جامعات کی بدعنوانیاں

رمضان رفیق  جمعرات 15 جون 2017
طاقت اور دھونس کے استعمال سے وائس چانسلر کی سیٹ پر بیٹھے رہنا ایک قبیح عمل ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ جامعہ پنجاب ہو یا جامعہ زرعیہ فیصل آباد یا کوئی بھی اور ادارہ، اِس فعل کی مذمت کی جانی چاہیے۔

طاقت اور دھونس کے استعمال سے وائس چانسلر کی سیٹ پر بیٹھے رہنا ایک قبیح عمل ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ جامعہ پنجاب ہو یا جامعہ زرعیہ فیصل آباد یا کوئی بھی اور ادارہ، اِس فعل کی مذمت کی جانی چاہیے۔

آج کل جامعہ زرعی فیصل آباد کے چار طالب علموں کو سوشل میڈیا پر کمنٹ کرنے کے جرم میں یونیورسٹی سے نکالے جانے کی خبریں سبھی اخبارات پر سجی ہوئی ہیں۔ اِن نکالے جانے والے طالب علموں میں سے ایک میرے فیس بک پر دوست بھی ہیں، میں نے اُن سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایسے کیا کمنٹس کئے تھے جن کی وجہ سے وہ اِس حد تک قابل گرفت قرار دئیے گئے کہ اُن کے جامعہ کے مین کیمپس، سب کیمپس اور ہاسٹلز میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی۔

طالب علم نے بتایا کہ فیس بک پر ایک پیج ’روزنامہ یو اے ایف‘ کے نام سے ہے، جہاں کسی نے پوسٹ کے ذریعے سوال کیا کہ

اولڈ سینٹ ہال میں کوئی پروگرام ہوا ہے؟

جس پر انہوں لکھا کہ

یہ پروگرام تو اِس دن نہیں ہوا جس دن کی آپ بات کر رہے ہیں۔

انتظامیہ کیونکہ اِس فیس بک پیج سے نالاں ہے اِس لئے اُن کا موقف ہے کہ طالب علم نے اِس بک پیج پر کمنٹ کیا ہی کیوں؟ اور طالب علم کے کمنٹ کے انداز سے لگ رہا ہے کہ اِس کی ایڈمن سے بے تکلفی ہے۔ الزام اتنا گھٹیا اور کھوکھلا ہے کہ اِس پر بات کرتے ہوئے بھی ابکائی آتی ہے۔

معلوم کرنے پر معلوم ہوا کہ اصل کہانی تو روزنامہ یو اے ایف نامی فیس بک پیج اور انتظامیہ کی آپس کی کی چپقلش کی ہے۔ ایک نظر اِس پیچ پر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اِس صفحہ پر یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلیوں کی بات کی گئی ہے۔ اخبارات کے تراشے جن میں وائس چانسلر کی کرپشن کے بارے بات کی جارہی تھی اُن کو پوسٹ کیا گیا ہے۔ ایک خبر تو مجھے بھی بڑی دلچسپ لگی کہ

محترم وائس چانسلر نے یونیورسٹی انتظامیہ کے تحت چلنے والے ادارے کا سربراہ خود کو ہی مقرر کرلیا ہے جس کی مراعات کی ایک لمبی تفصل ہے۔

اس پیچ پر جن دیگر مسائل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، اُن میں ایک یونیورسٹی سے پرانے درختوں کا کاٹے جانا، کسی صاحبِ اقتدار کی بیٹی کو بغیر میرٹ سرکاری رہائش گاہ دینے کے ساتھ ساتھ فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام میں سلیکشن۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک الزام تو اور بھی عجیب و غریب سا ہے کہ کسی سابقہ پروفیسر کی بیٹی کی بیرون ملک سے ڈگری کو ہی جعلی قرار دیا گیا ہے۔

 

پیج کی ایڈمن کہتی ہے کہ ثبوت کے لئے اُن سے انباکس میں رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت کوئی راز نہیں کہ جامعات میں کچھ بے قاعدگیاں روز مرہ کا حصہ ہوتی ہیں۔ جیسے سفارشی لوگوں کا اعلیٰ گریڈ لینا، بنا حاضری کے کلاس رجسٹر میں حاضر رہنا، پروفیسرز کے بچوں کو خصوصی خدمات فراہم کرنا اور اُن کا جامعات میں نوکری حاصل کرنا، لیکن پہلے یہ آوازیں جامعات کی کینٹینوں پر چائے کی بھاپ کے ساتھ اُڑ جایا کرتی تھیں۔

مجھے یاد ہے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر شپ کیلئے انٹرویو تھا، اور میں بھی اُمیدوار تھا۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ یونیورسٹی مارکیٹ میں حجام کی دکان پر بالوں کی تراش خراش کے لئے گیا۔ حجام جو پرانے وائس چانسلر کے گھریلو حجام بھی تھے اور ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں معاون کی نوکری بھی کرتے تھے، کہنے لگے رمضان صاحب اگر تو یہ کل کے انٹرویو کے لئے ہے تو رہنے دیں کیونکہ فلاں صاحب کی سلیکشن ہوچکی ہے اور بالکل ویسا ہی ہوا جیسا کے یونیورسٹی حجام نے بتایا تھا۔ لیکن اُس وقت ہی سب باتیں کہیں رپورٹ نہیں ہوتی تھیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر آج سے 20 سال پہلے سوشل میڈیا ایسا ہی ہوتا تو اِس ظلم کے خلاف میں ضرور آواز بلند کرتا۔

میرے بلاگ مکمل کرتے کرتے جامعہ زرعیہ فیصل آباد سے سوشل میڈیا پر کمنٹس کرنے والے طالب علموں کی تعداد 6 ہوچکی ہے اور سنا ہے کہ ابھی مزید قطار میں ہیں۔ میرے خیال میں اِن بچوں کا کوئی جرم نہیں ہے، اِنہیں اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی ہونی چاہیئے۔

جامعہ میں میرے اپنے ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال صرف کھیلوں کے کوٹے پر 400 سے زائد طالب علموں کو ایڈجسٹ کیا ہے، اور یہ تعداد گزشتہ سالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ادارے میں نئی بھرتیوں میں سفارش اور سیاست کا بہت عمل دخل رہا ہے۔ موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار خان جن کے بارے مشہور ہے کہ وہ رانا ثنا اللہ خان کے کزن ہیں، اور وہ اِس تعلق کے اثر کو خوب انجوائے کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

اِس کی مثال پچھلے دنوں جامعہ میں ہائی کورٹس کی طرف سے پرو وائس چانسلر کی تقرری پر متعلقہ پروفیسر کی درگت ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ عدالت کے حکم کے مطابق سینئر ترین پروفیسر کو پرو وائس چانسلر لگا دیا گیا۔ یہ پروفیسر صاحب شعبہ سوشل سائنسز کے ڈین تھے، اُن کو کہا گیا چونکہ تمہاری ترقی ہوچکی اِس لئے ڈین آفس خالی کرو، نہ صرف کہا گیا بلکہ اُسی دن اُن کا آفس اگلے ڈین صاحب کو دے دیا گیا۔

وائس چانسلر آفس اُن کو مل نہیں سکتا تھا کیونکہ ابھی تک پرانے وائس چانسلر وہاں براجمان تھے۔ سنا یہ گیا کہ پرو وائس چانسلر کے استعمال میں رہنے والے ٹائلٹ کو کیل لگا کر بند کردیا گیا، اور پرو وائس چانسلر صاحب بنا دفتر اور گاڑی اور پروٹوکول کے جامعہ کے کوریڈور میں پھرتے پائے گئے۔ ظاہر ہے ایک سنئیر ترین پروفیسر کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک کوئی پڑھا لکھا آدمی تو کرنے سے رہا۔

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے قبائل کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ جہاں اپنی لابی اور قبیلے کے بغیر آپ ترقی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جامعہ زرعیہ میں اِس سارے بھونچال کی ایک وجہ جولائی میں متوقع طور پر وائس چانسلر کے ہونے والے انٹرویوز ہیں۔ سابقہ وائس چانسلر جو دو ٹرم پہلے بھی وائس چانسلر رہ چکے ہیں، اور عملی طور پر اب بھی وائس چانسلر ہیں، تیسری دفعہ وائس چانسلر بننے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

ہوسکتا ہے اِن بچوں کو خبروں میں رہنے کے لئے یونیورسٹی سے نکالے جانے کا تاثر دیا جارہا ہو تاکہ ایک غیر یقینی صورت حال پیدا کردی جائے اور کسی نئے آدمی کو متوقع حالات سے بچانے کے لئے عنان حکومت پرانے وائس چانسلر کے پاس رہنے دیا جائے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب یونیورسٹی کے لوگ بھی پرانے وائس چانسلر سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ روزنامہ یو اے ایف جیسے صفحے کو اسکینڈل بھیج رہے ہوں۔

ایک بات نوشتہ دیوار ہے کہ ہر صاحبِ اقتدار کو چلے جانا ہے، لیکن پاکستانی کلچر میں نجانے لوگ کرسی کو ایسے جھپٹ لیتے ہیں کہ جیسے اُن کے علاوہ اور کوئی اِس کا حقدار ہی نہیں۔ کتنے قابل لوگ ریٹائرڈ ہوگئے، اور کتنے ہوجائیں گے، لیکن اب بھی بیس سے زائد پروفیسرز اِس انتظار میں ہیں کہ کب وائس چانسلر صاحب یہ کرسی چھوڑیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔

طاقت اور دھونس کے استعمال سے وائس چانسلر کی سیٹ پر بیٹھے رہنا ایک قبیح عمل ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ پنجاب یونیورسٹی ہو یا جامعہ زرعیہ فیصل آباد یا کوئی بھی اور ادارہ، اِس فعل کی مذمت کی جانی چاہیے۔ کیونکہ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے آپ کو اصولوں پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب یہی وائس چانسلر تشریف لائے تھے تو اُن کی انتظامی صلاحیتوں اور میرٹ پسندی کی دھوم تھی اور آج اُس رتبے کی چاہ میں دیکھنے کو سب کچھ اُن کے پاس ہے لیکن وہ کریڈیبلٹی نہیں جو ایک استاد کے شایان شان ہوا کرتی ہے۔

ہاتھیوں کی جنگ میں طالب علم پیادوں کی طرح پاؤں تلے روندے جا رہے ہیں، جن کے سانس لینے پر بھی پابندی اور بولنے پر تعزیریں ہیں۔ کل جامعہ کے ایک جونئیر نے فیس بک پر لکھا کہ

جامعہ کے بارے میں کچھ بھی لکھنا یونیورسٹی سے بے دخل ہونے کو دعوت دینا ہے۔

خدارا اِن بچوں کو بولنے کا حوصلہ دیجئے، سچ کہنے کی طاقت دیجئے اور جھوٹ کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیجئے۔ اگر جامعات ہی طالب علموں کی زبان بندی کرنے لگیں تو گونگوں کی ہی ایک نسل جنم لے گی۔ وہ بچے جو جامعات کو سر کے تاج کی طرح سجائے جانے چائیے تھے آج اپنے ادارے میں داخل ہونے کے مجاز نہیں، اپنی رائے کا اظہار کرنے والے اور دہشت گرد کو ایک ہی صف میں کیونکر کھڑا کیا جارہا ہے؟ خدارا انتظامیہ ہوش کے ناخن لے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
رمضان رفیق

رمضان رفیق

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ آپ ان کے بلاگ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ www.ramzanrafique.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔