان پاکیزہ اخلاق کے باوجود بھی اگر کوئی آپؐ کی دعوت حق کو قبول کرنے سے انکاری ہے تو اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے آپؐ یہی کہیے کہ میرے لیے اﷲ ہی کافی ہے اور یہ تمام تر جدوجہد اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ میں کسی بندے بشر کو رجھانے یا متاثر کرنے کے لیے نہیں کر رہا، بل کہ ان تمام تر امور پر عمل پیرا رہنے کا مقصد وحید محض اپنے رب کی رضا کا حصول ہے اور وہ میرے لیے کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
گویا رب کے سوا کسی اور کی رضا کے حصول کے لیے کی گئی نیکی، نیکی نہیں بل کہ اس کو معبود سمجھنا ہے لہٰذا میں اﷲ کے سوا کسی پر بھروسا نہیں کرتا کہ فلاں شخص خوش ہوجائے تاکہ مجھے کسی قسم کا تحفظ مل جائے، بل کہ میری تمام تر تمناؤں' آرزوؤں اور امیدوں کا بھروسا صرف اور صر ف اﷲ ہی پر ہے اور وہ آقا و مو لا عرش عظیم کا مالک ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولؐ کو حسن اخلاق کی تعلیم انتہائی دل نشین انداز میں اس طرح دی جو رہتی دنیا تک کے لیے بنی نوع انسانیت کے لیے مینارہ نور اور شمع ہدایت ہے۔
''اے (نبیؐ) آپ درگزر کا شیوہ اختیار کیجیے اور لوگوں سے اچھی بات کہیے اور جاہلوں سے علیحدہ رہیے اگر شیطان کے ابھارنے سے انتقام وغیرہ کا جذبہ آپ کے دل میں پیدا ہو تو اﷲ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کیجیے کیوں کہ وہ (اﷲ) سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے جو لوگ پرہیز گار ہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے ان کے دل میں کوٖئی برا خیال آ جاتا ہے تو فوراً متنبہ ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹ جاتا ہے تو اس وقت صحیح راہ دیکھ لیتے ہیں۔'' (سورۃ الاعراف)
اس آیت مبارکہ پر اگر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ کس قدر بہترین پاکیزہ اخلاق کریمانہ کی تعلیم دی جارہی ہے کہ عفو و درگزر اسلامی اخلاق حسنہ کے بہترین مظاہر ہیں اور معاف کردینا اﷲ کی بھی صفت عالیہ ہے۔ گویا اﷲ اور اس کے رسولؐ لوگوں کے قصور معاف کردینے والے ہیں اور یہ وصف انتہائی عظمت کا حامل ہے کہ انتقام لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود محض رب کی رضا کی خاطر اپنے بدترین دشمن سے بھی انتقام لینے کی بجائے اسے معاف کر دیا جائے اور ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے۔
پھر فرمایا کہ جاہلوں سے علیحدہ رہیے اور اگر شیطان آپ کو انتقام وغیرہ پر ابھارے تو اﷲ سے پناہ طلب کر لیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ جاہل لوگ انسان کو بدلے کی آگ میں دھکیل کر پورے معاشرے میں بدامنی و فساد کا سبب بن جاتے ہیں اور انتقام در انتقام کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں کئی بے گناہ جانیں ضایع ہوجاتی ہیں اور ان اعمال سے یقینا ہمارا ازلی دشمن شیطان خوش ہوتا ہے اور وہ ہمیں وسوسوں کا شکار کرتا رہتا ہے تاکہ ہم قدم قدم پر بداعمالیاں کرتے رہیں اور اﷲ کے غضب کا شکار ہو جائیں۔ لہٰذا فرمایا کہ اگر شیطان وسوسے ڈالے اور مخالفین سے انتقام پر اُبھارے تو ایسی صورت میں بھی انتقام نہیں لینا، بل کہ اپنے رب کی پناہ طلب کریں۔
ہم سوچیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پاکیزہ اخلاق سکھاتے ہوئے کیوں معافی و درگزر کا سبق سکھایا ہے تو وجہ صاف نظر آجاتی ہے کہ خود ہم اپنی زندگی میں کس قدر قصور کرتے رہتے ہیں۔ قدم قدم پر اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں اور اگر ہمارے ہر قصور پر مالک کائنات ہماری گرفت کرتا رہے تو کیا ہو؟ کیا ہم ہلاک نہ ہوجائیں اور روئے زمین پر کوئی ذی روح باقی نہ بچے، بل کہ ہوتا یہی ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمارے قصور معاف کرتا رہتا ہے۔ کیوں کہ اس کی صفات عالیہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے، وہ غفور الرحیم اور عفو کریم ہے اور یہ مکارم اخلاق کی بہت بڑی صفت ہے اور اﷲ تعالیٰ نے انہی مکارم اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام مبعوث فرمائے۔
رسول رحمت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
''میں حسن اخلاق کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا ہوں''
لہٰذا سیر ت مطہرہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سرور کائناتؐ نے اخلاق حسنہ کی تکمیل فرما دی۔ اور رب کائنات نے گواہی بھی دے دی کہ کہ آپؐ خلق عظیم کے منصب جلیلہ پر فائز کیے گئے ہیں۔ اخلاق حسنہ پر اسلام نے جس قدر توجہ دلائی ہے وہ کسی مذہب میں نہیں ہے۔ چناںچہ رحمت کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔
''اہل ایمان میں کامل ترین ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔''
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں تکمیل ایمان کا معیار جس چیز کو قرار دیا گیا ہے وہ حسن اخلاق ہے۔ یہی وہ پھل ہے جس سے ایمان کے شجر سایہ دار کی شناخت ہوتی ہے۔ اسلام میں عبادات مثلاً نماز، روزے کی جو اہمیت ہے وہ ظاہر ہے تاہم حسن اخلاق کو بھی کبھی کبھی ان کی قائم مقامی کا شرف حاصل ہو جاتاہے۔ حدیث مبارکہ ہے
''انسان (یعنی مومن) حسن اخلاق سے وہ درجہ پا سکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔''
گویا جو مرتبہ و مقام شب بیداری میں نفلی نمازوں کی ادائی اور دن بھر نفلی روزوں میں برداشت کرنے والی بھوک و پیاس کے ذریعے جو مراتب حاصل ہوسکتے ہیں وہ حسن اخلاق کا مالک جو صرف فرائض کی پابندی کرتا ہے البتہ راتوں کو نفلی نمازیں اور دن میں نفلی روزے نہیں رکھتا بل کہ اپنی خوش اخلاق رویوں سے اﷲ کی مخلوق کے ساتھ پیش آتا ہے وہ بھی ان مراتب کو حاصل کر لیتا ہے۔
اسلام ہرگز اس قسم کی تعلیمات نہیں دیتا کہ جو انسانیت کے لیے کسی بھی قسم کی اذیت کا باعث ہوں۔
سرکارِ دوعالمؐ نے فرمایا (قیامت کی) ترازو میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہ ہوگی کہ حسن اخلاق والا اپنے حسن خلق کی وجہ سے ہمیشہ کے روزے رکھنے والے اور نماز پڑھنے والے کا درجہ و مقام حاصل کرسکتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اخلاق حسنہ کی توفیق مرحمت فرمائے اور برے اخلاق سے بچائے۔ آمین
(مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی)