انڈونیشیا میں عوام کو بندروں سے بچانے کیلئے مسلح فورس تعینات

ویب ڈیسک  ہفتہ 5 اگست 2017
تصویر میں ایک مشتعل بندر انڈونیشیا کے مشرقی جاوا کے ساحل باما پر دکھائی دے رہا ہے۔ فوٹو: رائٹرز

تصویر میں ایک مشتعل بندر انڈونیشیا کے مشرقی جاوا کے ساحل باما پر دکھائی دے رہا ہے۔ فوٹو: رائٹرز

جکارتا: انڈونیشیا نے جزیرہ جاوا میں شہریوں پر بندروں کے بڑھتے ہوئے حملوں اور چوری کے واقعات کے بعد عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لئے مسلح فورس تعینات کردی ہے۔

جاوا کے جزائر میں بندر اب نہ صرف لوگوں کی اشیاء اور کھانا چھین کر فرار ہو رہے ہیں بلکہ موقع ملنے پر تنہا بچوں اور بوڑھوں پر حملے کر کے انہیں زخمی بھی کر رہے ہیں۔ لمبی دم والے مکاک بندر مرکزی جاوا کے ضلعے بویولالی میں دھیرے دھیرے انسانوں سے بے خوف ہو رہے ہیں اور ان کی جانب سے انسانوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔

علاقے کے پولیس سربراہ آرائیس آندی کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں دو ماہ قبل بندروں کی زیادہ آمد شروع ہوئی اور جب ایک بندر کو گولی ماردی گئی تو ان کی آمد کا سلسلہ تھم گیا لیکن اب بندروں نے دوبارہ دھاوا بول دیا ہے۔ اب پولیس فورس کو اجازت ہے کہ وہ ضروری سمجھیں تو بندروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں، اس کے علاوہ شرارتی بندروں کو پکڑنے کے لئے پولیس اہلکاروں کو خصوصی جال بھی فراہم کئے گئے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق جب تک بندر انسانوں کو نہیں ستاتے ہم ان پر گولی نہیں چلائیں گے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ مقامی افراد بھی علاقے کا گشت کرتے ہیں تاکہ بندروں کے شر سے گاؤں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اب تک بندروں نے 11 افراد پر حملہ کیا ہے جن میں ایک چار سالہ بچہ بھی شامل ہے۔

دوسری جانب مرکزی جاوا میں جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والے افراد کہتے ہیں کہ قدرتی جنگلات کی تباہی سے ان بندروں کے گھراجڑ چکے ہیں اور وہ انسانوں کے علاقوں میں داخل ہوگئے ہیں اس لئے انہیں مار ڈالنا کسی بھی طرح جائز نہیں۔ انڈونیشیا کی انٹرنیشنل اینیمل ریسکیو تنظیم سے وابستہ ربی صوت الہدیٰ نے کہا کہ ’ یہ جانور بھوک کی وجہ سے گھروں سے کھانا اٹھا رہے ہیں کیونکہ ان کے جنگلات میں پائن اور ٹیک کے درخت کاٹ کر تجارتی شجرکاری کی جا رہی ہے اور وہ اب ان کے رہنے کے قابل نہیں رہے۔‘

خیال رہے کہ پٹاخون اور غلیلوں سے بھی بندروں کو بھگانے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔