دو رخ، دو شاہ رخ

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  منگل 5 فروری 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

میڈیا پر اس وقت دو شاہ رخ عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جس میں ایک شاہ رخ ہندوستانی اور دوسرا شاہ رخ پاکستانی ہے۔ ہندوستانی شاہ رخ خان ہندو فرقہ پرست تنظیموں کی زد میں ہے، اس کو سول سوسائٹی اور قانون کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے جب کہ پاکستانی شاہ رخ جتوئی کو سول سوسائٹی کی شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا ہے اور وہ قانون کی زد میں بھی ہے، اس پر ایک ہم وطن شاہ زیب کے قتل کا الزام ہے۔

ہندوستانی شاہ رخ کا جرم مسلمان ہونا ہے، اس نے ایک بھارتی میگزین آؤٹ لک میں شایع ہونے والے خصوصی مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو کوئی وفادار نہیں سمجھتا، وہ خود بھی اس سوچ کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ہونے کی دعویدار جمہوریت کی، شوبزنس کی بین الاقوامی بھارتی شخصیت شاہ رخ خان جن کے مطابق کہا جاتا ہے کہ وہ مندر، مسجد، چرچ ہر جگہ جاتے ہیں، کے ساتھ متعصبانہ رویہ بھارتی سیکولرزم کا پردہ چاک کرکے ظاہر کرتا ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کی سزا دی جارہی ہے۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں جب دو ملک دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آئے تھے تو پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے کے تحت مسلمان اور اسلام پر رکھی گئی جب کہ ہندوستان کی بنیاد سیکولرزم یعنی مذہب، رنگ و نسل سے بالاتر بلاتفریق و امتیاز برابری و مساوات پر رکھی گئی تھی۔

پاکستان کے آئین میں تحریر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کائنات کا حاکم اعلیٰ ہے اور مسلمانوں کی انفرادی و اجمتاعی زندگیوں کو قرآن اور سنت کے مطابق بنایا جائے گا، آزادی، مساوات، رواداری، سماجی انصاف ہوگا، غیرمسلموں کو اپنی مذہبی عبادت اور رسوم کی آزادی ہوگی۔ ہندوستان کے مسلمان تو دو قومی نظریے کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن پاکستانی مسلمان دو قومی نظریے سے انحراف کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، اس ملک میں احکام الٰہی کے برعکس طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہیں جس کی جھلک پاکستانی شاہ رخ جتوئی کے واقعے میں بھی نظر آتی ہے جس پر ایک نوجوان کے بہیمانہ قتل کا الزام ہے۔ سپریم کورٹ ازخود کارروائی کرکے مقدمے کی نگرانی کررہی ہے لیکن ایک مضبوط لابی اس ملزم کے دفاع پر کمربستہ انصاف کو شکست دینے کی تدابیر پر بڑے بھرپور، منظم اور موثرانداز سے فعال نظر آتی ہے۔

پہلے اس ملزم کو ملک سے فرار کرایا گیا، جب بدقسمتی سے قانون کے شکنجے میں آیا تو انسداد دہشتگردی کے قوانین کی زد سے بچانے کے لیے اسے نابالغ قرار دے کر بچہ جیل بھجوادیا گیا، حالانکہ اس خودساختہ بچے کا قتل کرنے کے بعد ملک کی تمام ایجنسیوں کو چکمہ دے کر ملک سے فرار ہونے کا واقعہ اس کی طبی و شعوری عمر اور اس کے پیچھے کارفرما ہاتھوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ مستقبل میں یہ مقدمہ کیا رخ اختیار کرتا ہے، رخ شناسوں نے پہلے ہی اس کی سمت کا اندازہ کرلیا ہے۔ رحمن ملک نے خبردار کیا تھا کہ عنقریب کراچی میں دہشتگردی ہوسکتی ہے، اس کے بعد سے ہی کراچی کی دہشتگردی میں گھمسان کا رن پڑگیا، جس طریقے سے پورے شہر میں دہشت گردی کی یہ وارداتیں رونما ہوئیں خاص طور پر شاہراہ فیصل پر مفتیان کرام کا قتل جس بے خوفی، منظم اور کامیابی سے سرانجام دیا گیا جس کی فلمبندی میں دیکھا گیا کہ ان علما کی گاڑی کے منتظر قاتل پراطمینان طریقے اور منصوبہ بندی کے تحت جائے وقوع پر کھڑے ہیں، انھیں تحفظ دینے کے لیے سیاہ رنگ کی سیاہ شیشوں والی گاڑی بھی سائیڈ میں کھڑی نظر آرہی ہے، ایک ٹرک بھی بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ گاڑی کے سامنے چلتا ہوا آرہا ہے، جائے واردات پر رک کر پیچھے آنے والی مقتولین کی گاڑی کی رفتار کو کم کرکے قاتلوں کو بھرپور وار کرنے کا موقع فراہم کردیتا ہے۔

اس منظم کارروائی سے ایک بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ واقعہ محض کسی جنونی شخص یا گروہ کی فرقہ وارانہ کارروائی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم سازش، نیٹ ورک اور پیغام موجود ہے۔ مقتولین کے ساتھ کوئی سیکیورٹی نہیں تھی، یقیناً ان کے گھروں، مساجد یا مدارس میں آنے جانے کے راستے میں بھی کوئی سیکیورٹی نہیں ہوگی جہاں انھیں اور ان جیسے اور بہت سوں کو قتل کرنا کوئی مشکل عمل نہیں ہوسکتا تھا، لیکن ان تین علما کے قتل کے لیے ایک ایسے محل وقوع کا انتخاب کرنا جس کے اطراف میں کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے یہاں سے فورسز، پولیس و سیکیورٹی اور وزرا، سفراء کی گاڑیوں کا دن رات گزر رہتا ہے، بڑا معنی خیز اور ایک پیغام بھی ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں دو قومی نظریے کے مخالف روشن خیال لبرل اور سیکولرزم کے دعویدار تو شروع ہی سے موجود رہے ہیں اور ہماری حکومتوں اور مذہبی رہنماؤں کی کوتاہیوں کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ موثر اور فعال ہوتے گئے ہیں لیکن نائن الیون کے واقعے اور دہشتگردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں پاکستان کی شرکت کے بعد سے ان قوتوں کو امریکا کی تائیدی حکومتوں اور میڈیائی مبالغہ آرائی کی مدد سے اپنے عزائم پورے کرنے کا بھرپور موقع میسر آگیا ہے۔ اب یہ قوتیں اور پاکستانی حکومتیں بھی وہی کچھ بول رہی ہیں اور اس پروپیگنڈے کے زیراثر ہیں جو عالمی سطح پر پاکستان اور اسلام کے خلاف کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں غیرملکی مداخلت، ڈرون حملے، اندرونی و بیرونی دہشتگردی، فرقہ وارانہ اور لسانیت کی بنیاد پر قتل و غارت گری، حساس اور فوجی تنصیبات پر حملے اور ان میں بے گناہ شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کی ہلاکتوں کے واقعات سے ایک طرف تو عوام الناس میں فرقہ پرستی اور لسانیت کے جذبات کو ہوا دی جارہی ہے دوسری طرف اس بین الاقوامی پروپیگنڈے کو تقویت دی جارہی ہے کہ دنیا اسلام کی واحد جوہری طاقت کے اثاثے غیرمحفوظ اور دہشتگردوں کی پہنچ میں ہیں جنھیں تحویل میں لیاجانا ضروری ہے، دہشتگرد دنیا میں اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔

ایک سیکولر ملک میں شاہ رخ کی حب الوطنی کو مذہب سے جوڑ کر اس کے ساتھ امتیاز یا استحصال کی منطق اور عزائم تو کسی حد تک سمجھ میں آتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک میں مذہب کو دہشتگردی سے جوڑ کر اسلام کے خلاف یہ تاثر قائم کرنا کہ یہی تمام تر قومی و بین الاقوامی خرابیوں، برائیوں، ناکامیوں اور فساد کی جڑ ہے سمجھ سے بالاتر ہے، دراصل حکومت پچھلے 5 سال میں بغیر کسی سیاسی و معاشی آسودگی کے ایجنڈے کے تحت حکمرانی کرتی رہی ہے۔

نظم و نسق کا مسئلہ ہو یا بھتہ، قتل، زمینوں پر قبضہ، بلوچستان کا مسئلہ ہو یا سیکڑوں لاپتہ افراد کا، بیڈ گورننس ہو یا 16 لاکھ کھرب کے اضافی قرضے، بجلی، پانی، سی این جی، صنعتوں کی بندش اور منتقلی ایسے لاتعداد معاملات و مسائل صرف اور صرف حکومت کی ناکامی اور نااہلی ثابت کرتے ہیں، جنھیں چھپانے کے لیے کوئی نیا رخ دے کر عوام کی توجہ اس جانب سے ہٹانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ لہٰذا قوم کے کچھ بیزار اور اصلاح احوال کے متمنی افراد کسی اچھے کی امید پر ہر نئے سیاسی شعبدے باز کے پیچھے لاکھوں کا مجمع لگادیتے ہیں پھر ان کی نورا کشی، پیروڈی اور بغل گیری دیکھ کر ملامت اور مذمت کرنے کے بجائے قسمت یا کامیڈی شو کا حصہ سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ نہ ہماری سوچ کا کوئی رخ یا زاویہ ہے نہ حکومتی پالیسیوں کی کوئی سمت و ترجیح ہے، یہی مقام عبرت اور فکر کا پہلو ہے۔ یہ ملک دو قومی نظریے پر قائم ہوا تھا، مذہب اس کی اساس اور آئین کے تحت بنیاد بھی ہے جو ملک کو متحد رکھنے کی واحد قوت ہے اور اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب عوام و حکمراں باہمی اتفاق و اتحاد اور احترام کے ساتھ مل کر اس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے پاسبان بنیں، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نظریاتی سرحدیں مضبوط و مستحکم نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔