اقبال کا پاکستان

شہلا اعجاز  پير 21 اگست 2017
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

علامہ اقبال کی شاعری اٹھا کر دیکھ لیں، ان کے شعروں میں کئی معنی چھپے نظر آتے ہیں، کہنے کو تو وہ قانون دان بھی تھے لیکن منفرد و متنوع فکر اور جذبے سے شاعری میں ان کا جو روپ نظر آتا ہے وہ انھیں ایک صوفی بزرگ بھی ظاہرکرتا ہے۔ ان کی محبت اپنے رب اور قوم سے اس طرح سے تھی کہ جیسے پھول کا خوشبو اور خوشبو کا بھونرے کی دیوانگی سے تعلق ہوتا ہے، وہ ایسے ہی بھنورے کی مانند تھے، رب سے عشق اور قوم سے محبت کے جذبے نے ایسے خوبصورت ادب کو تخلیق کیا کہ جس نے واقعی دل والوں کے لہو کوگرما دیا۔

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے

آج کا پاکستان کیا اقبال کے تصور پاکستان جیسا ہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا قدرے مشکل ہے، کیونکہ آج جو پاکستان ہمارے سامنے ہے، خدا کا شکر ہے ظاہری طور پر اس کا انگ انگ آزاد ہے، ہاں کشمیر کا ایک حصہ ابھی بے قرار ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی اس کو بھی آزادی کی شمع کی روشنی نصیب ہوگی۔

ہندوستان ایک ایسا ملک تھا جس پر مسلمانوں نے قدم رکھا اور یہ قدم پھیلتے ہی گئے، محمد بن قاسم سے لے کر مغل بادشاہوں کے دور تک ہندو خاندان اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے گئے اور یہ سلسلہ آج تک برقرار ہے۔ تصور اسلام کی اہمیت کیا ہے، اس کا جواب تو وہی دے سکتا ہے جسے ابھی اس کی روشنی نصیب ہوئی ہے۔ ہمارا مذہب سختی اور جبرکو پسند نہیں کرتا، برصغیرکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، اسلام کے دائرے میں شامل ہونے والے اس کے بلند اخلاق، انصاف پسندی اور حقوق کی خوبصورت تقسیم کو دیکھ کر اس شمع افروز کے نزدیک آئے اور اس کے ہی عقیدت مند بن گئے۔

بادشاہ اورنگزیب مذہبی روایات و اقدار میں خاصا مشہور تھا، تاریخ میں لکھا ہے کہ جب بادشاہ شاہجہاں نے دھندیرا کے راجہ اندرین کو بادشاہ کے کسی حکم کی نافرمانی پر قیدکیا تو اورنگزیب عالمگیر نے ہی اس کی رہائی کی سفارش کی، اس پر بادشاہ کا حکم ملاحظہ فرمائیے۔ لکھا کہ وہ اپنا آبائی مذہب (ہندو مت) چھوڑ کر اسلام قبول کر لے اس پر اورنگزیب نے جواب میں تحریرکیا کہ یہ شرط ضوابط اسلام کے خلاف ہے۔

علامہ اقبال نے اورنگزیب کی اس رائے اور عرض کے بارے میں اپنی رائے کچھ اس طرح لکھی کہ:

’’میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس نمونے کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اسے پیش نظر رکھیں۔‘‘

برصغیر میں متعدد مسلمان خاندانوں نے حکومت کی ہے۔ ان کے اسلامی اقدار اور اصول آج تک مشہور ہیں چاہے وہ سلطان محمود غزنوی ہو یا سلطان محمد غوری، اورنگزیب عالمگیر ہو یا لودھی اور مغلیہ خاندان جنھوں نے اپنے اسلامی تشخص کو محض مسلمان قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام کو بھی مستفید کیا، ان کے انصاف کے پلڑے نہ ہندو نہ مسلمان دیکھتے تھے، لیکن عقیدہ توحید نے انھیں ہمیشہ دین اسلام کے رشتے وحدت میں جوڑ کر رکھا۔ اقبال نے اسی تاریخ کے عظیم اسلامی فلسفے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا:

’’شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔‘‘

ہندوؤں کے تعصبی ذہن نے انگریزوں کی سامراجی ترکیبوں سے اپنے لیے ایسے ملک کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا جس میں ہندو راج ہو، لیکن پچھلی گزری صدیوں کے سفرکو چند برسوں میں لپیٹ دینے کی خواہش بے عمل ہی رہی، ان گزری صدیوں میں ہندوستان کی سرزمین توحید کا کلمہ پڑھنے والوں سے بھرچکی تھی انھیں کاٹ کر پھینک دینا آسان نہ تھا لیکن انھیں ہندو تو بنایا جاسکتا ہے۔

علامہ اقبال کے علاوہ دوسرے عظیم لیڈران نے ہندوؤں کی اس ذہنی شیطانی اسکیم کو بھانپ لیا تھا کیونکہ اٹھارہویں صدی میں اسلام کے عظیم اصولوں پر قائم معاشرہ اخلاقی طور پر انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا تھا، انگریز سامراج نے کرپشن کے اس دور سے خوب فائدہ اٹھایا ہندوؤں نے مل کر اسے اور ہوا دی، یوں سرسید احمد خان، شبلی نعمانی، مولانا حالی، اکبر الٰہ آبادی اور علامہ اقبال نے مسلمانوں میں وحدت ملی کا شعور بلند کرنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کردیں، علامہ اقبال نے فرمایا:

’’آیندہ نسلوں کی فکرکرنا ہمارا فرض ہے ایسا نہ ہو کہ رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہوجائے۔‘‘

علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا تصور اسلامی تمدن کی حفاظت اور بقا کے لیے پیش کیا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اسلامی شعائر اور روایات کی حفاظت اگر آج نہ کی گئی تو ہندوستان کی سرزمین پر فقط نام کے مسلمان رہ جائیں گے، انھوں نے کہا کہ:

’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔‘‘ علامہ اقبال کا کلام اپنے اور مسلمان قوم سے محبت کے جذبے سے سرشار تھا ان کی محبت محض شعر وشاعری تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ایک باریک بیں رہنما اور سیاستدان کے طور پر بھی آپ کا کردار آج کل کے رہنماؤں اور سیاستدانوں کے لیے ایک عظیم مثال ہے۔ آپ نے قائداعظم کو ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا:

’’شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم ازکم معمولی تشخص کی طرف سے اطمینان ہوسکتا ہے، لیکن کسی ایک آزاد اسلامی ریاست یا چند ایسی ریاستوں کی عدم موجودگی میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ اس ملک میں محال ہے۔‘‘

آپ کا انتقال پاکستان کے قیام سے قبل 1938ء میں ہوچکا تھا لیکن قائداعظم کو لکھے اس خط میں واضح طور پر آپ نے اشارہ دے دیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے اس سرزمین پر اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ رہنا دشوار ہے۔ آج ہم علامہ اقبال کے ان افکار کو اپنے ملک میں کس انداز سے دیکھتے ہیں:

عشق طینت میں فرو مایہ، نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پروازِ مگس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔