پروٹوکول، علاج ضروری

فرح ناز  ہفتہ 25 مارچ 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

وی آئی پی کلچر ہم سب کے لیے عذاب سے کم نہیں اور مزید عذاب بنتا جا رہا ہے، بجائے اس کے کہ ہم سب لوگ اس کو رد کریں، اس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور اس پروٹوکول کے چکر میں لوگ عجیب عجیب احمقوں والی حرکتیں بھی کرنے لگے ہیں۔ بڑے بڑے پروٹوکول عام لوگوں کی جان بھی لے چکے ہیں۔ بچوں سے لے کر بوڑھے تمام اس کا شکار ہو چکے ہیں، پر سانوں کی! والا محاورہ اس پر فٹ ہوچکا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس خراب، بیہودہ کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اس میں دن بہ دن ترقی ہو رہی ہے۔

کہنے کو ہم غریب ملک ہیں بنیادی سہولتوں کا رونا ہے، بھوک ہے، افلاس ہے، غربت ہے، اس کے باوجود لاکھوں روپے اس پر خرچ کردیے جاتے ہیں اور ہو رہے ہیں اگر اس رقم کو فلاح و بہبود کی اسکیمیں بناکر ان پر خرچ کیا جائے تو اس سڑے ہوئے کلچر کا بھی خاتمہ ہوگا اور عوام کی بھی بھلائی ہو گی پوری دنیا میں کہیں بھی آپ چلے جائیں، کہیں ایسی جاہلانہ چیزیں نہیں ملیں گی جیسی کہ ہمارے پاس ہیں،بچہ پیدا ہونے کی تقریب سے لے کر مردے کے دفنانے کی تقریب تک۔ابھی ایک جنازے میں جانا ہوا، well گھرانہ، ایدھی سے کفن دفن ہوکر جنازہ گھر پر لایا گیا، جنازہ اندر ہال میں رکھا گیا اور باہر لان میں درجنوں ویٹر لنچ لگانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ سلاد کی اقسام سے لے کر بریانی، قورمہ، گرم روٹی کے لیے تندور، دکھاوے کی حد دیکھئے کہ لوگوں کو مرنیوالے کی اتنی فکر نہیں جتنی menu کی فکر تھی۔ بچوں کی پیدائش کے لیے یا تو باہر جایا جائے یا پھر The Best ڈھونڈا جائے، ہیں ہم اس رسولؐ کے پیچھے چلنے والے جو اپنے پیوند بھی خود لگاتے تھے، جو اپنی جوتیاں بھی خود سیتے تھے، گھر میں ہے تو کھا لیا، نہیں ہے تو اللہ کا شکر ادا کیا۔

اس قوم کا یہ حال ہے کہ وہ کردار سے زیادہ لوگوں کو ان کے کپڑوں سے ان کی گاڑیوں سے، ان کے گھروں سے زیادہ جج کرتے ہیں۔ اور اسی لیے دھوکے بے حساب، فراڈ بے حساب۔ پہلے زمانے میں شادیوں کے لیے اچھے رشتوں کے خاندان دیکھے جاتے تھے، دادا، پردادا اور دیگر رشتے داروں کے بارے میں معلومات کی جاتی تھی، تب کہیں جا کر رشتے ہوتے تھے۔ اب سب کچھ بدل گیا اور ایسے بدلا کہ نہ ہم اپنے رہے اور نہ دوسروں کے ۔ دکھاوے اور پروٹوکول بے وجہ ہمارے اندر گھس کر بیٹھ گیا ہے۔ اور ہم دن بہ دن اس کے بوجھ سے دب رہے ہیں۔ نہ قطاروں میں کھڑے رہنے کی عادت نہ میرٹ پر قابلیتوں کی جانچ، نہ صفائی کی عادتیں، گندگی کی فراوانی اور صفائی کا فقدان۔

سگنلز پر جب چند لمحوں کے لیے گاڑی رکتی ہے تو اس میں بھی موقع کا فائدہ اٹھاکر لوگ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہیں اور پان کی پیک سے سڑکوں کو سرفراز کرتے ہیں، خالی ریپرز، خالی پانی کی بوتلیں تک سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہیں، ہاں اگر اسی سڑک سے کسی وی آئی پی کا گزر ہو تو یہی سڑکیں سفید چونے سے رنگ دی جاتی ہیں، ہرے بھرے پودوں سے ان کو سجا دیا جاتا ہے اور بیکار، فضول عوام کو کئی کوس پہلے روک دیا جاتا ہے اور ایسا پروٹوکول ہوتا ہے جس میں گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں۔ نہ کسی کے وقت کی پروا اور نہ کسی کی ضرورتوں کا خیال۔ آخر کب تک یہ مصنوعی زندگی ہماری زندگیوں کو متاثر کرتی رہے گی؟ اور آخر کب تک خوامخوا ہم وی آئی پی بنے رہیں گے؟ جب یقین کامل ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے تو پھر بے وجہ گردنوں میں سریے کیوں لگے؟ابھی یہ تازہ رپورٹ ہے کہ ایس ایس پی اسلم چوہدری جوکہ بم بلاسٹ میں جاں بحق ہوئے، کہا یہ جا رہا ہے کہ ان کا اپنا ہی خاص آدمی اس میں ملوث تھا، بلٹ پروف گاڑی، سیکیورٹی گارڈ کی ریل پیل، سخت چیکنگ، نتیجہ زیرو۔

اس پروٹوکول میں کئی لاکھوں، کروڑوں روپے صرف ہو رہے ہیں جس کی شاید اتنی ضرورت نہیں ہے، یہی روپے اگر تعلیم کے شعبے میں خرچ ہوں، اسپتالوں میں خرچ ہوں تو ہم کہاں سے کہاں جائیں۔ وہ لوگ جو صاحب حیثیت ہیں اور سکیورٹی گارڈز کی مد میں کچھ ضرورتاً اور کچھ دکھاوے کے لیے ایک لمبی لائن لگانے پر ترجیح دیتے ہیں وہ بھی اگر اس کلچر کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں تو یقینا مثبت اثر ہو گا، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لیے ایک مثبت قانون پاس کیا جائے اور اس پروٹوکول جیسے عفریت سے آزاد کرایا جائے، دکھاوے، بڑے بڑے بول، یہ سب ہم اور ہمارا معاشرہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ غریب غریب تر اور امیر امیر ترین ہوجائے گا تو معاشرے میں Balance برقرار نہیں رہے گا۔ پاکستان ایک فلاحی ریاست کے طور پر ابھرا تھا، اس کی جغرافیائی حیثیت بہت اہم ہے اور اس اہم ترین ملک کو کسی ایسے دکھاوے اور فضولیات سے پاک کرنا حکومت کی شدید ذمے داری ہے۔

قوانین کی پاسداری اور اس کا نفاذ بھی بہت اہم ہے، ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ہم جس ملک میں رہتے ہیں اور جو اللہ پاک نے ہمیں نعمتوں سے نوازا ہے وہی ہمارے لیے بہترین سبب ہے۔ خوامخواہ کا پروٹوکول جیسا مرض لاحق کرنے سے نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ گورنمنٹ سے لے کر عام اداروں تک، سب فضول شوق میں مبتلا ہیں، جہاں ضرورت ہو وہاں اس کا استعمال کیا جائے، جن عہدوں کو پروٹوکول کی ضرورت ہے، وہاں ان کو دیا جائے مگر 20,20 گاڑیوں کا پروٹوکول، راستے لاتعداد گھنٹوں کے لیے بند، اسکول، اسپتال پہنچنا ناممکن، یہ یقینا زیادتی کی بات ہے۔ آپ اور ہم مل کر ہی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں ایک خوبصورت سادہ زندگی کا نعم البدل کوئی نہیں ہے۔

دسترخوانوں پر 50 ڈشز کا موجود ہونا دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک شخص دو روٹیوں سے زیادہ نہیں کھا سکتا اور بڑی عمر کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں میں بھی سب کچھ نہیں کھایا جا سکتا ہے۔ بڑے لوگ جب اس طرح کے فوٹو سیشن کرواتے ہیں تو دوسرے لوگ خوامخواہ ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ برائی کا اعلان کرنا بھی ایک برائی ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ہم سادہ زندگی کے لائف اسٹائل کو پروموٹ کریں۔

زندگی کے ہر شعبے میں دکھاوے کو بڑھاوا نہ دیں، ہمارے کردار اتنے زبردست ہوں کہ ہمیں مہنگے کپڑوں کی ضرورت نہ پڑے۔ شخصیت اتنی مضبوط ہو کہ آپ کا طرز زندگی ہی ایک پہچان ہو، علم کی فراوانی ہو بجائے جہالت کی فراوانی کے۔ غربت اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بنیے، لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، عملی طور پر ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ غیر ضروری پروٹوکول وبال جان ہے۔ اس سے جان چھڑائی جائے، عوام کے لیے آسانیاں ہوں، سہولتیں ہوں تو گورنمنٹ کو اور اعلیٰ شخصیات کو کسی پروٹوکول کی ضرورت نہ ہوگی کہ عوام کی طرف سے پیار اور عزت ہی بہت کافی ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔