سکینہ بی بی۔۔۔۔عجیب داستاں ہے وہ

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 23 دسمبر 2012
پانی پلاکر گزربسر کرنے والی عورت، جس کی جیون کتھا آپ کو حیران کردے گی۔ فوٹو: فائل

پانی پلاکر گزربسر کرنے والی عورت، جس کی جیون کتھا آپ کو حیران کردے گی۔ فوٹو: فائل

دھول، مٹی، شور اور چیختی، بھاگتی، دوڑتی رنگا رنگ گاڑیاں، ویگنوں میں دھنسا ہوا، باہر لٹکتا ہوا، چھتوں پر بیٹھا، سہما ہوا، ابنِ آدم و آدم زادیاں، سامنے ’’عبداﷲ شاہ غازیؒ‘‘ کی جائے آرام کا سبز گنبد اور اس پر لہراتا سرخ پھریرا۔

بے کس و مجبور انسان، انگوٹھیاں، کڑے، دھاگے، منت کے چراغ اوہ پنجے فروخت کرنے والے، قسمت کے مارے، نظام زر کے مقتول، آدم و حوّا کے بے بس و لاچار بیٹے اور بیٹیاں اور ان میں سڑک کنارے پانی کا کولر لیے بیٹھی ستّر سالہ سکینہ بی بی۔ عجیب منظر ہے، بوڑھی ضرور ہیں وہ، لیکن انہیں دیکھ کر ہمت داد دیتی ہے، عزم سر جھکاتا ہے، یقین مسکراتا ہے، گزرے ہوئے ماہ و سال ان کے چہرے پر کندہ ہیں اور بہت گہرے، دکھ، مصائب و آلام انہیں رلاتے تو ہیں، پسپا نہیں کرسکے۔ وہ چٹان بنی جیون سے نبرد آزما ہیں، ہار ماننا انہیں آتا ہی نہیں ہے، کیسا اسرار ہے۔

ان میں، بہت گہرا، خاموش اور اندر سے اتنا جوار بھاٹا، شاید سمندر نے یہ سب کچھ دیا ہو انہیں، پاس ہی تو رہتا ہے وہ ان کے۔ کام بھی عجیب سا چنا ہے انہوں نے، پیاسے انسانوں کی سیرابی، تشنگی کو تسکین میں بدل دیتی ہیں وہ۔ آسودہ آدم کو دیکھتی اور خوشی سے جھوم جاتی ہیں، پیاسا پانی پی کر کچھ سکّے ان کے آگے رکھ دیتا ہے اور وہ دیالو اماں دعاؤں کی سوغات اسے پیش کردیتی ہیں۔ عجیب بہت عجیب، میں کور چشم بھی انہیں عام سی آدم زادی سمجھا تھا، لیکن جب انہوں نے کتاب زندگی کی تلاوت شروع کی تو میں مبہوت رہ گیا۔ عجیب داستاں ہے وہ۔ دست غیب سے لکھی ہوئی کتاب ۔ نہ جانے کیا ہیں وہ۔۔۔۔!

داؤد رضوان یاد آئے:

یہ داستان، عجیب داستان ہے

جبینِ وقت پر

شکن…شکن

گئے حوالے درج ہیں

مگر کتابِ وقت کے ورق کی

اجنبی زبان سے آشنائی تک

ہوائے شوخ و شنگ‘ بھید بھاؤ اپنے

اور رنگ سے بتانے لگتی ہے

آپ سکینہ بی بی سے باتیں کیجیے، میں رخصت ہوا۔

بیٹا میری عمر ستّر سال ہوگئی ہے، رہ ہی کتنی گئی ہے اب، بیت ہی جائے گی۔ وقت گزر ہی جاتا ہے، اوکھا سوکھا، یہ تو نہیں رکتا، اب رو کر گزارو یا ہنس کر، بس جیون یہی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کی زندگی سُکھوں سے بھری ہوئی ہو، اور کسی کی دکھوں سے، دکھ سکھ تو بہن بھائی کی طرح ہوتے ہیں، کسی کی زندگی میں زیادہ دکھ اور کم سکھ اور کسی کے جیون میں زیادہ سکھ اور کم دکھ۔ ہوتے ضرور ہیں۔ کوئی سدا سکھی یا دکھی نہیں رہتا بیٹا! بس یہی ہے جیون، پیچھے طرف پلٹ کے دیکھتی ہوں تو مسکراتی ہوں اور روتی بھی۔ سکینہ بی بی نام رکھا تھا میرا، سب سے پہلی اولاد تھی ناں میں، ملتان میں پیدا ہوئی تھی، میرا ابّا مزدور تھا۔ ہم تین بہنیں اور تین بھائی ہیں۔

محنت مزدوری کرکے ابّا ہمیں پالتے پوستے تھے، لیکن وہ بس یہی کرسکتے تھے، اتنی آمدنی ہی کہاں تھی ان کی۔ سارا دن محنت مزدوری، لیکن محنت بھی تو اس وقت کی جاسکتی ہے جب انسان کھائے پئے صحت مند ہو۔ اب اگر انسان بس محنت ہی کرتا رہے تو کب تک کرسکتا ہے اور پھر یہ جو سوچیں ہیں انسان کو مار ڈالتی ہیں، مزدور بندہ اور ہم بہنوں کا بوجھ۔ زمانہ کب اچھا رہا ہے۔ بس ایسا ہی تھا، لیکن اچھے لوگوں کی کبھی کمی بھی نہیں رہی۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، ابّا محنت مزدوری کرتے کرتے صحت گنوا بیٹھا اور بیمار رہنے لگا، بیماری ہزار دکھ لاتی ہے اور پھر غریبی کی بیماری۔۔۔۔۔! علاج معالجہ کیسے کرتے، بس وہی پرانے ٹوٹکے، تعویذ گنڈے، جھاڑ پھونک، یہی رہ جاتا ہے غریب کے بس میں۔

ہم نے بھی سب کیا، ابّا بیمار ہوکر چارپائی کا ہوگیا تو امّاں مزدوری کے لیے باہر نکلی۔ پڑھی لکھی تو میں بھی نہیں ہوں، وہ بھی نہیں تھی۔ اب اتنے دھکے کھانے کے بعد عقل آئی ہے کہ لڑکیوں کو ضرور پڑھنا چاہیے تو اماّں کارخانے میں مزدوری کرنے لگی، امّاں پر تو زیادہ بوجھ پڑ گیا تھا، بچے بھی پالے اور شوہر کا علاج بھی۔ بہت مشکل ہوگئی زندگی۔ اماں بھی آہستہ آہستہ اپنی صحت کھونے لگیں اور پھر ایک دن ابّا مر گیا۔ وہ زندہ ہی کب تھا۔ حالات نے تو اسے بہت پہلے ہی مار ڈالا تھا۔ بس جیون یہی ہے۔

اب اماں کو یتیم بھی پالنے تھے اور ہماری شادیاں بھی کرنی تھیں۔ یہ لڑکی ذات بھی عجیب ہوتی ہے ناں، پیدا ہوتے ہی گھر والے سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ جیسے جیسے بڑی ہوتی ہے گھر والوں کی پریشانی بھی زیادہ ہونے لگتی ہے۔ مت پوچھ لڑکی ذات کا بیٹا! عجیب ہی زندگی ہوتی ہے ان کی۔ اب سب سے بڑی میں تھی تو سب سے پہلے مجھے ہی قربان کیا گیا۔ میرے چاچے کا بیٹا تھا وہ، اور ڈرائیوری کرتا تھا۔ اس زمانے میں ڈرائیور ہونا بھی بہت کمال تھا! اس کی تو ٹور ہی الگ ہوتی تھی۔ وہ سمجھتا تھا بس وہی ہے انسان، باقی تو سب بس ایویں ہی ہیں۔ اس کا نام عبدالعزیز تھا، رشتہ آیا تو اماں نے فوراً ہی ہاں بھردی۔ بارہ سال عمر تھی میری اور میں آگئی اپنے چاچے کے گھر، چلو جی اماں کا بوجھ تو اترا۔ میں سسرال کیا آگئی، وہاں جیسے نوکرانی آگئی۔ بس کام ہی کام، خیر یہ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن ذرا ذرا سی بات پر میرا میاں مجھے پیٹنے لگا۔

کوئی بات بھی نہیں ہوتی اور وہ مارنے پیٹنے لگتا تھا، میں نے صبر کیا اور یہ سوچ کر سہتی رہی کہ بچے وچّے ہوجائیں گے تو ٹھیک ہوجائے گا، لیکن بگڑا ہوا انسان کبھی نہیں سدھرتا۔ زمانہ بیت گیا، میرے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوگئیں، وہ نہیں سدھرا۔ پہلے تو وہ مجھے مارتا تھا پھر وہ سب کو مارنے پیٹنے لگا۔ بچے اس کا نام سن کر کانپتے تھے، ایک دن رات کو وہ کچھ پی پا کے آگیا اور پھر وہی مار پیٹ، جس کی میں عادی ہوگئی تھی۔ بہت مار کھانے کے بعد میں نے پہلی دفعہ پوچھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟ مجھے تُو کیوں مارتا ہے، بس پھر کیا تھا۔ اس نے لوہے کی زنجیر اٹھائی اور پوری شدت سے مارنے لگا۔ میرا سر پھٹ گیا تھا، پورا جسم نیلونیل ہوگیا تھا، پھر اس نے مجھے دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیا، کچھ دیر تو میں نے سوچا، لیکن پھر میں نے کہا لعنت ہے۔ ایسی زندگی پر، اور چل پڑی۔

سر سے خون بہہ رہا تھا، دوپٹہ بھی نہیں، پاؤں میں چپل بھی نہیں، کچھ بھی تو نہیں، لیکن میں چل پڑی اور آج تک چلتی جارہی ہوں۔ قریب ہی ریلوے اسٹیشن تھا، میں وہاں پہنچ گئی، دیکھا تو ایک ریل گاڑی کھڑی تھی، سوچے سمجھے بغیر اس میں سوار ہوگئی، اس بات کو تو اب اٹھائیس سال گزر گئے ہیں، لیکن مجھے یہ بات ایسی لگتی ہے جیسے ابھی کی ہو۔ تو میں ریل گاڑی میں بیٹھ گئی، تھوڑی دیر میں ریل چل پڑی، ریل میں لوگ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ مجھ پر اک آدمی کی نظر پڑی تو اس نے پوچھا کہ ’’بہن تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ ‘‘میں نے کہا، ’’میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔‘‘ اس نے مجھے اپنی چادر دے دی اور پوچھا،’’کہاں جاؤ گی؟‘‘ مجھے تو کچھ معلوم نہیں تھا تو میں نے اس سے پوچھا،’’یہ گاڑی کہاں جارہی ہے؟‘‘ تو اس نے کہا ’’کراچی‘‘۔ میں نے کہا،’’ہاں مجھے کراچی ہی جانا ہے۔‘‘ سب نے میری خدمت بھی کی، کھانا بھی دیا اور اگلے دن کراچی آگیا۔ وہ آدمی مجھے جناح اسپتال چھوڑ کے چلا گیا۔

اس وقت جناح اسپتال میں اتنا رش نہیں ہوتا تھا، ڈاکٹر لوگ بھی بہت اچھے تھے تو انہوں نے مجھے داخل کرلیا۔ پورے مہینے میرا علاج کیا۔ دوا بھی دی، کھانا بھی اور پھر میں ٹھیک ہوگئی۔ اب کہاں جاؤں، میں نے باہر نکل کر سوچا، پھر عبداللہ شاہ غازی سرکار کے مزار پر آگئی۔ یہاں لنگر سے کھانا مل جاتا تھا تو کھا لیتی تھی اور رات کو یہیں قبرستان میں جاکر سو جاتی تھی، مجھے مزار پر آئے ہوئے تیسرا دن تھا، میں باہر بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک گاڑی آکر رکی۔ اس صاحب نے مجھ سے پوچھا ’’گھر میں کام کروگی؟‘‘ میں نے کہا،’’ہاں کروں گی‘‘ تو وہ مجھے یہیں قریب ایک بنگلے میں لے گئے اور میں وہاں ماسی بن گئی۔ گھر کا جھاڑو پونچھا، صاف صفائی، کپڑے دھونا، دن بھر کام کرتی اور رات میں آکر غازی سرکار کے مزار کے پاس قبرستان میں سوجاتی۔

اچھے برے تو ہر جگہ ہوتے ہیں، لوگوں نے بہت باتیں بھی بنائیں، لیکن میں نے کہا بھونکنے دو، مجھے کیا ہے۔ مجھے اس بنگلے کا پتا آج بھی یاد ہے، D-35 بلاک 14، اور وہاں رہتے تھے ضیا صاحب۔ لوگ کہتے ہیں وہ کمشنر صاحب تھے، اب مجھے نہیں پتا۔ بہت عرصے تک وہاں کام کیا۔ پھر وہ صاحب نے بنگلہ بیچ دیا تو میں بھی کام سے جاتی رہی۔ کچھ پیسے جمع ہوگئے تھے، ایک عورت تھی، یہیں ہوتی تھی وہ۔ اس نے کہا چلو ایران چلتے ہیں زیارتیں کرنے، تو میں نے سوچا نیک کام ہے ۔ میں اس کے ساتھ بلوچستان گئی۔ میں بہت گھومی پھری ہوں، پھر ایک ٹرالر جارہا تھا ایران تو اس سے بات کی، وہ ہمیں ایران لے گیا۔ جب ہم ایران کی سرحد پر پہنچے تو ٹرالر والے نے پہلے ہی کہا تھا کہ چھپ کر بیٹھنا، مجھے بہت برا لگا کہ ہم کیوں بیٹھیں چھپ کے۔ ہم نے کوئی چوری تو کی نہیں ہے اور نہ کرنے جارہے ہیں کہ چھپ کے جائیں۔

14

اس وقت تک میں یہ نہیں جانتی تھی کہ کسی اور ملک میں جانے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لینا ہوتا ہے۔ جیسے ہی ایرانی سرحد پر ٹرالر روکا گیا۔ میں اتر کر افسر صاحب کے پاس کھڑی ہوگئی، میرے ساتھ کی عورتوں نے بہت منع کیا، لیکن میں نہیں مانی۔ ٹرالر والے نے بھی مجھے بہت غصے سے دیکھا، پھر افسر صاحب نے مجھ سے کہا،’’پاسپورٹ دکھاؤ‘‘ میں نے کہا،’’وہ کیا ہوتا ہے، میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، میں تو زیارت کرنے جارہی ہوں۔‘‘ وہ بہت دیر تک مجھے دیکھتا رہا، بہت غصہ بھی ہوا، میں نے کہا،’’اگر میں نے غلط کام کیا ہے، تو جیل میں ڈال دو، یا میں واپس چلی جاتی ہوں، میں جھوٹ نہیں بولوں گی، وہ چپ ہوگیا اور پھر اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا، ’’خواہر‘‘، خواہر۔ بہن کو بولتے ہیں۔

یہ بھی مجھے بعد میں پتا چلا۔ پھر وہ اپنے دفتر میں گیا اور مجھے بیس ہزار روپے دیے۔ شربت بھی اور بہت سارے کھانے کے ڈبے، اور کہا تم زیارت کرنے جاؤ، لیکن میرے لیے ہر جگہ دعا ضرور کرنا۔ اگر انسان کی نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ ہم پہلے ’’نوبادی‘‘ گئے، وہاں سے ’’چاہ بہار‘‘ اور پھر ’’ بندرعباس‘‘ سے ہم لانچ میں بیٹھ کر ایک مزار پر گئے، بہت دن ہم وہاں رہے اور پھر زاہدان گئے۔ وہاں زیارتیں کیں اور پھر مشہد چلے گئے۔ وہاں سے ہم شام بھی گئے، بہت سکون ملا۔ ہمیں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ پھر کہیں بھی نہیں روکا۔

بہت عرصہ میں ایران میں رہی اب تو مجھے تھوڑی بہت فارسی بھی آتی ہے۔ میں پھر واپس پاکستان آگئی، مجھے سکون غازی صاحب سرکار پر ہی ملتا ہے، پھر اپنا وطن ہے یہ۔ کراچی پہنچی تو راستے میں بہت ٹھنڈ لگ گئی تھی، رات کو سوئی ہوئی تھی کہ فالج ہوگیا۔ بس اللہ سائیں کی ذات ہے کرم والی۔ قبرستان میں پڑی تھی تو ایک صاحب آگئے۔ انہوں نے علاج کرایا۔ اللہ نے کرم کیا میں ٹھیک ہوگئی، پھر کام تو کرنا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کام کروں۔

پہلے یہ کلفٹن بہت سنسان ہوا کرتا تھا، یہاں فلیٹ اور بنگلے بن رہے تھے، میں وہاں گئی اور ٹھیکے دار سے کام مانگا۔ اس نے کہا،’’عورت ذات یہ کام نہیں کرسکتی۔‘‘ میں نے کہا،’’میں کرلوں گی‘‘ تو اس نے کہا،’’یہ بلاک اٹھا کر تیسری منزل تک لے جانے ہیں۔‘‘ میں نے کام شروع کردیا۔ بہت تکلیف ہوئی، تھکن بھی ہوئی، لیکن میں بلاک اوپر چڑھاتی رہی، شام کو اس نے مجھے دیہاڑی دی، میں نے روٹی سالن لیا اور کھا کر سوگئی، صبح پھر کام پر گئی، بہت عرصے تک میں نے یہ کام کیا، آس پاس کے سارے لوگ مجھے جاننے لگے تھے، اب بھی جانتے ہیں۔

پھر ایک اور زبردست بات ہوگئی، اللہ نے بہت کرم کردیا۔ ایک دن میں بلاک اٹھاکر چڑھا رہی تھی، تو ایک صاحب اپنی کار میں بیٹھے مجھے دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت دیر تک کھڑے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’بہن! تم حج کروگی؟‘‘ میں نے حیران ہوکر کہا،’’دل تو بہت چاہتا ہے کہ سوہنے اللہ سائیں کا گھر دیکھوں، لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘ وہ ہنس کر کہنے لگا، ’’پیسے بھی اللہ دے گا۔‘‘ اس نے کہا ’’چھوڑو یہ کام، آؤ گاڑی میں بیٹھو، پتا نہیں کیوں میں اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی، وہ مجھے ایک دفتر لے گیا، راستے میں فوٹو بھی بنوایا، بہت سارے کاغذ بھی لکھے، اور پھر مجھے کہنے لگا، ’’آپ کو وہیں چھوڑ کے آتا ہوں، باقی کام جب ہو جائیں گے تو آپ کو بتا دوں گا۔‘‘

وہ مجھے واپس کام کی جگہ چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے بھی سوچا، چلو گاڑی میں بیٹھ کر شہر تو گھوم ہی آئی۔ تیسرے دن جب میں کام پر گئی تو وہ صاحب پہلے سے وہاں کھڑا تھا۔ میں نے سلام کیا تو اس نے کہا ’’مبارک ہو بہن! یہ تمہارا پاسپورٹ ہے اور یہ دیکھو، کپڑے اور احرام۔ بس کل صبح میں آؤں گا، تم تیار رہنا۔‘‘ میں تو حیران پریشان ہوگئی کہ یا اللہ یہ کیا ہورہا ہے؟ اس دن میرا کام میں من نہیں لگا۔ میں جلدی واپس آکر قبرستان میں لیٹ گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔ پھر میں سوگئی، مجھے بہت اچھا سپنا بھی آیا۔

فجر کی نماز کے بعد میں کام والی جگہ گئی تو وہ صاحب وہیں کھڑا تھا۔ وہ مجھے لے کر کیماڑی گیا اور مجھے سفینہ عرب بحری جہاز میں بٹھادیا۔ پیسے بھی دیئے اور دعا سلام کرکے چلا گیا۔ میں جہاز میں بیٹھی خوش ہورہی تھی اور رو بھی رہی تھی کہ سوہنے اللہ تُو تو بہت سوہنا ہے، تُو تو بہت ہی دیالو ہے، تُو تو بہت سخی داتا ہے، بس یہی سوچ رہی تھی، پھر جہاز چلنے لگا، جہاز سمندر میں بہت دور چلا گیا تھا کہ دیکھا وہ صاحب میرے پاس آگئے، میں اور حیران ہوئی تو اس نے کہا۔ آپ بالکل پریشان نہ ہوں، میں اس جہاز کا کپتان ہوں، وہ سفینۂ عرب جہاز کا کپتان تھا۔ اس نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا، بس وہ بولتا تھا میرے لیے دعا کرنا، میں تو آج بھی اس کے لیے دعا کرتی ہوں، پھر وہ دن بھی آیا جب وہ صاحب آئے اور کہنے لگے ہم مکہ پہنچنے والے ہیں، آپ اللہ کے گھر پہنچ رہی ہیں۔

میں بہت روئی، بہت روئی اور پھر سوچنے لگی۔ ربّ سائیں کسی کو بھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ اگر ایک در بند ہوجائے تو وہ ہزار در کھولتا ہے۔ میں وہ وقت نہیں بھول سکتی اور وہ خوشی بھی نہیں بتا سکتی جب میں نے پہلی دفعہ اللہ سائیں کا گھر دیکھا۔ میں رو رہی تھی اور مجھے کچھ یاد نہیں تھا۔ بس میں کہہ رہی تھی ’’سوہنے مالک! میں آگئی، دیکھ ، دیکھ میں آگئی ناں، سوہنے اللہ! میں آگئی ہوں، مجھے دیکھ، میں آگئی ہوں، لبیک، لبیک، لبیک! بس میں نے اب واپس نہیں جانا، نہیں جانا میں نے واپس، میں آگئی ہوں۔‘‘ میں نے حج کیا، پھر مدینہ پاک گئی، اپنے حضور سرکارؐ کے پاس، میں بتا ہی نہیں سکتی کہ میں کتنی خوش تھی اور حج پورا ہوگیا اور لوگ واپس جانے لگے تو میں ضد کرکے مکہ کی ایک سڑک پر بیٹھ گئی کہ میں نے نہیں جانا۔

میں مرجاؤں گی لیکن واپس نہیں جاؤں گی، تجھے چھوڑ کر نہیں جاؤں گی، مجھے بلایا ہی کیوں تھا جو واپس بھیج رہا ہے، میں نے نہیں جانا، ابھی میں ضد کیے بیٹھی تھی کہ ایک کار آکر رکی۔ اس میں ایک عورت بھی بیٹھی ہوئی تھی اس نے مجھ سے کہا،’’گھر کا کام کرلوگی‘‘ میں نے کہا ’’ہاں ضرور کروں گی‘‘ لو جی وہ مجھے اپنے گھر لے گئی اور میں وہاں کام کرنے لگی۔ پھر تو میں خوش ہی خوش تھی، میرا اللہ سائیں تھا وہاں اور میں تھی۔ میں دن میں کسی نہ کسی بہانے اللہ سائیں کو دیکھنے آ ہی جاتی تھی اور کہتی تھی، سوہنے سائیں! تُو سب سے اچھا ہے۔ مجھ جیسی کی بھی سنتا ہے۔ تُو بہت سخی ہے سائیں۔

میں تین سال تک سعودی عرب میں رہی، مجھے عربی بھی آتی ہے بیٹا! وہ تین سال زندگی کا خزانہ ہیں۔ لیکن انسان بہت بڑا بے وقوف ہے، بہت ہی بڑا پاگل ہے۔ مجھے پاکستان یاد آنے لگا، میں واپس آگئی، میرے پاس بہت سارے پیسے تھے، میں ملتان گئی کہ اپنے بچوں کا پتا کروں، ملتان پہنچی تو معلوم ہوا کہ میرا شوہر مرگیا ہے۔ میری ماں بھی ، میرا بڑا بیٹا بھی گم ہوگیا، ایک بچی بھی نہ جانے کہاں چلی گئی ہے، لیکن میں اپنے اللہ سائیں کی رضا پر راضی تھی۔ میں نے اپنے بچوں کی شادیاں کرائیں، کچھ عرصہ وہاں رہی، اپنے بہن بھائیوں سے ملی۔ میں خوش تھی کہ اپنا فرض بھی پورا کردیا۔ سب اپنے اپنے گھروں کے ہوگئے، میرا تو کوئی گھر تھا ہی نہیں۔ میں واپس کراچی آگئی۔

غازی سرکار کے دربار میں۔ واپس آکر میں نے پانی پلانا شروع کردیا۔ جب سے یہ کام کر رہی ہوں۔ یہ ڈرائیور لوگ اور راہ گیر پانی پیتے ہیں تو مجھے کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ اب مجھے پیسوں کی ضرورت بھی کیا ہے۔ کبھی کبھی بچے بھی آجاتے ہیں مجھ سے ملنے۔ اب تو بس زندگی گزر ہی گئی ہے۔ جتنی رہ گئی ہے لوگوں کی خدمت میں گزار دوں گی۔ تم بھی بہت پاگل سودائی ہو بیٹا! کیا ملا مجھ سے بات کرکے۔ اب تم پوچھ رہے ہو بارش ہوتی ہے تو کیا کرتی ہیں اور بیمار ہوجائیں تو کیا کرتی ہیں۔ پاگل بچے! مجھے تو تُو بھی کوئی ملنگ لگتا ہے۔ بارش ہوتی ہے تو یہ سامنے اسکول ہے وہاں سب مجھے جانتے ہیں، وہاں چلی جاتی ہوں، ابھی پچھلے دنوں مجھے ہرنیا ہوگیا تھا تو آپریشن کرالیا۔

اللہ اللہ خیر صلا، تُو کیوں پریشان ہورہا ہے۔ سوہنا اللہ سائیں ہے ناں میرے ساتھ۔ لوگوں نے بہت کچھ کہا، بہت عجیب عجیب سی باتیں کیں، وہ تو لوگ کرتے ہی ہیں، پر اللہ سائیں نے کرم کیا، ہر دم کرم۔ سب کا بیڑا پار لگاتا ہے وہ۔ دن میں سو روپے مل جاتے ہیں، بس بہت ہیں۔ مجھے کیا کرنا ہے پیسوں کا۔ بس اس دن بہت روئی جب غازی سرکار پر بدبختوں نے بم رکھا تھا، یہاں لوگ آتے ہیں تو تمہیں کیا کہتے ہیں۔ رب جانے اور اس کے بندے۔ سب کے کام تو اللہ سائیں کرتا ہے، بس دکھ ہوتا ہے، یہ ہمارا کراچی ایسا تھا نہیں، نظر لگ گئی ہے اسے کسی بدنظر کی۔ لیکن کرم ہوجائے گا، سب ٹھیک ہوجائے گا، میں خوش ہوں میں بہت مطمئن ہوں، تم بھی تو میرے بیٹے ہو، اتنی دیر میرے پاس بیٹھے، دکھ سکھ کی باتیں کیں تو یہ اللہ سائیں کی رحمت ہی تو ہے، سب سدا خوش رہیں، سب سدا آباد رہیں۔

بہت بوجھل دل لیے میں وہاں سے اُٹھ آیا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ کیسا رشتہ ہے، کیسا تعلق ہے اس اماں کا اللہ جی سے، مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کہوں۔ لیکن اب اور کچھ کہنے کی ضرورت بھی ہے کیا۔۔۔۔

تجھے ڈھونڈنے سے جو نہ مل سکا

مجھے اپنے دل میں وہ مل گیا

تجھے زاہد اس کا ملال کیا

یہ نظر نظر کی تلاش ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔