یہ غریب مسکین لٹیرے

محمد سعید آرائیں  جمعـء 16 جون 2017

دینی کمائی کے واحد مبارک مہینے رمضان المبارک میں مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہونا تو پاکستان میں معمول بن چکا ہے اور ماہ صیام میں ہر چیز کے نرخ بڑھ جانا کوئی نئی بات نہیں رہی بلکہ اب توگزشتہ کئی سالوں سے رمضان سے قبل ہی نرخ بڑھ جانا اور عید کے بعد بھی مہنگے نرخ برقرار رکھنا بھی عام ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے اب گاہکوں اورگراں فروشوں کے درمیان یہ مکالمے ہوتے ہیں کہ ابھی رمضان نہیں آیا اور نرخ کیوں بڑھے اور عید کے بعد کہ رمضان تو اب ختم ہوگیا ہے نرخ کم کیوں نہیں ہو رہے جس کا ہر جواب گراں فروشوں کے پاس ہے اورگاہک مجبور اور لاجواب ہوکر رہ جاتا ہے۔ اب یہ بات بھی بڑھ رہی ہے کہ مہنگا فروخت کرکے کیوں لوٹ رہے ہوکچھ تو خیال کرو تو جواب ملتا ہے کہ حکومت کون سا ہمارا خیال کر رہی ہے کہ خیال کریں حکمران ہمیں لوٹ رہے ہیں تو ہم کہاں جائیں۔

مہنگائی بڑھنے کا یہ جواب عام چھوٹے دکانداروں، ریڑھی پتھارے والوں سے تو مل جائے گا اور لوگ ان سے وجہ بھی پوچھ لیں گے لیکن بڑے دکانداروں، مشہور ہوٹلوں، ہول سیلرز اور دیگر چلتی اشیا فروخت کرنے والوں سے مہنگائی کا سبب نہ کوئی پوچھ سکتا ہے نہ نوٹ وصول کرنے والوں کو دکاندار نہیں بلکہ پیچھے کھڑا گاہک ہی کہہ بیٹھے گا کہ لینا ہے تو لو کیوں ہمارا وقت ضایع کر رہے ہو ہمیں لینے دو۔

روزانہ لاکھوں روپے کی دکانداری کرنے والے ان کروڑ پتی تاجروں کا کام مرضی کے نرخ لگا کر بل تھمانا اور خریدار کا کام قیمت معلوم کیے اور معیار دیکھے بغیر ادائیگی کرکے پیچھے ہٹ جانا ہی رہ گیا ہے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ ملک کے ہر بڑے شہر کے ہر علاقے میں نرخ مختلف وصول کیے جاتے ہیں۔ پوش علاقوں میں نرخ معلوم کرنے کا تو رجحان کم ہی ہے اور نرخ پوچھنا بے عزتی سمجھی جاتی ہے باقی رہ گئے غریبوں اور متوسط طبقے کے علاقے تو وہاں بھی بے چارے غریب مسکین لٹیرے ہی موجود ملیں گے جو گاہک نہ ہونے پر آوازیں دیتے ہیں اور اکثر خاموش رہتے ہیں اور گاہک کے نرخ پوچھنے پر پہلے زیادہ نرخ بتائیں گے۔ پھر معمولی رقم کم کرکے احسان جتائیں گے کہ دوسروں کو ساٹھ کا بیچا ہے تمہیں 50 لگا دوں گا بولو کتنا دوں۔ گاہک اس کی یہ خاص مہربانی سمجھ کر خریداری کرلیتا ہے جب کہ وہ چیز صبح سے ہی پچاس روپے کی فروخت کی جا رہی ہو۔

ہول سیلرز اور بڑی منڈیوں سے خریداری کر کے ریڑھیاں اور پتھارے سجا کر فروخت کرنے والے بھی لٹیروں سے کم نہیں جو سستا مال خرید کر بھی ڈبل نرخ پر فروخت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور منڈی یا مارکیٹ آنے جانے اور باربرداری کے اخراجات کے نام پر ہر چیز مہنگی سے مہنگی فروخت کرنا ضروری اور اعتراض پر منڈی مارکیٹ سے مال مہنگا ملنے کا رونا روکر گاہک کو مطمئن کرنے کی کوشش میں خود مظلوم بن جاتے ہیں اور کبھی منڈی اور مارکیٹ نہ جانے اور حقائق کا علم نہ رکھنے والا خاموش ہوجاتا ہے۔

ریڑھیاں اور پتھارے پہلے ارزاں قیمت پر فروخت ہونے والی اشیا ضرورت کی خریداری کے لیے مشہور تھے اور بعض کھانے پینے کی اشیا معیاری ہونے کی وجہ سے معروف تھے۔ جنھیں موقع کی جگہ میسر آئی اور کاروبار چل پڑا تو ان کے نہ صرف وارے نیارے ہوئے بلکہ انھوں نے فروخت بڑھنے پر نرخ کم نہیں کیے بلکہ عوام کو لوٹنے کے لیے بڑھانا شروع کردیے۔سڑکوں، فٹ پاتھوں پر قبضے، چوری، کنڈے یا قریبی دکانداروں سے کرائے کی بجلی لے کرکاروبار کرنے والوں کے اخراجات کم اور منافع مناسب ہوا کرتا تھا مگر جب سے انھوں نے بھی اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھانا شروع کیا وہ بھی لٹیرے بن گئے۔

پولیس اور بلدیاتی عملے کی ملی بھگت سے سڑکوں اور فٹ پاتھ پر کرسیاں لگوا کرکاروبار بڑھانے والوں سے معیار کا کوئی پوچھتا ہے نہ کوئی نرخ چیک کرنے والا ہو اور معیار کی بجائے رش دیکھ کر خریداری کرنے والے ہوں تو انھیں روکنے والا کون ہے کچھ ہی ریڑھی پتھارے والا صاحب حیثیت بن کر قریبی جگہ خرید لیتا ہے جسے وہ پکانے اور اسٹور کے طور پر استعمال کرتا ہے مگر ریڑھی پتھارے کی جگہ خالی نہیں کرتا کیونکہ وہی تو اس کی مالی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔

شہر کے مختلف علاقوں میں اب بھی ایسی ریڑھیاں پتھارے موجود ہیں جن کے مالکان غریب و مسکین کہلاتے ہیں مگر اب وہ ایک نہیں کئی عمارتوں کے مالک ہیں اور اب ریڑھے پتھاروں کی جگہ ہوٹل اور خوبصورت عمارتوں میں کاروبار ہو رہا ہے جن کے پاس ملازمین کی فوج، گاڑیوں کی لائنیں ہیں اور عمارتوں پر عمارتیں بن رہی ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ یہ کروڑ پتی لٹیرے ترقی کے نام پر ریڑھی پتھاروں سے عوام کو لوٹ کر امیر بنے ہیں۔

یہ حکومت کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے، بغیر میٹر کی بجلی استعمال کرتے ہیں اور ان کی بجلی کی چوری کے بل علاقے والوں کے حساب میں جاتے ہیں۔ یہ حال ریڑھی پتھارے والوں کے علاوہ چھوٹی دکانوں میں کام کرنے والوں، دودھ فروشوں، چائے خانوں، پنکچر لگانے والوں، باربروں، پھل اور سبزیاں اور کھانے پینے کی دیگر اشیا فروخت کرنے والوں کا بھی ہے۔ یہ جب چاہیں نرخ بڑھا دیتے ہیں مگر کوئی حکومتی محکمہ ان سے نہیں پوچھتا کہ وہ نرخ جب چاہیں کیوں بڑھا دیتے ہیں۔

دودھ کی دکانیں خوبصورت بناکر دودھ میں پانی نہ ملانے کی قسم کھانے والے اب غیر معیاری برف ملاتے ہیں جس سے دودھ ٹھنڈا ہوکر گاڑھا نظر آتا ہے اور محفوظ رہتا ہے اور اگر دودھ خراب بھی ہو جائے تو بھی وہ ضایع نہیں ہوتا پھر بھی کام آجاتا ہے۔ دودھ کا معیار کبھی چیک نہیں کیا جاتا اور دودھ فروش ہول سیلرز کے بہانے ہر سال نرخ بڑھاتے جاتے ہیں اور نقصان کے رونے کے ساتھ ان کی دکانیں بھی بڑھ رہی ہیں اور جائیدادیں بھی مگر ان کا رونا نہیں جاتا۔ پلیٹوں میں کھانے اور گلاسوں میں پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کے نرخ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ دہی بڑوں اور دہی پھلکیوں، ربڑی اور کھیر فروخت کرنے والوں کی پلیٹوں کے نرخ بڑھتے اورمقدار کم ہوتی رہتی ہے جن کے معیار کو کوئی چیک کرنے والا نہیں۔ رمضان میں پکوڑے، سموسے اور پھل فروشوں کو تو مہنگا مال فروخت کرکے گیارہ ماہ میں اتنی کمائی نہیں ہوتی جتنی رمضان میں ہوجاتی ہے۔

مٹھائی فروشوں کے مطابق ان کی دکان میں فرش پر گرا شیرے کا ایک قطرہ بھی ضایع نہیں ہوتا اور بیکری اشیا کمائی کا بہترین ذریعہ ہیں جو شوکیسوں میں سجی بڑی خوبصورت نظر آتی ہیں اور انھیں بنتے ہوئے کوئی دیکھ لے کھانا چھوڑ دے۔ خراب انڈوں، غیر معیاری گھی و دیگر ایسنس سے بنی اشیا کا معیار صرف چھوٹی دکانوں پر نہیں بلکہ بڑے بڑے نام والے اداروں کا بھی مضر صحت اور غیر معیاری ثابت ہوچکا ہے مگر لوگ وہاں کے سرکاری اداروں کے چھاپے ہی بھول جاتے ہیں تو چھوٹی دکانوں کا کیا حال ہے یہ صرف انسانیت سے محروم، بے حس، لٹیرے ہی جانتے ہیں جن پر اعتماد اب بری طرح متاثر ہوچکا ہے اور کہیں بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حکومتوں کو اقتدار عزیز ہو تو عوام انھیں کیوں یاد آئیں بس سارا حساب میں ہی ہوگا اگر یہ بھی یاد رکھا جائے کیونکہ ضمیر تو مردہ ہوچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔