حسد کی آگ جلا دیتی ہے انسان کو

حسد ایسا زہر ہے جو حاسد کبھی کم اور کبھی زیادہ پیتا ہی رہتا ہے۔


مہوش کنول December 28, 2016
حسد انسان کا وہ حشر کردیتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب انسان اپنے ان جذبات کے ہاتھوں اپنی ہی زندگی تباہ کرلیتا ہے، اور اپنے قریبی رشتوں تک سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

حسد اور جلن جیسی کیفیات انسانی جذبات کا حصّہ ہوتی ہیں۔ بظاہر تو نظر نہیں آتیں لیکن اندر ہی اندر انسان کا وہ حشر کردیتی ہیں کہ ایک وقت آتا ہے جب انسان اپنے ان جذبات کے ہاتھوں اپنی ہی زندگی تباہ کرلیتا ہے، اور اپنے قریبی رشتوں تک سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ حسد ان نعمتوں پر ہوتی ہے جو انسان کے اپنے پاس نہ ہوں یا اپنے پاس موجود نعمتوں سے برتر ہوں، تو بس اِس موقع پر ایک خواہش دل میں جگہ پالیتی ہے کہ نہ صرف مجھے یہ نعمت مل جائے بلکہ وہ دوسرا شخص اس نعمت سے محروم ہوجائے۔

اس حسد کا دائرہ کار معمولی اشیاء سے لیکر خداداد صلاحیتوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مثلاً کچھ حاسد قسم کے افراد اپنے ہی دوستوں اور رشتہ داروں سے اُن کے بہترین پہناوے کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اُن سے اچھا لباس کوئی کیسے پہن سکتا ہے؟ یا اُن سے اچھا کوئی کیسے لگ سکتا ہے؟ جبکہ اس اچھا لگنے میں اللہ کی دی ہوئی شکل و صورت کا سب سے بڑھ کر عمل دخل ہوتا ہے، اور اُس بے چارے کا اختیار محض اپنی پسند کا لباس زیب تن کرنے کی حد تک ہوتا ہے۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہترین لباس اور تیاری سے جلنے اور جلانے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہی ہوتی ہے۔ خوبصورت لگنا اور سب سے منفرد لباس زیب تن کرنا ہر خاتون کی دکھتی رگ ہوتی ہے، اور جو کوئی غلطی سے بھی اِس دکھتی رگ کو چھیڑنے کا مرتکب ہو وہ اُن کی ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں آجاتا ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر محفل میں اُس کا خود سے موازنہ کرکے حسد کی آگ کو بڑھاوا دیتی رہتی ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں کہ یہ بیماری صرف خواتین میں پائی جاتی ہے، بلکہ مردوں میں بھی یہ بیماری کثرت سے پائی جاتی ہے، وہ اپنے ہی طبقے کے، ایک ہی تعلمی اداروں میں پڑھے ہوئے رشتہ دار یا کسی دوست کو کسی اچھے ادارے میں ملازمت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دل ہی دل میں جلن میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور جب پاس جانے اور بات کرنے پر عہدے کے بڑے ہونے کا علم ہوتا ہے تو یہ جلن حسد میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو میری ہی طرح کی ہی ڈگری لے کر پاس ہوا تھا اور اکثر مضامین میں تو مجھ سے بھی کم نمبر لے کر پاس ہوا تھا تو یہ کیسے اتنے اچھے عہدے پر فائز ہوسکتا ہے؟ ضرور کوئی سفارش یا کسی بڑے عہدے پر بیٹھے ہوئے بااثر شخص کا ہاتھ اِس کے پیچھے ہوگا ورنہ یہ اور اتنی ترقی کرلے، یہ نہ ممکن ہے۔

اِن سب عوامل کے باوجود اِس بیچارے نے بھلے کتنی ہی محنت کی ہو، کتنے ہی پاپڑ بیلے ہوں لیکن حاسد افراد کی نظر میں وہ صرف ایک پرچی کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے، اور اُس کی کامیابی کو بس کسی بڑے افسر کی نوازشات ہی سمجھا جاتا ہے۔ اِس حسد اور جلن میں مزید اضافہ اُس وقت ہوجاتا ہے جب اُس شخص کے پاس اچھے عہدے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کی بہترین سہولیات بھی موجود ہوں تو حاسدوں کو لگتا ہے کہ اُس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ اِس طرح کے منفی احساسات میں گِھر کر حاسد انسان دوسرے کی خوشی میں خود کو غمگین اور پریشان ہی پاتا ہے جو اسکی سزا بھی ہے۔

یہی سوچیں جب وقت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں تو حسد کی جگہ نفرت بڑی آسانی سے لے لیتی ہے اور پھر حاسد اپنی محرومیوں کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر کسی اپنے کا ہی بُرا سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اُس کی اچھی باتوں میں بھی برائی کا پہلو اپنے آپ تلاش کرلیتا ہے اور اُس کی کسی بھی کامیابی پر خوش ہونے کے بجائے دل ہی دل میں اُس کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی بدعائیں کرنے لگتا ہے۔ بقول شاعر،
حسد کی آگ ہر انسان کو جلا دیتی ہے
یہ نفرت کے شعلوں کو اور ہوا دیتی ہے

دفتر میں ترقی مل جانا ہر کسی کا خواب ہوتا ہے لیکن یہ بھی ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتی۔ اِس میں کچھ اُن ترقی پانے والے افراد کا عمل دخل ہوتا ہے اور کچھ کے ساتھ افسران کی مہربانیاں، وہ مہربانیاں جس کے حصے میں آتی ہیں وہ تو خوب دل بھر کر خوش ہوتا ہی ہے لیکن جسے یہ سب نہیں ملتا اسے ایک عدد حسد کا محکمہ ضرور مل جاتا ہے، اور یہ حسد کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جس میں وہ دوسروں کی خوشیوں کو جلانے کا حامی بن جاتا ہے۔ اس حسد میں آکر وہ اُس کامیاب شخص کے کام میں بگاڑ پیدا کرنے سے بھی نہیں چوکتا، اور جب جہاں موقع ملتا ہے اُسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

اچھی نوکری، اچھا گھر اور بہترین سہولیات کس انسان کو پسند نہیں ہوتیں اور آج کل تو بعض لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھی کرکے وہ اپنی ان خواہشات کو حاصل کرلیں، اور جب وہ کسی طرح کے حسد میں مبتلا ہوجائیں تو سوچ کا عالم یہ ہوتا ہے کہ چاہے کوئی شارٹ کٹ ہی کیوں نہ اپنانا پڑے لیکن اگلے سال تک اس سے بڑی گاڑی، اس سے اچھا بنگلہ میرا ہوگا۔ یقین کیجئے کوئی بھی شارٹ کٹ اپناکر آپ وہ کامیابی پا تو لیں گے لیکن ایسی کامیابی پر نہ آپ مطمئن ہوں گے اور نہ آپ کا ضمیر۔

اکثر یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایک ہی خبر بہت سے لوگوں کے لئے مختلف طرح کی اہمیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو یہ پتہ چلے کہ اس کا فلاں دوست کسی لڑکے کو یا فلاں سہیلی کسی لڑکے کو پسند کرتی تھی اور گھر والوں نے اُن کی شادی کی منظوری دے دی ہے تو کچھ لوگ مبارکباد دیتے ہیں اور اچھی زندگی کی دعائیں بھی، اور کچھ کے تاثرات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خوشخبری سنانے والا شش و پنج میں پڑجائے کہ آخر ایسا بھی کیا ہوا جو اسے میری خوشی میں ذرا خوشی نہیں ہوئی اور مبارکباد دینے کے بجائے ایسا منہ بنائے کھڑا ہے جیسے میں اس کا کچھ لے کر بھاگ گیا ہوں۔

آج کل تو حسد کا حال یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بندے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جیسے کہ اس کا موبائل میرے موبائل سے اچھا کیسے ہے؟ اس نے وہ کام مجھ سے اچھا کیسے کرلیا؟ کسی دوسرے کا بچہ کسی نصابی یا غیر نصابی سرگرمی میں کامیابی حاصل کرلے تو اس پر بھی حسد، کسی کے سامنے کسی اور کی تعریف ہو تو اس پر حسد، اپنے من پسند انسان کو کسی اور سے مخاطب دیکھ کر اس فرد سے حسد، غرض کہ حسد کا زہر ایک حاسد شخص کبھی کم اور کبھی زیادہ پیتا ہی رہتا ہے۔
جلانے کے لئے ہستی کو اپنی
حسد کی ایک چنگاری بہت ہے

حاسد کی خواہش تو دوسرے اور اس کی خوشی کو ختم کرنے کی ہوتی ہے لیکن وہ نامعلوم انداز میں اپنے آپ کو ہی ختم کررہا ہوتا ہے، اور یہی اُس کی سب سے بڑی بے خبری ہوتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں