’’علم‘‘ سے ’’تعلیم‘‘ کا سفر

تعلیم کے کاروبار میں گھاٹے اور نقصان کا کوئی خدشہ اور امکان نہیں ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq September 30, 2016
[email protected]

ویسے تو ''علم'' کے بارے میں اپنے ہاں اتنے زیادہ اقوال زرین پائے جاتے ہیں کہ کسی کو اپنا نام اور ولدیت تک یاد نہ ہو لیکن آٹھ دس اقوال اس کے پاس بھی ہوں گے، اکثر بٹیروں کی طرح اقوال زرین لڑایا بھی کرتے تھے جس کے اقوال زرین ہار جاتے اسے سزا کے طور پر دس بارہ اقوال زرین مارے جاتے تھے اور جیتنے والے کے اقوال زرین ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے، چنانچہ علم کے بارے میں بھی ایک بہت بڑا اسٹاک ہمارے ''ذخائر'' میں موجود ہے جیسے علم، علم ہوتا ہے اور علم کے سوا کچھ نہیں ہوتا، علم جتنا خرچتا ہے اتنا ہی بڑھتا ہے، علم دولت سے بڑا ہے، کیونکہ دولت چوری ہو سکتی ہے لیکن علم نہیں۔ اس زمانے میں نقل اور جعلی ڈگریاں ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں، زیادہ ترتعلیم سے بھاگے ہوئے ان پڑھوں کے ہاں ملازمت کرتے ہیں

بھاگے تھے ہم بہت، سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں رہزان کے پاؤں

بارے خدا خدا کر کے کسی کو اچانک خیال آیا کہ علم کا نام بدل کر کیوں نہ دیکھا جائے شاید نام بدلنے سے اس کی نحوست دور ہو جائے اور یہ اقوال زرین سے نکل کر ''افعال زرین'' میں داخل ہو جائے، ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے ،نام میں میرے ہے وہ دکھ کہ کسی کو نہ ملا

کام میں میرے ہے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا

چنانچہ اسی وقت علم کا نام بدل کر ''تعلیم'' رکھ دیا گیا میں نے اپنا نام ''علم'' سے بدل کر ''تعلیم'' رکھ دیا ہے، جس کا انگریزی نام ''ایڈجوکیشن'' بنتا ہے آیندہ مجھے تعلیم یا ایڈجوکیشن کے نام سے پکارا جائے، لکھا بیچا اور خریدا جائے، حالانکہ ہم اس نحوست اور نام وغیرہ کے اثر کے بالکل ہی قائم نہیں تھے ایک مرتبہ ایک ہمارا شاعر دوست جو ''دکھی'' تخلص رکھتا جب پے در پے چند حادثات کا شکار ہوا، دو تین بیٹے مختلف وجوہات کے تحت مر گئے تو بیوی کے مجبور کرنے پر اس نے اپنا تخلص سکھی رکھ لیا، اس دن فتوحات ہی فتوحات کامیابیاں ہی کامیابیاں اور تجارتیں ہی تجارتیں ہیں

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

چنانچہ ہمیں ''نام'' کے اثرات نیک و بد کا بھی قائل ہونا پڑا اور اقوال زرین کو ماننے لگے بشرطیکہ ان میں تھوڑی سی ترمیم کی جائے مثلاً جہاں جہاں پرانے اقوال زرین میں ''علم'' کا نام آتا ہے وہاں تعیم بلکہ ایڈ ۔ جو کیشن کیا جائے یعنی تمام ''متعلقہ'' کاغذات میں درستگی کی جائے جیسے تعلیم یا ایڈجوکیشن بڑی دولت ہے، ایڈجوکیشن کو آپ ہزار طریقوں سے استعمال کر سکتے ہیں اسے بڑے بڑے ملٹی پلیکس اسٹوروں سے لے کر چھابڑی تک میں ڈال کر فروخت کیا جا سکتا ہے اس کو کھا سکتے ہیں پی سکتے ہیں پہن سکتے ہیں بلکہ اس میں رہ بھی سکتے ہیں کیونکہ ایڈجوکیشن کے لیے کوئی عمارت کھڑی کرنا چٹکیوں کا کام ہے ایڈجوکیشن کو آپ پکا کر، ابال کر، بھون کر، تل کر ہر طرح بلکہ کچا بھی کھا سکتے ہیں اس کا جوس، اچار، چٹنی مربہ جام اور مارملیڈ حتیٰ کہ اس کا جوہر یا کشتہ بنا کر بھی استعمال کر سکتے ہیں اور ہر صورت و شکل میں استعمال کرنے سے دنیا کی پیچیدہ ترین بیماری غربت کا علاج کیا جا سکتا ہے، چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کو تو آپ جانتے ہیں اسکول میں آٹھ بجے سے لے کر بارہ بجے تک پڑھا ہوا ہے کیوں کہ آٹھ بجے والدین نے داخل کیا اور بارہ بجے استاد نے لڑکوں کے ذریعے ڈنڈا ڈولی کر کے نکال دیا، لیکن اس کے باوجود آج کل وہ ہمارے علاقے کے واحد ''ماہر تعلیم'' ہیں جس سے نئے بننے والے ماہرین تعلیم آ کر مشورہ لیتے ہیں، ہوا یوں کہ اس کے باپ نے اس پر ہر جتن اور ہر نسخہ استعمال کرنے کے بعد بھی کچھ نہ کر سکنے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنا منہ خاک میں چھپا لیا

شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں
ختم ہے الفت کی تم پر پردہ داری ہائے ہائے

باپ کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد اس نے کمر ہمت بلکہ کمر بے غیرتی باندھ کر ہر وہ کام کیا جو کرنے کا تھا اور وہ بھی جو ہر گز ہر گز کرنے کا نہ تھا، مرغی چوری سے لے کر بھینس چوری اور نوسر بازی سے لے کر کبوتر بازی تک سب کچھ کیا طرح طرح کی نوکریاں بھی کیں لیکن کامیابی نے قدم نہیں چومے، تب اچانک اس کی خوش قسمتی اور قوم کی بدقسمتی سے گاؤں میں کسی باہر کے خدا مارے نے ایک ''انگلش ماڈل اسکول'' لانچ کیا ...

ظاہر ہے کہ پہلی بار کسی کندہ ناتراش گاؤں میں یہ نیا تماشا آیا تھا لہٰذا بچوں اور والدین دونوں کو ڈسپلن سکھانا اسکول کی اولین ترجیح تھی تب قرعہ فال قہر خداوندی کے نام پڑا جو اس وقت ہر قسم کی شرارتوں اور شورہ پشتوں کا بانی مبانی قرار دیا گیا تھا ہر برائی اسی سے شروع ہوتی تھی اور اسی پر جا کر ختم ہوتی تھی، جو اسکول کا مالک پرنسپل استاد اور سب کچھ تھا اس نے ہومیوپیتھک بھی پڑی تھی اور علاج بالمثل کا قائل تھا اس لیے اس نے بچوں کو سدھارنے کے لیے نہیں بلکہ قابو میں رکھنے کے لیے قہر خداوندی کو اپوائنٹ کیا اور یہی وہ منحوس گھڑی تھی جس سے قہر خداوندی کا رحجان ''ایڈجوکیشن'' کے کاروبار کی طرف ہو گیا۔

آپ سوچیں گے کہ ہم تعلیم کے لیے ایجوکیشن کے بجائے یہ جو ''ایڈجوکیشن'' کا نام استعمال کر رہے ہیں یہ کوئی سمجھ یا کتابت کی غلطی ہے جی نہیں بلکہ ہم اس لیے دانستہ ایسا کر رہے ہیں کہ ''ایڈ'' میں جو بات ہے وہ صرف ''ایجو'' میں کہاں سے ''ایڈ'' بجائے خود بھی کافی پرکشش اور نفع آور لفظ ہے اور پھر اس کے ساتھ کچھ کچھ ''ایڈز'' کا ایک ناجائز رشتہ بنتا ہے بلکہ دیکھا جائے تو دونوں امراض یعنی ایڈز اور ایڈجوکیشن کافی حد تک مماثل ہیں دونوں ہی جتنے کسی کے لیے نفع آور ہیں اتنے ہی کسی دوسرے کے لیے نقصان دہ بلکہ تباہ کن ہیں۔

قہر خداوندی کچھ عرصہ تو اس ایڈجوکیشن اسکول یعنی انگلش ماڈل میں بطور ''ٹیچر'' کام کرتا رہا ... پھر اچانک ڈاکٹر امرود کی طرح اس پر بھی یہ راز منکشف ہو گیا کہ جو کام اتنے بڑے بڑے اسکول کالج اور یونیورسٹیاں کر رہی ہیں وہ تو ایک چھوٹی سے مکان میں بھی کر سکتا ہے بچوں کا بیڑا ہی تو غرق کرنا ہے۔

خیر قہر خداوندی کے ماڈل ایڈجوکیشن اکیڈمی نے ثابت کر دیا کہ تعلیم سے بڑی اور کوئی دولت نہیں اس سے بڑا اور کوئی کاروبار نہیں اس سے بڑی کوئی اور صنعت نہیں تجارت نہیں حتیٰ کہ سیاست کے کاروبار میں بھی کبھی کبھی گھاٹا ہو جاتا ہے لیکن تعلیم کے کاروبار میں گھاٹے اور نقصان کا کوئی خدشہ اور امکان نہیں ہے، ہمارا مطلب ہے کہ جو اس کاروبار کے چلانے والے ہیں باقی رہے متاثرین تعلیم تو

کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بے داد کہ ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں جو تیر خطا ہوتا ہے

مقبول خبریں