پانی سے لکھی ایک غم آگیں کہانی۔۔۔

پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے کا رخ تبدیل کرنے کے لیے بااثر افراد نے مختلف مقامات پر نہروں اور سڑکوں پر کٹ لگا دیے۔


Syed Aftab Bukhari November 29, 2012
سیلابی پانی پچھلے ڈھائی ماہ سے جیکب آباد اور گڑھی خیرو میں نظر آرہا ہے۔ فوٹو : فائل

اگست 2010 میں ٹوڑی بند میں پڑنے والے شگاف سے خاصی تباہی ہوئی تھی۔ انسانی جانوں کے ضیاع اور املاک کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

ساتھ ہی غریب اور محنت کش افراد کا معاش بھی برباد ہوگیا تھا۔ ضلعے کی ستر فی صد زرعی آبادی بند ٹوٹنے کے بعد علاقوں میں داخل ہونے والے دریا کے پانی سے متاثر ہوئی تھی۔ دریا کے پانی نے رہایشی علاقوں اور جائیداد کو بھی اجاڑ دیا تھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ازالہ ہوا بھی نہ تھا کہ ستمبر 2012 میں ہونے والی زبردست بارشوں کے دوران بلوچستان کے پہاڑی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلے نے ضلع جیکب آباد کی تحصیل ٹھل، جیکب آباد اور گڑھی خیرو کے علاقوں کو شدید متاثر کیا۔ یہ وہی علاقے ہیں، جہاں 2010 میں آنے والے سیلاب سے بے پناہ تباہی پھیلی تھی۔ غریبوں پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے کا رخ تبدیل کرنے کے لیے بااثر افراد نے مختلف مقامات پر نہروں اور سڑکوں پر کٹ لگا دیے۔

اُن کا مقصد اپنی زرعی زمینوں کو بچانا تھا، اور اِس کے لیے اُنھوں نے ہر ممکن طریقہ استعمال کیا، جس کی وجہ سے چھوٹی بڑی نہروں میں شگاف پڑنے لگے، اور اِس طرح ریلے سے بچ جانے والی زمینیں بھی پانی میں ڈوبنے لگیں۔ پہاڑوں سے آنے والے ریلے سے مختلف علاقوں کی حفاظت کی غرض سے مقامی انتظامیہ نے مختلف لنک روڈز اور قومی شاہ راہوں کو کٹ لگائے، لیکن پانی کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے اس کی نکاسی میں وقت لگا۔ اطلاعات کے مطابق ضلع قمبر شہداد کوٹ کو بچانے کے لیے وہاں کے منتخب نمایندوں نے جیکب آباد کے علاقے گڑھی خیرو سے گزرنے والی کھیر تھر کینال کے پشتوں مضبوط کردیے تھے، جس کے بعد پانی گویا ٹھہر گیا۔ یہ پانی پچھلے ڈھائی ماہ سے جیکب آباد اور گڑھی خیرو کی آٹھ سے زاید یونین کونسلوں میں نظر آرہا ہے۔

پانی کی عدم نکاسی کے معاملے کی میڈیا رپورٹنگ کے بعد ماحولیاتی تبدیلی اور متاثرین کی بحالی کے لیے تشکیل دی گئی اسٹینڈنگ کمیٹی کی کنوینر، ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو ایم این ایز کے ساتھ جیکب آباد پہنچیں۔ اُن کی آمد سے قبل دو سے تین بار وزیر اعلیٰ کے مشیر، حلیم عادل شیخ بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکے تھے، اور انھوں نے پانی کی عدم نکاسی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اِس پر سیکریٹری آب پاشی بھی متحرک ہو گئے۔ وہ بھی اِن علاقوں کا دورہ کر کے گئے، لیکن عملی طور پر اس ضمن میں کوئی کام نظر نہیں آیا۔ اب حالت یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں کھڑا پانی زہریلا اور انتہائی آلودہ ہو چکا ہے۔

ٹھل، گڑھی خیرو اور جیکب آباد کی انتظامیہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکی ہے، اور متاثرہ علاقوں میں محکمۂ آب پاشی اور ضلعی انتظامیہ کا عملہ اور مشینیں کہیں نظر نہیں آرہیں۔ زرعی زمینوں پر پانی کھڑا ہے، جس کے باعث موسم سرما کی اہم فصلیں گندم، سرسوں، چنا نہیں اگائی جاسکی ہیں، جس کے باعث آبادگار معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب گوٹھ ثناء اﷲ کھوسہ، گوٹھ پیارو عمرانی، گوٹھ علی حسن جکھرانی، غلام نبی بروہی اور دیگر سیکڑوں قصبوں میں سیلاب اور بارشوں کے باعث کچے گھر برباد ہوچکے ہیں، اور متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ بعض متاثرین اپنی زرعی زمینوں سے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی نکاسی کا کام انجام دے رہے ہیں۔ موسم سرما کی شدت بڑھنے سے متاثرین کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کو راستہ دینے کے لیے سڑکوں اور دیگر مقامات پر جو کٹ لگائے گئے تھے، انتظامیہ نے اُن پر بھی توجہ نہیں دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج شہریوں کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے انتہائی اذیت کا سامنا ہے۔

برسات اور پانی کے ریلے سے متاثرہ علاقوں کے آبادگاروں صابر خان کھوسہ، محمد ہاشم بروہی، ایم ڈی عمرانی او دیگر نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متاثرین کی مدد کے لیے بلاتفریق کام کیا جائے، پانی کی نکاسی اور زمینی راستوں کی بحالی ممکن بنائی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بحالی کا عمل تیزی سے کیا جائے، تاکہ وہ اگلے موسم میں اپنی زرعی زمینوں کو قابل کاشت بنا سکیں، اور معاشی طور پر مزید تباہی سے بچ سکیں۔ انھوں نے محکمۂ آب پاشی کے حکام کی توجہ چھوٹی بڑی نہروں میں پڑنے والے شگافوں کی طرف بھی مبذول کروائی، اور کہا ہے کہ نہروں کے پشتوں کو مضبوط بنایا جائے ۔

مقبول خبریں