ثابت ہوگیا وزیراعظم نے جے آئی ٹی میں کوئی نئی بات نہیں کی، عمران خان

ویب ڈیسک  جمعرات 15 جون 2017

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے  کہا کہ وزیراعظم کی گفتگو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے جے آئی ٹی میں کوئی نئی بات نہیں کی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے ویڈیو پیغام میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی سے نکلنے کے بعد جو میڈیا سے گفتگو کی وہ پہلے سے لکھی ہوئی تقریر تھی جو انہوں نے جے آئی ٹی میں جانے سے پہلے ہی پڑھ لی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے جے آئی ٹی کو نئی چیز فراہم نہیں کی اور نہ ہی کوئی ثبوت دیے، ان کا ایک ہی دفاع تھا اور وہ تھا قطری شہزادے کا خط لیکن اب جبکہ قطری نہیں آرہا تو اب ان کے پاس کوئی چیز موجود نہیں یہ بتانے کے لیے کہ پیسے یہاں سے لندن کے محلات لینے کے لیے کیسے باہر گئے۔

چیرمین تحریک انصاف کا  کہنا تھا کہ ’نواز شریف کی تقریر میں سب سے شرمناک بات یہ تھی کہ وہ اس معاملے کو اس طرح پیش کررہے ہیں کہ جیسے ان کے خلاف یہ کوئی سازش ہے، اور یہ سازش کون کررہا ہے؟ ان کا اشارہ دو ہی طرف ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ مل کر یہ سازش کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی کی وزیراعظم نوازشریف سے 3 گھنٹے پوچھ گچھ

عمران خان نے کہا کہ میں یہ بات یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب نئے آرمی چیف اور نئے چیف جسٹس آئے تو مریم نواز نے ٹوئیٹ کی تھی کہ اندھیری نکل گئی، طوفان نکل گیا، یعنی حالات اچھے ہوگئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے آرمی چیف اور چیف جسٹس دونوں ہی پر انہیں پورا اعتماد تھا اور آج وہ ان ہی پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزیراعظم نواز شریف کو تحقیقات کے لیے طلب کیا تھا جس میں پیشی کے بعد وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان میں کوئی ایسا خاندان نہیں جس کا ایسا بے رحمانہ احتساب ہوا ہو لیکن مخالفین جتنے بھی جتن اور سازشیں کر لیں ناکام و نامراد رہیں گے۔

واضح رہے کہ پاناما پیپرکیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے روبرو وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز 5 جب کہ حسن نواز 2 مرتبہ پیش ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ جے آئی ٹی نے شہباز شریف، وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، اسحاق ڈار اور پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک کو طلبی کے سمن بھی جاری کررکھے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔