جو نہیں ہے وہی ہے ضروری

تقدیر کا فیصلہ یہ جانتے ہوئے بھی ماننا اکثر بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ جو ہو رہا ہے، جیسے ہورہا ہے وہی بہتر ہے۔


مہوش کنول November 26, 2016
تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ’’کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے صبر و شکر کا دامن تھام رکھیں اور جو ہے، جتنا ہے اسی میں خوش رہنا سیکھ لیں۔ فوٹو: ایکسپریس

من چاہی چیزیں اور خواہشات پالینے سے دل کو جتنی خوشی ملتی ہے، اس سے کئی ذیادہ دُکھ ادھوری رہ جانے والی خواہشات پر ہوتا ہے۔ تقدیر کا فیصلہ یہ جانتے ہوئے بھی ماننا اکثر بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ جو ہو رہا ہے، جیسے ہورہا ہے وہی بہتر ہے۔

ہماری گرد ونواح میں جہاں تک نظر جاتی ہے ہر دوسرا انسان خواہشات کے پوری نہ ہونے کا سوگ منارہا ہوتا ہے۔ کسی کو پڑھائی میں اچھے مارکس نہ ملنے کا دُکھ تو کسی کو اچھا پڑھ کر بھی نوکری نہ ملنے کا درد، کسی کو اکیلے پن سے وحشت تو کوئی کسی ان چاہے ساتھ پر آہ و فغاں کرتا نظر آتا ہے، اور کوئی من پسند ساتھی نہ ملنے پر رنجیدہ ہے۔ کسی کو اولاد کی خواہش مارے دیتی ہے تو کوئی اولاد کے ہاتھوں رسوائی کے غم سے نڈھال ہے۔ غرضکہ ہر کوئی خواہشات کا غلام ہے اور یہ ادھوری رہ جانے والی خواہشات کسی کروٹ دل کو سکون لینے نہیں دیتیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جو نہیں ملا بس وہی سب سے ضروری تھا، وہی قیمتی تھا، جو پاس ہے اُس کی حیثیت ثانوی بھی نہیں رہتی۔ بقول حبیب جالب،
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اُسی کی ہے!!

یہ خواہشات بادشاہ کو بھی اپنا غرور و طنطنہ بھلا کر فقیر بنادیتی ہیں اور وہ بھی اپنا دامن پھیلا کر اپنے رب کے حضور سجدہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور چاہتا ہے کہ کاش وہ ادھوری خواہش پوری ہوجائے اور کسی طرح یہ بے چین دل کچھ قرار پائے، لیکن اتنی آسانی سے سکون و قرار کی منزل پاجانا بھی ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔

اسے پانے کے لئے انسان کو صبر و ضبط کی کئی کڑی منزلیں پار کرنی پڑتی ہیں، چاہے خوش ہو کر یا رودھو کر۔ انسان کو بظاہر لگتا ہے وہ اپنی منزل پلک جھپکتے پالے گا یا ہاتھ بڑھائے گا اور من پسند چیز مل جائے گی، لیکن وہ یہ بات سراسر بھول جاتا ہے کہ بندہ بشر تو منہ میں رکھے نوالے کو حلق سے اُتارنے کے لئے بھی اللہ کا محتاج ہے کہ اگر وہ پاک ذات چاہے تو اُس نوالے کو حلق سے اُتار دے اور چاہے تو حلق میں ہی اٹکا دے۔

انسان سب جانتے ہوئے بھی اُن چیزوں کے لئے آنکھوں میں خواب بُن لیتا ہے جو اس کی دسترس میں نہیں ہوتیں اور اللہ کی مرضی جانے بغیر اپنی من مرضی کے سمندر کی گہرائی تک اترتا چلا جاتا ہے۔ اسے ہوش تب آتا ہے جب نا قدری کی پر زور لہریں اسے واپس کنارے پر لاپٹختی ہیں اور وہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھوں کا استعمال اپنے راستوں پر نظر رکھنے کے لئے کرنے لگتا ہے۔ تب وہ مدہوشی سے ہوش تک کا سفر طے کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو اپنی کم عقلی کا درجہ دے کر اللہ کی رضا میں راضی ہوجاتا ہے۔

ہمیں کامیابی اتنا کچھ نہیں سکھاتی جتنا سبق ہمیں ہماری ناکامی دے جاتی ہے، اور انسان کا یہی ٹوٹ کر بکھرنے کا سفر اسے کہیں نہ کہیں اپنے رب سے جوڑ دیتا ہے۔ پھر یہیں سے آپ کے توکّل کا آغاز ہوتا ہے اور بندہ بشر اپنے رب کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا قائل ہو جاتا ہے۔

تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ''کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے'' کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے صبر و شکر کا دامن تھام رکھیں اور جو ہے، جتنا ہے اسی میں خوش رہنا سیکھ لیں کیونکہ کم سے کم وہ ہمارے پاس تو ہے۔ بقول شاعر،
ہزاروں خواہشوں کی بستیاں مسمار کرنی ہیں
اُسی ملبے سے پھر اک جھونپڑا تعمیر کرنا ہے!!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں