تھر:عشق کی ہر دَم نئی بہار (تیسری قسط)

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 20 جنوری 2013
’’لاکھوں روپے پھینک دیں، تھری وہ اٹھاکر آپ کو ڈھونڈنا شروع کردے گا اور امانت لوٹاکر ہی رہے گا‘‘   فوٹو : فائل

’’لاکھوں روپے پھینک دیں، تھری وہ اٹھاکر آپ کو ڈھونڈنا شروع کردے گا اور امانت لوٹاکر ہی رہے گا‘‘ فوٹو : فائل

اُس گائوں میں پہنچتے ہی مجھے معصوم بچوں نے گھیر لیا۔’’چاچا آپ کب آئے؟‘‘، ’’ابھی تو آیا ہوں۔

تم دیکھ نہیں رہے، وہ سامنے کھڑی ہے گاڑی۔‘‘ ’’ہاں ہاں اتنی اچھی گاڑی میں آئے ہیں آپ‘ ہمارے لیے کیا لائے؟‘‘ ’’اوہو! کچھ بھی نہیں، بہت بڑی غلطی ہوگئی۔‘‘ ’’کیا آپ ہمارے لیے کھٹ مٹھا بھی نہیں لائے۔‘‘ وہ ٹافیوں کا پوچھ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کیا غلطی کر بیٹھا… غلطی کیا کوتاہی، غفلت، اور جتنے بھی ایسے الفاظ ہوں ۔ ہم اپنے بچوں کا تو بہت خیال رکھتے ہیں… یہاں کے بچوں کو آئس کریم چاہیے، برگر چاہیے، پیزا چاہیے، آئس لولی چاہیے، نہ جانے کیا کچھ چاہیے… اور یہ بچے جنہیں ان چیزوں کے نام بھی نہیں معلوم کہ یہ کیا بلا ہیں۔

میں سر جھکائے کھڑا تھا۔ اتنا بے دست و پا میں کبھی نہیں رہا۔ اب کیا کروں؟ میں سوچنے لگا کہ ایک چھوٹے سے بچے نے یہ مسئلہ حل کردیا:’’چلو چاچا! کوئی بات نہیں، ہماری خرچی نکالو۔‘‘، ’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ دیکھیے کتنا اپنا پن ہے ان میں۔ ہم تو صرف اشتہار میں اپنا پن ڈھونڈتے ہیں۔ اگر آپ کسی بچے کو دو روپے کا سکہ دیں تو وہ خوش ہوگا۔ پانچ کا سکہ دیں تو ناچنے لگے گا اور اگر آپ نے دس روپے دے دیے تو وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ اب اس کا کیا کروں؟

مجھے وہ بات اب بھی یاد ہے، جب ایک بچے کو میں نے سو روپے دیے تھے اور وہ حیران پریشان کھڑا تھا کہ اُس کی ماں کی آواز آئی،’’بھائی جی ! یہ کیا کررہے ہیں؟ اتنے سارے پیسوں کا یہ کیا کرے گا؟ اتنے پیسے تو ہمارے پاس بھی نہیں ہیں، بس اسے دو روپے دے دیں۔‘‘ میں اسے کیا کہوں‘ آپ بتائیں؟

تھر میں دکان داری بس اﷲ توکل ہوتی ہے۔ سارا کام ادھار پر ہوتا ہے… کپڑا، اشیائے خورونوش، دوا دارو سب کچھ… جب فصل آئے گی تب پیسے ادا کیے جائیں گے۔ میں نے ایک دکان دار سے پوچھا ’’کیسے چلتا ہے کاروبار؟‘‘ ’’بس سائیں ایسے ہی چلتا ہے۔‘‘ ’’قحط کے زمانے میں کیا ہوتا ہے؟‘‘ ’’کچھ نہیں ایسے ہی چلتا ہے۔‘‘ ’’کیا واپسی کی ضمانت بھی ہے؟‘‘ ’’کوئی ضمانت نہیں سائیں، بہت ایمان دار لوگ ہیں، جیسے ہی پیسے آئے سب سے پہلے قرض اتارتے ہیں۔‘‘ سارا لین دین اعتماد کی بنیاد پر ہے… کوئی لڑائی جھگڑا نہیں… کوئی تلخی نہیں… کوئی مسئلہ نہیں۔ تھری، شاہ لطیف کے اِس ارشاد کی عملی تصویر ہیں، شاہ سائیں نے کہا ہے: اپنی کشتی سے ناقص چیزوں کو نکال دے۔ جھوٹ کا کاروبار نہ کر اے سوداگر! سچ کے لین دین میں ہی برکت ہے۔‘‘

واہ کیا بات ہے تھر کی۔ ہاں تھر، تھر ہے جناب! زندگی کے سرد و گرم کا اتنی بہادری، اتنی جواں مردی سے مقابلہ کوئی اُن سے سیکھے۔ شاہ سائیں لطیف بھٹائی نے بالکل صحیح کہا ہے ؎

تن پہ کپڑا نہیں تو کیا غم ہے
مقصدِ جسم و جاں سمجھتے ہیں
یہ بیاباں نورد، تھر والے
تھر کو جنت نشاں سمجھتے ہیں

تھریوں نے… خوب صورت تھریوں نے اپنی زمین کو جنت بنایا ہوا ہے۔ شاہ سائیں آپ بالکل صحیح کہتے ہیں، وہ تھر ہی کو جنت سمجھتے ہیں۔ اپنی مٹی سے محبت، اپنے لوگوں سے پیار… کتنی گہری جڑیں ہیں اُن کی… اور ہم شہریوں کی……!!

ایک معصوم دیہاتی سے میں نے پوچھا، ’’تمہیں تھر میں سب سے زیادہ خوب صورت کیا لگتا ہے؟‘‘ وہ سوچ میں پڑگیا… ’’سائیں سب کچھ خوب صورت ہے، اپنی اپنی جگہ سب بہت اچھا ہے۔ پر سائیں ہمارے تھر کی خوب صورتی مور ہیں… ہاں مور… ہم انہیں اپنے بچوں سے زیادہ چاہتے ہیں… آپ دیکھ نہیں رہے کیسے گھوم پھر رہے ہیں۔ اِدھر اُدھر… کوئی انہیں پریشان نہیں کرتا۔ سب ان کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا،’’مجھے دو مور چاہییں… کتنے کے مل جائیں گے؟‘‘ ’’سائیں پیسوں کو گولی مارو، ویسے ہی مل جائیں گے۔ پر سائیں یہ تو شہر میں نہیں رہ سکتے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں؟ شہر میں کیوں نہیں رہ سکتے؟‘‘ ’’سائیں! یہ تو وہاں شور ہی سے مرجائیں گے۔ میں تو بہت حیران ہوں کہ آپ شہر میں کیسے رہ جاتے ہیں۔ اتنا شور، اتنا دھواں… یہاں دیکھیے کتنا سکون ہے، کتنی شانتی ہے، کتنا امن ہے… سائیں معاف کرنا، شہر میں تو بہت مارا ماری ہے۔‘‘ ہاں وہ بالکل درست بات کہہ رہا تھا۔ سو فی صد صحیح بات… ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں، ہمیں بہت کام ہیں‘ ہم کتنے جھمیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، اسے کیا پتا۔ آسائشوں کے لیے کیا کچھ کھونا پڑتا ہے… خود کو بھی کھونا پڑتا ہے جناب… ویسے آپ ہی بتائیے ہم خسارے میں نہیں رہے؟
وارث شاہ نے کہا تھا ؎

سچ بولیں تو دیس نکالا، پنچ ہیں ٹھگ اور چور یہاں
بات شریفوں کی نہ مانیں، چودھری سب لنڈور یہاں

سڑک کا خاصا بڑا حصہ بارش کی وجہ سے بہہ گیا تھا اور مزدور خواتین، مرد اور بچے اپنے سروں پر پتھر سے بھری ٹوکریاں رکھے کام میں مصروف تھے۔ گاڑی بہت آہستگی سے چل رہی تھی۔ آس پاس کے مزدور ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔ ایک چھوٹے سے بچے نے ہمیں روک کر پوچھا،’’سائیں پانی پلائوں آپ کو؟‘‘

’’نہیں بیٹا جیتے رہو۔‘‘

اُس کے پاس پانی ہی تھا۔ ’’سائیں! بس تھوڑی سی تکلیف اور ہے، جلد ہی سڑک دوبارہ بن جائے گی، پھر آپ کو تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘
’’لیکن تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’سائیں! اپنی ماں کے ساتھ آیا ہوں، وہ دیکھو سڑک پر کام کررہی ہے وہ… جب اسے پیاس لگتی ہے تو میں اسے پانی پلاتا ہوں اور شام کو اس کے ساتھ گھر چلا جاتا ہوں بس۔‘‘
اتنی سی عمر میں اسے اپنی ماں کا کتنا خیال ہے۔ میں نے اسے گلے لگا کر اس کا ماتھا چوما اور رخصت ہوگیا۔

ننگرپارکر کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ ہم جانو ڈھاٹی کو تو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔

ہم نے ایک دوسرے کو خوب کوسا، لیکن اب واپسی ممکن نہ تھی۔ بے چارہ جانو کیا سوچ رہا ہوگا۔ تھر میں لوگ ایک دوسرے کو مختصر ناموں سے پکارتے ہیں۔ ہاں اس میں ایک اپنائیت بھی ہوتی ہے۔ جیسے جانُو کا اصل نام جان محمد ہے۔ ہمارے دین محمد کو ہم دینو یا دینا کہتے ہیں، مہندردیو کو مہندرا، لچھمن داس کو لاشو۔ پھر لاڈپیار کے نام الگ ہیں۔ القابات کے ساتھ پورا نام بزرگوں کا لیا جاتا ہے… یا پھر لوگ اپنے رشتے خود بنالیتے ہیں۔ چاچا، ماما تو عام سی بات ہے۔ ہر گائوں میں دو چار بزرگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں بلامبالغہ سیکڑوں لطیفے اور شعر ازبر ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی بات کا برا نہیں مناتا، بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ چھوٹے خود انہیں مجبور کردیتے ہیں کہ وہ انہیں ڈانٹ سکیں، کچھ کہیں، چاہے گالیاں ہی دیں۔ آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں، وہاں بزرگ پیار میں گالیاں بھی دیتے ہیں، لیکن کوئی ان سے بدمزہ نہیں ہوتا۔ ان کی گالیوں میں بھی پیار، محبت، اپنائیت، خلوص، مٹھاس اور شیرینی ہوتی ہے۔ آپ پریشان ہوگئے ناں۔ آپ کو اس کا تجربہ نہیں ہے اس لیے۔ میں کیا کرسکتا ہوں؟ ایسا ہی ہے۔ میرا ایک دوست کہا کرتا تھا،’’یار کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گالیاں بھی دیں تو اچھے لگتے ہیں، پیارے لگتے ہیں، جی چاہتا ہے ان کا منہ چوم لیں، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دعائیں بھی دیں تو غصہ آنے لگتا ہے۔ بس یہ تعلق کا معاملہ ہے۔ اس پر کیا بات کریں؟‘‘ ہوسکتا ہے آپ کا تجربہ مختلف ہو… ایسا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک یک ساں تجربے سے گزرے۔ بہرحال میرا تجربہ تو ایسا ہی ہے۔ تھر میں بھی مجھے یہی تجربہ ہوا۔

خوش آمدید ننگرپارکر ’’بھلی کری آیا‘‘ نے ہمارا استقبال کیا۔ رینجرز کی چیک پوسٹ پر اندراج کراکے ہم ننگرپارکر میں داخل ہوئے۔ آپ کو وہاں رینجرز کی چیک پوسٹیں بکثرت ملیں گی۔ اس لیے کہ یہ سرحدی علاقہ ہے۔ لیکن بس آپ کو اندراج کرانا ہوگا۔ جاتے ہوئے بھی اور آتے ہوئے بھی۔ ہماری گاڑی ننگرپارکر پولیس اسٹیشن میں داخل ہوئی اور اشوک نے ہمارا مسکرا کر استقبال کیا۔ اشوک اسسٹنٹ سب انسپکٹر ہے۔ مجھے وہ بہت شرمیلا سا لگا۔ وہ کہیں سے بھی پولیس والا نہیں لگ رہا تھا۔ اگر وہ وردی میں نہ ہوتا تو اسے پہچاننا خاصا مشکل کام تھا۔ بہت بھولا بھالاسا نوجوان۔ میرا اس سے تعارف کرایا گیا تو وہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگیا۔ دراصل ہم ملنے تو انسپکٹر صاحب سے گئے تھے، لیکن وہ ایک اہم میٹنگ کے سلسلے میں مِٹھی چلے گئے۔ بعد میں ان کا فون آیا بھی کہ میرا انتظار کرنا۔ اب اشوک پر دوہری ذمے داری آپڑی تھی۔ بالآخر مجھے ہی پہل کرنا پڑی:

’’اشوک کتنے عرصے سے پولیس میں ہو؟‘‘
’’ سر ہوگئے پانچ سال۔‘‘
’’ہو کہاں کے؟‘‘
’’سر اسی علاقے کا ہوں۔‘‘
اچھا پھر تو تمہارے مزے ہوگئے۔‘‘
’’ہاں سر۔‘‘
’’یار یہ بتائو کرائم ریٹ کیا ہے؟‘‘
’’سر کچھ نہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟ کوئی لڑائی جھگڑا، چوری چکاری، قتل، ڈکیتی کچھ تو ہوتا ہوگا۔‘‘
’’سر سچ بتائوں‘‘
’’ہاں بالکل سچ سچ بتانا۔‘‘
’’بس کبھی کبھی لڑائی جھگڑا ہوجاتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
’’اور لڑائی جھگڑا کس بات پر ہوتا ہے؟‘‘
’’جیسے سر آج کل بارش ہورہی ہے، زمین کی حد بندی پر تنازعہ ہوجاتا ہے۔‘‘
’’پھر تم کیا کرتے ہو؟‘‘
’’بس سر کچھ نہیں، موقع پر جاتے ہیں، پٹواری کو بلاکر حد معلوم کی
اور دونوں کو سمجھادیا، چائے پی، کھانا کھایا اور واپسی۔‘‘
’’یار پھر تم نکمے بیٹھے ہو۔‘‘
وہ زور سے ہنسا، ’’ہاں سر ایسا ہی سمجھو۔‘‘
اس نے چائے منگوائی اور کھانا کھلانے پر اصرار کرنے لگا،’’نہیں اشوک، صرف چائے۔‘‘
’’کیوں سر، آپ مہمان ہو۔‘‘
’’پھر سہی‘‘ میں نے کہا۔ چائے پینے کے بعد اشوک نے ہمارا
پروگرام پوچھا، ’’بس اشوک گاڑی یہاں کھڑی ہے ہم پیدل گھومنا چاہیں گے۔‘‘
’’لیکن سر کہاں؟‘‘
’’بس اِدھر ہی۔،،
’’سر آپ کے ساتھ گارڈ بھیجتا ہوں۔‘‘
’’نہیں بالکل بھی نہیں۔ کس لیے گارڈ بھیج رہے ہو!‘‘
’’سر راستے کے لیے۔‘‘
’’نہیں مجھے کسی گارڈ کی ضرورت نہیں ہے اور پھر یہاں پر…‘‘
مجھے یاد آیا، عمر کوٹ کے ایک انسپکٹر سے میری بات ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’یہ بتائو تھر کے لوگ کیسے ہیں؟‘‘
’’سر ہیرا ہیں ہیرا۔ آپ خود دیکھ لو۔‘‘
مجھے یاد ہے بہت اچھی طرح سے، اس نے یہ بھی کہا تھا، ’’سر آپ کسی بھی دیہات میں چلے جائیے اور لاکھوں روپے کہیں پر پھینک کر دور کہیں چلے جائیے، کوئی بھی تھری وہ پیسے اٹھاکر آپ کو ڈھونڈنا شروع کردے گا۔ چاہے آپ دو ماہ بعد آئیں وہ امانت آپ کو لوٹا کررہے گا، چاہے اس کی جیب میں ایک روپیہ بھی نہ ہو۔‘‘
سچ بتائوں، اُس وقت مجھے بالکل بھی یقین نہیں آیا تھا۔ اب میں یہ سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ (جاری ہے)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔