آوازیں

فرح ناز  ہفتہ 23 ستمبر 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

اللہ پاک جب عطا فرماتا ہے تو بے شمار اور ان گنت نعمتیں یوں سمجھیں چھپر پھاڑکردیتا ہے، جب اللہ پاک دیتا ہے تو نگہبانی بھی فرماتا ہے بالکل ایسا ہی معاملہ ہمارے ملک پاکستان کا ہے، یہ ہم سب کے لیے باعث رحمت ہے۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں میں گھرا ہوا یہ ہمارا گھر اللہ کی نگہبانی میں ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں، ہم بے عملی کا شکار ہوجائیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرکر بیٹھ جائیں، ہرگز ہرگز نہیں۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم آزاد ملک کے شہری ہیں اور اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اور آگے بڑھنے کے لیے، ترقی کی شاہراہ پر کامیابی سے چلنے کے لیے اپنا وجود منوانے کے لیے ہم سب کا بہت اہم کردار ہے اور رہے گا، ساتواں ایٹمی طاقت والا ملک، پوری امت مسلمہ کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔

گراں قدر والے جذبے زبردست ذہن، قوت بازو کے زور پر فتح حاصل کرنے والے لوگ ہوسکتا ہے کہ کچھ اپنے ہی لوگوں کی وجہ سے تھوڑے پیچھے رہ گئے ہوں لیکن ہمیشہ پیچھے نہیں رہ سکتے ہیں، سچے جذبے، اونچی اڑان، اللہ پر توکل کبھی مایوسی کی طرف نہیں لے کر جاتا۔ بددیانت، لالچی، خودغرض دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں، ہمارا دوست چائنا کہتا ہے کہ اس نے ترقی کی رفتار جب بڑھائی جب اس نے اپنے کرپٹ لوگوں کو پھانسی کی سزا دی۔ تین سال میں 300 کرپٹ لوگوں کو چائنا میں پھانسی دی گئی جس کا اثر یہ ہے کہ وہاں اب یہ لوگ کرپشن کرنے سے ڈرتے ہیں کہ قانون مضبوط ہوگیا۔ دیانتداری، محنت اور لگن نے چائنا کو کہاں سے کہاں پہنچادیا کہ دنیا حیران ہے۔

ہمارے ملک میں سی پیک چائنا کی اعلیٰ ترین کاوش ہے اور پوری دنیا کی نظریں اس پروجیکٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ آپ لوگوں کو بھی یاد ہوگا چائنیز ڈینٹل کلینک، صدرکی فٹ پاتھوں تک پر لگے ہوتے تھے اب چائنا ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے وہ صرف اس لیے کہ اس نے جان لیا کہ اسے کیا پالیسی اپنے ملک میں لگانا ہوگی اور تسلسل کے ساتھ ان پالیسیز کو چلانا ہوگا۔ کرپشن ایسا مرض ہے کہ جس کو لگ جائے تو ملک کے ملک برباد ہوجاتے ہیں سونے کے پہاڑ ختم ہوجاتے ہیں سمندر موتی اگلنا بند کردیتے ہیں۔

عمران خان نے بھی جب شوکت خانم کینسر اسپتال مکمل کیا اور اپنی ایک سیاسی جماعت بنائی تو اس کا نام ’’تحریک انصاف‘‘ رکھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر تو جماعتیں کام کر ہی رہی تھیں، مگر عمران خان کو لگا کہ انصاف نہ ہونے سے بھی ملک پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ سو انھوں نے تحریک انصاف بنائی، 21 سال کے طویل سفر کے بعد تحریک انصاف پاکستان کی تیسری بڑی قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بہت ہی ذہین کہلانے والے سیاستدان آصف زرداری پنجاب جیسے بڑے صوبے میں پیپلز پارٹی کی اہمیت اور اس کا وجود گنوا چکے ہیں اور صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، سندھ میں بھی ایم کیو ایم کے موجودہ حالات کی وجہ سے ان کو بڑی Space مل گئی ہے ورنہ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہوتی۔

بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو بے مثال سیاستدان رہیں۔ مثالی جدوجہد کرتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کو بناتی رہیں مگر محترمہ کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری صدر پاکستان تو بن گئے مگر پیپلز پارٹی کی جان نہ بن سکے۔ نواز شریف خاندان 32 سال پنجاب جیسے صوبے میں حکمرانی، مسلم لیگ (ن) نے کئی دور دیکھے وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم تک رہے مگر بدقسمتی سے ہر بار کرپشن کے الزام میں ہٹائے گئے اور 28 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے گویا ایک مہر ثبت کردی، کیونکہ اب ہم نہایت فاسٹ ٹریک کے زمانے میں رہتے ہیں، حقائق کیا ہیں، دنیا کیا کہتی ہے سب کچھ نظروں کے سامنے سے گزرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک سبزی فروش کو بھی علم ہوتا ہے کہ ہمارا وزیر اعظم کیا کر رہا ہے۔ یہی ہوا اس دفعہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وہ سمجھتے رہے کہ سب اچھا ہے مگر پاناما لیکس نے سب کچھ واضح کردیا اور معاملہ بالآخر وزیر اعظم کی نااہلی تک پہنچا۔

اپنا اور اپنے خاندان کا علاج و معالجہ، رہائش لندن کے اعلیٰ ترین علاقوں میں رکھیں اور عوام کو نہ اچھے اسپتال ملیں، نہ اسپتالوں میں بستر، دکھ و بیماری ہو تو گندے ترین اسپتال جہاں جا بجا کچرے کے ڈھیر ہوں، اربن علاقوں میں خواتین کو اس دور میں بھی زچگی کی مشکل ہو، سوشل ورکرز عوام کی بھلائی کے لیے زکوٰۃ و خیرات مانگتے پھریں، بزرگ سے لے کر بچے تک کبھی مچھروں کے کاٹنے سے مر جائیں کبھی گندا پانی پینے سے مر جائیں۔ مگر یہ عوام کے ووٹ سے آئے ہوئے لوگ محل در محل بناتے جائیں اور اپنے آپ کو نہ جانے کون سی مخلوق تصور کرتے ہوئے جئے جائیں۔

امت مسلمہ کے لیے بھی پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ برما میں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کی داستانیں لکھی جا رہی ہیں، میانمار میں جس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، ہر شہری ہمارے ملک کا اپنی حکومت کی طرف دیکھتا ہے کیونکہ احتجاج کا حق ہم رکھتے ہیں پوری دنیا میں آواز اٹھا سکتے ہیں کیونکہ دکھ سکھ تو سانجھے ہی ہوتے ہیں، اس ظلم کی گھڑی میں روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہم کھڑے ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ ہماری حکومت ایک مضبوط پالیسی رکھے۔

ضروری ہے کہ جو بھی عوام کے ووٹ لے کر آئے، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہو، جب وہ عہدے پر آگیا تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذات کو چھوڑ کر ایسے میدان میں آجائے جہاں ہزاروں لوگوں کے لیے وہ بہترین کام انجام دے سکتا ہے۔ جانا تو دونوں ہاتھ خالی لے کر ہی ہے بس اعمال نامہ بھاری ہوجائے تو کیا بات ہے۔

اس ترقی یافتہ دور میں بھی نہ پینے کا صاف پانی، نہ علاج و معالجے کی سہولیات، شہر کراچی توکچرے کے ڈھیروں سے بھرتا ہی جا رہا ہے۔ ملاوٹ زدہ کھانے پینے کی اشیا یہاں تک کہ دواؤں میں بھی خالص اجزا غائب، سبزہ و باغات غائب، پلوشن اور بدلتا ہوا ماحولیاتی نظام، بارشیں زیادہ ہوگئیں تو لگے کہ بس شہر اب بہنے ہی والا ہے۔ تمام شہری زندگی مفلوج اور بجلی کا نظام درہم برہم۔

عجیب دور چل پڑا ہے پاکستانی سیاست میں اور یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ دو تین لوگوں کو ہی بار بار حکومت سازی کا موقعہ ملتا رہا، نئی قیادت کو آگے نہیں آنے دیا، حالانکہ ایسا بالکل نہیں کہ ہمارے پاس زبردست دماغوں کی کمی ہے یا پھر سیاسی شعور کم ہے؟ بے تحاشا قابل اور لائق لوگوں کی پوری کھیپ موجود ہے مگر ان کو استعمال نہیں کیا جا رہا، طبقات بنانے اور ان کو دبانے کا سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو پھر پاکستان کہاں کھڑا ہوگا، آج اگر جج صاحبان کی کریم سپریم کورٹ میں بیٹھی ہے تو ہمیشہ تو یہ رہنے والے نہیں ہیں؟ ان کے پیچھے ہم نے کیا تیاری کی، جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے میں جو کچھ ہوا یا اس سے پہلے، احتساب کا عمل اگر شروع ہوا ہے تو اس کو بغیر کسی دباؤ کے جاری رہنا چاہیے، آخر کب تک پاکستان سوالوں کے جواب دیتا رہے گا، اور کب تک دنیا پاکستان سے Do More کا مطالبہ کرتی رہے گی؟

ابھی حال ہی میں جنرل قمر باجوہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان کو پچھلے چار سال سے وزیر خارجہ نہ ہونے کا نقصان ہوا ہے۔ اسحق ڈار پر نیب میں ریفرنس ہے اور وہ وزیر خزانہ ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس ان کے اوپر موجود ہے، حدیبیہ ملز کے حلفیہ بیان ریکارڈ پر ہیں، خواجہ آصف آج کل وزیر خارجہ ہیں۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یقیناً ہم سب کو وہی فیصلے کرنے چاہئیں جو پاکستان کے حق میں بہترین ہو، اپنی ذات سے آگے نکل کر سوچیے کہ آپ نے 6 فٹ کی قبر میں جاکر گل سڑ جانا ہے مگر آپ کا نام رہے گا وہ سفید ہو یا کالا یہ آپ کی اپنی چوائس اور انتخاب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔