الیکشن کمیشن کے 4 نئے ارکان کا تقرر

تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کو دور کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں عمل پیرا ہوں یہی وقت کا تقاضا ہے


Editorial July 27, 2016
حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے چاروں صوبوں سے 12، 12 نام تجویز کیے گئے تھے۔ فوٹو؛ فائل

صدر مملکت کی منظوری سے الیکشن کمیشن کے 4 نئے ارکان کا تقرر کردیا گیا ہے، قبل ازیں پارلیمانی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کے چار ارکان کے ناموںکی منظوری دی۔ پنجاب سے جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی، سندھ سے عبدالغفار سومرو (سابق بیوروکریٹ)، بلوچستان سے جسٹس (ر) شکیل بلوچ اور خیبرپختونخوا سے جسٹس (ر) مسز ارشاد قیصر الیکشن کمیشن کی ممبر منتخب کی گئی ہیں۔

خاص بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی نے ارکان کی تقرری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ چاروں ارکان کے نام وزیراعظم کو بھجوائے گئے جن کی سفارش پر صدر نے ان کی تقرری کی سمری پر دستخط کردیے۔ وزارت پارلیمانی امور نے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے جو الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا ہے، ارکان آیندہ چند روز میں حلف اٹھائیں گے۔ واضح رہے حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے چاروں صوبوں سے 12، 12 نام تجویز کیے گئے تھے۔

تحریک انصاف نے پنجاب سے طارق کھوسہ اور خیبرپختونخوا سے جسٹس (ر) فصیح الدین کا نام دیا تھا تاہم ان کی تقرری نہ ہونے پر تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اے این پی نے بھی مشاورت نہ کیے جانے پر ووٹنگ میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت آئینی ضرورت تھی اور ہم نے اسے پورا کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کی تقرری کے لیے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر انتہائی ایماندار اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر افراد ڈھونڈے تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے ذاتی جان پہچان کو سامنے نہیں رکھا، اس لیے عمران خان کا گلہ ہم سے نہیں بنتا۔ ایک اور اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن نے مختلف شہروں میں تعینات 28افسروں کے تبادلے بھی کردیے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق خیبرپختونخوا سے 8، فاٹا سے ایک، بلوچستان سے 2، اسلام آباد اور پنجاب کے 6، 6 افسروںکے تبادلے کیے گئے ہیں۔ قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور سفارشات کے بعد ہونے والے چناؤ کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہی راست اقدام متصور کیا جائے گا لیکن اگر کہیں کوئی ابہام اور تحفظات ہوں تو ان کا دور کیا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔

یہ صائب ہوگا کہ اب اعتراض برائے مخالفت کی سیاست کا خاتمہ کیا جائے۔ محض اختلافات کے باعث راست اقدامات پر قدغن لگانا دانشمندانہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تمام فریقین کے تحفظات کو دور کرنا اور اعتراضات پر باہمی مشاورت ہی جمہوریت کا حسن ہے، تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کو دور کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں عمل پیرا ہوں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔

مقبول خبریں