انوکھا پرنٹر، جو کاپی رائٹ قوانین کے ذیل میں آنے والا مواد پرنٹ نہیں کرے گا

غزالہ عامر  جمعرات 2 جون 2016
دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں کاپی رائٹ کے قوانین موجود ہیں، فوٹو : فائل

دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں کاپی رائٹ کے قوانین موجود ہیں، فوٹو : فائل

کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی عالمی مسئلہ ہے۔ اس سے مراد کسی بھی مصنف یا کسی پبلشر کی اجازت کے بغیر اس کی تخلیق اور اشاعت کا کوئی حصّہ یا اسے مکمل طور پر شایع کر دینا ہے۔

دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں کاپی رائٹ کے قوانین موجود ہیں، مگر مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کو تحریری شکل میں پیش کرنے والے غیر معروف یا قارئین کا محدود حلقہ رکھنے والے لکھاری ہی نہیں بلکہ عالمی شہرت یافتہ اور مقبول ترین مصنفین اور ناشر بھی اس قانون کی خلاف ورزی کا ’شکار‘ نظر آتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں کاپی رائٹ کے قوانین کی خلاف ورزی عام ہے۔

پبلشر یا رائٹر سے اجازت لیے بغیر ان کی کتب کی کلی یا جزوی اشاعت کے بعد انھیں کم قیمت پر بازار میں فروخت کردیا جاتا ہے، جس سے رائٹر اور ناشر کو مالی نقصان ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں مختلف موضوعات پر اہل علم اور دانش ور طبقہ اپنے خیالات، نظریات یا معلومات کو قارئین تک پہنچانے کے لیے کاغذ یا ڈیجیٹل ذرایع کا سہارا لے رہا ہے، وہیں معروف اور غیرمعروف مصنفین کی تحریروں کو اپنے نام سے شایع کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ علمی سرقے کی روک تھام اور اس کی حوصلہ شکنی کے لیے بنائے گئے قوانین کے تحت مصنفین اور ناشرین کے ’جملہ حقوق محفوظ‘ ہوتے ہیں اور اس تخلیقی کام کو کوئی بھی اپنے نام سے استعمال نہیں کرسکتا۔ اس جرم میں ملوث کسی فرد یا ادارے کے خلاف مصنف یا ناشر قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں۔ تاہم امریکا جیسے ملکوں میں بھی علمی سرقہ اور نقالی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

انٹرنیٹ کے اس  دور میں کتب، رسائل، اخبارات سب آن لائن ہیں اور اس دنیا میں بھی ایسی ان گنت ویب سائٹس کاپی رائٹ کے قوانین کو پامال کر رہی ہیں۔ ان پر مختلف کتابوں اور رسائل وغیرہ کا شایع شدہ مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے جسے کوئی بھی صارف اور اس مواد میں دل چسپی رکھنے والا فرد آسانی سے ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھ سکتا ہے اور اسے پرنٹ بھی کر لیتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں کاپی رائٹ قوانین کے حوالے سے صورت حال خاصی بہتر ہے، مگر تیسری دنیا کے مصنفین اور پبلشر قانون شکن عناصر کے ہاتھوں نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس صورتِ حال میں انٹرنیشنل بزنس مشینز (آئی بی ایم)  کا آنے والا پرنٹر ان کی مشکل کا حل ثابت ہوسکتا ہے!

کمپیوٹر ہارڈویئر اور سوفٹ ویئر کے لیے مشہور امریکی کمپنی نے گذشتہ دنوں نے اس منفرد پرنٹر کی ٹیکنالوجی اور ڈیزائن کے حقوق اپنے نام محفوظ ( پیٹنٹ) کروانے کے لیے درخواست دی ہے جو کاپی رائٹ کے ذیل میں آنے والے تحریری یا تصویری مواد کو پرنٹ کرنے سے ’انکار‘ کردے گا! اس پرنٹر کو Copyright Infringement Prevention  کا نام دیا گیا ہے۔

بہ ظاہر یہ بات بڑی حیران کُن معلوم ہوتی ہے کہ پرنٹر کیسے خود کو دی گئی’ پرنٹ‘ کی ہدایت پر عمل کرنے سے انکار کرسکتا ہے۔ دراصل اس کا طریقۂ کار بڑا سادہ ہوگا۔ پرنٹ کی کمانڈ ملنے کے بعد یہ فائل میں موجود  مواد کا لمحوں میں ’جائزہ‘ لے گا اور ’طے‘ کرے گا کہ اس میں ایسا مواد تو موجود نہیں جو کاپی رائٹ کے قانون کے ذیل میں آتا ہو۔ اگر اسے کوئی ایسا مواد ’ نظر‘ آتا ہے تو پھر وہ فائل کو پرنٹ کرنے سے انکار کر دے گا اور کمانڈ دینے والے شخص سے مطالبہ کرے گا کہ وہ متعلقہ فرد یا ادارے سے اس مواد کی اشاعت کی اجازت لے۔ آئی بی ایم کے مطابق آئی ایس بی این، اور یونائٹڈ اسٹیٹس کاپی رائٹ آفس کا ریکارڈ پرنٹر کی میموری کا حصہ ہوگا۔ اس تمام ریکارڈ سے موازنہ کرنے کے بعد ہی پرنٹر کوئی فائل پرنٹ کرے گا۔

آئی بی ایم کی یہ ایجاد کاپی رائٹ قوانین کی خلاف ورزی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، مگر یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب اس ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہوجائے۔ عام لوگوں کے علاوہ ادارے بھی ایسا پرنٹر خریدنے میں دل چسپی نہیں لیں گے جو ان کی راہ میں ’رکاوٹ‘ بنتا ہو۔ چناں چہ اس ٹیکنالوجی کو عام کرنے کے لیے وسیع حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس میں دوسری کمپنیوں کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ مختلف پبلشرز کے ساتھ دوسرے اہم اور بڑے اداروںِ کو اس جانب متوجہ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔