آئیں نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں
خفیہ ہاتوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں پاکستان پیپلز پارٹی سے خدا واسطے کا بیر ہے ۔
خفیہ ہاتھوں میں کھیلنے والے پروپیگنڈہ مشینری کے ہرکاروں کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں کاش ہمیں پتہ ہو تا کہ یہ خفیہ ہاتھ کون ہیں تو ہم آپ کو یہ بتا دیتے لیکن ہمارے انداز ے کے مطابق یہ خفیہ ہاتھ وہی ہیں، جو اس ملک میں اپنی مرضی کا نظریہ اوراپنی مرضی کا مذہب جبراً مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس لابی کی کوشش پاکستان کے قیام سے پہلے ہی سے جاری ہے اسی کوششوںکے نتیجے میں آج پاکستان خودکش بم دھماکوں سے لرز رہا ہے۔ ملک کے دفاعی ادارے بھی ان خود کش دھماکوں سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔
ان خفیہ ہاتوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں پاکستان پیپلز پارٹی سے خدا واسطے کا بیر ہے یہ لوگ ماضی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی انتہائی خوفناک پروپیگنڈہ کر چکے ہیں۔ اسی طرح شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی انھوں نے اپنی منفی پروپیگنڈہ مہم کا نشانہ بنایا اور آج انھوں نے اپنے پروپیگنڈے کا نشانہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بنایا ہوا ہے اور اپنی اس مہم میں انھوں نے اس بات کو بھی نظر انداز کر دیا کہ پاکستان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف بھر پور انداز میں کارروائی کر رہی ہیں، جس کے مثبت نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایسے موقع پر ملک میں عدم استحکام کی فضاء قائم کر نا مسلح افواج کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے ۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو سیاست کی دلدل سے علیحدہ کر رکھا ہے بلکہ وہ پاکستان میں جمہوری نظام پھلتے پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں ان ہی ممالک کا دفاعی نظام زیادہ مضبوط ہوتا ہے جن کے سیاسی اور جمہوری ادارے مستحکم ہوتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں بعض نادان مذہبی انتہا پسند اور پیپلز پارٹی کے مخالفین موجودہ جمہوری نظام کو تہس نہس کر نے پر تلے بیٹھے ہیں اور یہ عناصر بالواسطہ طور پر ان دہشت گردوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنی کارروائیوں سے ملک کے وجود کو خطرے میں ڈال رکھا ہے حتی کہ وہ فوج کے ہیڈکوارٹر پر بھی حملہ آور ہو گئے ۔یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے لیکن ہمارے بعض اینکر پرسن اپنی خواہشات کو خبر بنانے کے چکر میں اس قدر منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ بعض لوگ تو ان کی جانب داری پر اب ہنسنے لگے ہیں، تبصروں کے دوران ان عناصر کی آنکھوں اور ان کے چہرے کے تاثرات سے نفرت صاف جھلک رہی ہوتی ہے یہ رویہ کسی اچھے میڈیا پرسن ہو نے کی نشاندہی نہیں کر تا۔
وہ اینکر پرسن چن چن کر ایسے افراد کو اپنے تبصروں میں شامل کرتے ہیں جو موجودہ حکومت کی اعلیٰ شخصیات سے ذاتی یا سیاسی نوعیت کی پر خاش رکھتے ہیں ۔حیران کن اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص ان ہی کے پروگرام میں یہ کہتا ہے کہ آپ تو کسی کے اشارے پر جانب داری کر رہے ہیں تو وہ بجائے خجل ہونے کے سامنے والے شخص کو مذاق کا نشانہ بنانے کی کوشش کر تے ہیں۔ اس ساری صورتحال پر تو ایک صاحب نے تنگ آکر یہ تک کہہ دیا کہ یہ میڈیاکے طالبان ہیں اب جب کہ ان عناصر کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے تو پاکستان کی بقا اور سلامتی کی خاطر ان عناصر کو کچھ تو توبہ کر لینی چاہیے اور اگر اب بھی یہ اپنی روش پر برقرار رہتے ہیں تو ایک وقت وہ آئے گا کہ عوام ان کے خلاف رد عمل کا اظہار کر نے لگیں گے۔ میڈیا میں ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ اس حد تک جانب داری کا مظاہرہ کریں کہ معاشرے میں انتشار پیدا ہوجائے افراتفری پیدا ہوجائے اور نتیجے میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو ملک کے تمام اداروں پرحاوی ہو نے کا موقع مل جائے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی صورتحال اب بہت مختلف ہے پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک طویل سیاسی جدوجہد سے گزرکر آئی ہیں۔
ان کی انتظامی صلاحیتوں میں خامی ہو سکتی ہے لیکن ان کی سیاسی طاقت اور سیاسی حکمت عملی بہت موثر ہے اس وقت پاکستان کے عوام کو بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے۔ جس میں انھیں روزگار، تعلیم، صحت، خوراک، گھر ، پینے کا صاف پانی، سفرکی سہولیتں، بجلی اور بہتر ماحول درکار ہے لیکن اس کے لیے پوری قوم کو مل کر کوشش کرنا ہو گی ۔کوئی ایک سیاسی گروہ یا جماعت پاکستان کو موجودہ بحران سے تن تنہا نہیں نکال سکتی ۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری اس بات کے لیے بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں قومی مفاہمت کی فضا قائم ہو سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے قومی پالیسی تیار کی جائے۔
مگر مذکورہ افراد اپنا اصل کام چھوڑ کر سیاست کر رہے ہیں لہذا جب وہ انتخابات میں حصہ لیں گے تو انھیں اندازہ ہو گا کہ اپنے گھر والوں کا ووٹ لینا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے۔ امید ہے کہ کوئی سیاست کا شکار جانب دار ایک آدھ میڈیا پرسن میری بات کوچیلنج کے طورپر قبول کرتے ہوئے آنے والے عام الیکشن میں اپنا وزن ناپنے کی کوشش ضرور کرے گا اور پھر اسے اندازہ ہو جائے گا اگر ہم اپنے رویوں کو مثبت رکھیں اور پاکستان کی ترقی اورخوشحالی کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں اوردوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کریں تو ہم اس صورتحال سے نکل کر بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے یہ بعض دوست جو خود کو سیاست دان تصور کر نے لگ جاتے ہیں وہ اپنے دائرے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور ہماری باتوں کا برا نہیں مانیں گے۔ جمہوریت کی روح یہ ہی ہے کہ پارلیمنٹ کو بالا دستی حاصل ہو، وہ قومیں کبھی نا کام نہیں ہوئیں جنہوں نے پارلیمنٹ کو بالادست کیا، انتخابی عمل کوشفاف بنایا اور اپنے اداروں کو مضبوط کیا اور عوام کو بااختیار اور خوشحال بنایا۔ اگر ہم آج بھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے تو پھر ہم ایسے انتشار کا شکار ہو جائیں گے جس کا سمٹنا ناممکن ہو جائے گا۔
ہمیں پاکستان کو بچانے کے لیے بہت سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ ہم لوگوں کو اور ان کے نمایندوں کو حقوق اور اختیارات دے دیں لوگوں کو خوشحالی دے دیں لیکن اگر ایسا نہ کیاگیا تو پاکستان کے عوام نے جن امیدوں سے اپنے ملک میں انتخابی عمل کے ذریعے ایک پر امن تبدیلی لانے کی کوشش کی تھی وہ شدید مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان جغرافیائی سطح پر ایک ایسے مقام پر واقع ہے کہ اس کا عدم استحکام پورے خطے اور دنیا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں اور دانشوروں کو اس چیز کے لیے متحد ہو جانا چاہیے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اور ان کے منتخب نمایندے ہی فیصلہ کرنے کے لیے بہتر سوچ رکھتے ہیں۔ کوئی فرد واحد کسی صورت بھی پاکستان کے لیے عقل کل نہیں ہو سکتا۔ آئیے! ہم سب ملک کر پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے اپنا اپنا کر دار ادا کریں، عوام کو بااختیار اور خوشحال بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ملک میں تبدیلی لانے اور نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔