کوئی صورت نظر نہیں آتی

فرح ناز  ہفتہ 16 جولائی 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

بے حسی اس تیزی سے ہم سب میں بڑھ رہی ہے کہ اپنے برابر بیٹھے شخص کا دکھ ہم محسوس نہیں کرسکتے یا کرنا چاہتے نہیں۔ جان کر انجان بنے رہتے ہیں کہ کہیں اس کے لیے ہمیں کچھ کرنا نا پڑجائے۔ اپنی میں، میں اوراپنے آپ میں اتنے گم رہتے ہیں کہ مال ودولت کی ہوس مبتلائے جان بنی ہوتی ہے۔ اس کا احساس بہت زیادہ اس لیے بھی ہوا کہ دن بہ دن معاشرے میں درستگی کی بجائے خرابی پیدا ہو رہی ہے۔ ہماری روایات، ہمارا کلچر، ہماری بھائی چارگی تیزی سے غائب ہوتی جا رہی ہیں اور ہم بے ڈھنگے ننگے بھوکے ہوتے جا رہے ہیں۔

عبدالستار ایدھی ہم میں سے کیا گئے لگتا ہے جیسے انسانیت ہی چلی گئی، اب کون یتیموں اور لاوارثوں کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھائے گا اور بے کفن لاشوں کو کفن دیگا کون ہے جو کچرے کے ڈھیر سے لاوارث بچوں کو اٹھائے گا؟ ہرآنکھ اشکبار، ہر دل اداس، آہ! عبدالستار ایدھی! سلام ہے اس شخص پر جس نے ہمارے دین کی روح کو سمجھا کہ اللہ تو انسانیت کی خدمت کرنیوالوں کے دلوں میں رہتا ہے، مرتے مرتے بھی عبدالستار ایدھی اپنی آنکھوں کا عطیہ دے گئے ہیں۔

بھرپور اسٹیٹ اعزاز کے ساتھ ایک عظیم انسان دوست کو منوں مٹی کے نیچے دفن کردیا گیا، گویا ایک عہد ہی مٹی کے نیچے دفن ہو گیا۔ ایدھی صاحب نے دو دفعہ الیکشن بھی لڑا، مگر عوام نے انھیں سیاستدان بننے نہیں دیا بے انتہا کم ووٹ حاصل کیے اور پھر انسانیت کی خدمت میں گم رہے۔ بلقیس ایدھی نے بھی قدم قدم پر ایدھی صاحب کا ساتھ دیا اور وہ بھی اپنے مجازی خدا کے ساتھ بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتی رہیں۔

ہمارے ملک میں جہاں ایدھی صاحب سالہا سال سے انسانیت کی خدمت کررہے تھے وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو انسانوں کے لیے باعث تکلیف ہیں جو اپنی دکانیں اور اپنے محلات، چوری، ڈاکہ زنی کی رقم سے بناتے ہیں اور فخر کے ساتھ اس میں رہتے ہیں اور اپنی اولادوں کو بھی یہی ورثہ دیکر جاتے ہیں۔ چوری، ڈاکہ زنی، بدمعاشی، بے حیائی یہ بالکل ہمارا ورثہ نہیں ہم تو وہ ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کو بے مثال سمجھتے ہیں اور مثالیں دیتے ہیں، ہم اس نبی کی امت ہیں جس نے پتھر پیٹ پر باندھے اور محنت و مشقت کی، یہ ہم جانے کن چکروں میں پڑ گئے ہیں۔

دشمنوں نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا، حیرت تو اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ جو دین ہمیں سمجھاتے ہیں سکھاتے ہیں وہ بھی اپنی اپنی مسجدیں بناکر بیٹھے ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر دین خراب ہوتا ہے بددیانتی، بدمعاشی سے نہیں ہوتا، ہر کوئی اپنی سوچ کے ساتھ دین پھیلاتا ہے دین چلاتا ہے حالانکہ اس میں تو کوئی جمع یا مائنس کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے، ہر چیز صاف صاف بتا دی گئی ہے سمجھا دی گئی ہے صرف اس راستے کو Follow کرنا ہے جس پر میرے رسول ؐ نے چل کر دکھایا۔اللہ پاک ہم سب پر رحم کریں کہ کم ظرفی، بے ایمانی، انا و غرور سب برائیاں ہم میں رچ بس گئی ہیں اور کسی طرح کی کوئی شرم بھی نہیں، بے شرمی کا عالم یہ ہے کہ گھر کے گھر اجڑ رہے ہیں۔

بوڑھے ماں باپ ایدھی ہوم کی نذر ہو رہے ہیں، ناجائز اولادیں کچرے کے ڈھیر میں ڈال دی جاتی ہیں، کہاں سے اتنا جگر اور اتنا بڑا دل ان لوگوں میں آتا ہے کہ جیسے یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ اسی دنیا میں رہیں گے نہ ان کو موت آئے گی اور نہ کوئی جزا و سزا ان کی منتظر ہوگی۔ایدھی جیسے انسان دوست کے مرنے پرکچھ لوگوں نے منفی پروپیگنڈے کرنے کی کوشش بھی کی، مگر ان کی خدمات اور ایدھی کا جذبہ بیشک اندھا بھی محسوس کرسکتا ہے، اس لیے درخواست ہے کہ نہ کرو بھائی ایسا منفی پروپیگنڈا جس کی وجہ سے آپ کی آوازیں اور بھی بری لگیں، جینے دو، رہنے دو ایسی انسانیت کو جو دوسروں کے لیے مثل راہ بنیں۔ دن بہ دن مسئلے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں کبھی جنرل کو بھیجنے کی سیاست کبھی بلانے کی سیاست آخر یہ لوگ خود کو لائق کیوں نہیں بنا لیتے، اربوں کھربوں کہاں لے کر جائینگے، چوروں کی صدائیں جو پیچھا کر رہی ہیں وہ ختم بھی نہیں ہو رہی ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم کو دیکھا کیا شاندار سادہ طریقے سے رخصت ہوا اپنا سامان تک خود اٹھا اٹھا کر چل دیے نہ کوئی غرور نہ تکبر کتنا اطمینان ہوتا ہو گا ان کے دلوں میں، اور کتنا خوش ہوتی ہوگی ان کی اولادیں جو ایک صاف ستھرے کردار کے حامل کی کہلائیں گی نہ کوئی ان کو بددعائیں دیگا نہ کوئی چورکی صدائیں لگائے گا۔ کتنے خوش ہوتے ہیں ہم جب لندن جاکر رہتے ہیں، بڑے بڑے اسٹور میں شاپنگ اور موجاں ہی موجاں مگر سیکھا کچھ نہیں حد تو یہ ہے کہ وہاں پر قتل و غارت ایسے اعلیٰ طریقے کارکہ ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا، قاتل ابھی بھی سزا سے باہر، اللہ خیر کرے۔ ہم بھی خوب لوگ ہیں ایک سے امید لگاتے ہیں دوسرے سے مارکھاتے ہیں حالانکہ عوام کی طاقت کے سامنے کوئی ٹھہرا نہیں، یہ جب جب متحد ہوتے ہیں تاریخ رقم ہوتی ہے، اب پھر دوبارہ سے مارشل لا کی صدائیں آنے لگیں جگہ جگہ پوسٹرز کی بہاریں بھی نظر آرہی ہیں اب تھک ہار کر یہی کیا جاسکتا ہے ہماری ناکامی بھی یہی ہے کہ تسلسل کا فقدان ہے ، تخت و تاج پر بیٹھے ہوئے ارکان آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ہر طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں سیاہ و سفید کے مالک بن کر زمینوں کو بنجر کردیتے ہیں۔

تازہ مثال ڈیوڈ کیمرون کی ہے کہ یہی ہے صحیح عزت و احترام تمام پاورز اس شخص نے چھوڑ دیں اور عزت کو فوقیت دی کتنا فخر ہوتا ہوگا ان کے بیوی بچوں کو ان پر کہ پوری دنیا میں کیمرون کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔PML(N) کی جب بھی حکومت آتی ہے اسی طرح کی کشیدگی دیکھنے کو ملی ہے اب دیکھیے کہ آگے کیا ہوتا ہے، ابھی تو حکومت کے سال باقی ہیں، مگر پاناما اسکینڈل سمیت ابھی نئی والی صورت بھی نظر آتی ہے۔ بدقسمتی عوام کی کہ ہمارے پاس کوئی بہترین چوائس نہیں سوائے جنرل راحیل شریف کے۔ چاروں طرف سے دشمنوں کی نظریں لگی تھیں ہمارے ملک پر اور ہم بے حسی کی چادر تان کر سوتے پڑے ہیں کتنی عالی شان نعمت یہ اللہ نے دی ہے ہمیں ہر چیز موجود، مگر سنوارنے سجانے والے ہاتھ ہی لوٹ مار میں ملوث ہوجاتے ہیں اور عوام دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے۔ سازشیں کرنیوالے چاروں طرف ہر روپ میں موجود ہیں، ایدھی پر بھی تنقید ہو رہی ہے جب کہ ایدھی بننے پر ایدھی کی طرح کام کرنے پر ایدھی کی طرح سادہ زندگی گزارنے پر کتنے لوگ تیار ہیں؟

جو شخص آخری لمحے تک انسانوں کے کام آتا رہا کیا یہ انسانیت کے خلاف ہے، ہمارا رب تو خود ہمیں انسانوں کی فلاح و بہبود بڑھ چڑھ کرکرنے کو کہتا ہے، مگر اب بھی یہ عناصر اپنی اپنی دکانیں چمکانے پر لگے ہوئے ہیں، اپنی بے حسی کی چادریں اتار دیجیے اور ہاتھوں کو ایک دوسرے کے مضبوطی سے تھام لیجیے کہ وقت کا یہی تقاضا ہے، برائیاں اور اچھائیاں ہر شخص میں موجود ہیں انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر اتنی اچھائیوں کو برائیوں پر فوقیت دیجیے۔ ایک اور آنیوالی نوجوان نسل کا سوچئے، پڑھے لکھے لوگوں کو آگ میں نہ پھینکیں کہ وہ نفرت میں اندھے ہوجائیں۔ عدل و انصاف بے انتہا ضروری ہوگیا ہے خاص طور پر پولیس کے محکمے میں کالی بھیڑوں کو نکال پھینکئے عوام کے پیسوں سے چلنے والے یہ ادارے عوام کا ہی استحصال کر رہے ہیں رشوت کے نام پر لاکھوں کمانے والے برباد ہی رہتے ہیں اور رہیں گے، عوام کی حفاظت کرنے والے ہی قاتل بن رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔