سیاست سے بیگانگی کا ذمے دار کون؟

جبار قریشی  بدھ 11 اکتوبر 2017
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

ایک مفکر کا قول ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم نیک اور پارسا رہے ہیں بلکہ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہم ایک بہتر اور خوبصورت دنیا آنے والی نسلوں کو دے کر جا رہے ہیں۔ آئیے اس قول کے تناظر میں ہم اپنے رویے کا جائزہ لیتے ہیں، اگر کوئی شخص آپ سے اپنی نیک نامی اور پارسائی کی سند حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ آپ کے سامنے اپنی زبان سے اس بات کا اقرار کردے کہ جناب میں ایک غیر سیاسی آدمی ہوں، میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آپ یہ جملہ سن کر اسے نیک نامی اور پارسائی کی سند (سرٹیفکیٹ) عطا کردیں گے، حالانکہ اس جملے کے حقیقی مفہوم پر غور کیا جائے تو وہ شخص دراصل اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ میں اجتماعی سوچ سے عاری، اپنی ذات میں ایک خودغرض انسان ہوں۔ سوچیے اس طرح کی سوچ رکھنے کی صورت میں معاشرے میں کس طرح تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاست سے بیگانگی کا کلچر کیوں پروان چڑھا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام سیاسی نظام اور سیاست دانوں دونوں سے مایوس ہیں۔

پاکستان کے عوام نے سیاست کے تمام حربے استعمال کرلیے ہیں لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ اس ملک پر طاقتور آمروں کی حکومت بھی رہی ہے اور تیسری دنیا کے ذہین ترین سیاست دان کی بھی اس ملک پر روایت پسندوں کا غلبہ بھی رہا اور روشن خیالوں کا بھی، اس ملک پر ایسے حکمران بھی رہے ہیں جنھیں تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا، ایسے حکمران بھی آئے جنھیں مرد مومن و مرد حق کے خطابات سے نوازا گیا، لیکن کوئی بھی عوام کے مسائل حل نہیں کرسکا۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ نظام کی خرابی ہے۔ پوری ریاستی مشینری پر مفاد پرست عناصر کا قبضہ ہے۔ اس میں فرد واحد کی کوئی حیثیت نہیں، سارا کام ریاستی مشینری کرتی ہے، جو اس غلط نظام کے تابع ہے۔ جب نظام ہی غلط ہوگا تو ظاہر ہے نتیجہ بھی غلط ہی نکلے گا۔ ایسے حالات میں بعض عناصر کی جانب سے الیکشن کی سیاست سے مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

یہ عناصر تبدیلی کے لیے انقلاب کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ یہ عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس طریقہ کار میں کیونکہ پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ واضح نہیں ہوتا، اس لیے جہاں جہاں یہ طریقہ کار اپنایا گیا ہے وہاں خون خرابے، تصادم اور ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، جس سے ریاست اور معاشرہ دونوں ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے مہذب معاشرے میں طاقت کے ذریعے تبدیلی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔

بعض عناصر اس کے حل کے لیے مارشل لا کو دعوت دیتے نظر آتے ہیں، ان کے نزدیک کوئی فوجی جنرل بطور سرجن مختصر وقت کے لیے اقتدار میں آئے اور فزیشن یعنی سیاست دان نہ بنے تو اس کے ذریعے ملک کے سیاسی اور عوامی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

یہ عناصر انگریزی کا یہ مقولہ بھول جاتے ہیں کہ مارشل لا کی سواری شیر کی سواری ہوتی ہے جو ہوتی تو بڑی شاندار ہے لیکن اس میں سوار کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ سواری سے اترا تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ اس خوف کے نتیجے میں وہ ایسے اقدامات کرتا ہے جس سے اس کے اقتدار بالخصوص اس کی ذات کو تحفظ حاصل ہو۔ اس رویے کے باعث ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، اس لیے ہر مہذب معاشرے میں مارشل لا کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ نظام کی اصلاح کس طرح ممکن ہے۔ اہل سیاست کے نزدیک سیاسی نظام کی اصلاح جمہوری نظام کے تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے میں ہی ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے لیکن ہمارے یہاں یہ نظام ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے، کیوں؟ میری ناقص رائے میں سیاسی جماعتوں کا غیر منظم اور کمزور ہونا ہے۔

دنیا میں دستور ہے کہ پہلے سیاسی جماعت بنتی ہے، پھر رہنما یعنی قائد کا انتخاب ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اس طریقہ کار کے برعکس ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں پہلے ایک شخص سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کرتا ہے، پھر اس کا قائد بن جاتا ہے، کیونکہ یہ جماعت اس فرد واحد کی تخلیق ہوتی ہے اس لیے وہ اسے اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔

ہمارے ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں اسی تصور کے ساتھ چلائی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اس طریقہ کار سے جمہوری نظام کس طرح فروغ پاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں مضبوط اور منظم کیوں نہ ہوسکیں؟ میری ذاتی رائے میں اس کی بڑی وجہ ملک میں بار بار مارشل لا کا نفاذ ہے اور وہ بھی طویل عرصے۔ ہر آنے والے آمر کی یہ کوشش رہی ہے کہ کوئی جماعت منظم اور مضبوط نہ ہونے پائے، جو ان کے اقتدار کو چیلنج کرے۔ اس کے لیے انھوں نے ہر موقع پر موقع پرستوں کو دعوت دی جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں مختلف دھڑے وجود میں آئے، موقع پرستوں نے فائدہ اٹھایا، نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں اور سیاسی گدھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ اس عمل کے نتیجے میں سیاسی خلا پیدا ہوا۔ ملک میں مختلف مافیاز وجود میں آئیں۔ جہادی تنظیموں، لسانی گروہ اور فرقہ پرست تنظیموں اور غیر سیاسی عناصر کو فروغ پانے کا موقع ملا۔

اگر ہم مختلف مافیاؤں اور دیگر غیر سیاسی عناصر سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ملک کے وجود اور سالمیت کے لیے سیاسی جماعتوں کا وجود بہت ضروری ہے، یہ سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں جو عوام کو ایک نصب العین اور واضح پروگرام دے کر انھیں منظم کرتی ہیں، پھر سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے نصب العین کو عملی شکل عطا کرتی ہیں۔ اس لیے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ان کا وجود بہت ضروری ہے۔

سیاسی جماعتوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی، نتیجے میں ملک محفوظ رہا۔ جنرل یحییٰ خان نے سیاسی جماعت نہیں بنائی، نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔

ہمارے ملک کے وہ نام نہاد دانشور جو چند سیاست دانوں کی کرپشن اور دیگر خرابیوں کو بنیاد بناکر تمام سیاست دانوں کو عوام کی نگاہ میں قابل نفرت بناتے ہیں ان ارسطو اور بقراطوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ایک فوجی جنرل بھی کرپٹ ہوسکتا ہے اور ایک جج بھی۔ ایک دانشور یا صحافی بھی کرپٹ ہوسکتا ہے اور ایک عالم دین بھی۔ اس لیے عوام میں یہ تاثر دینا کہ صرف سیاست دان ہی کرپٹ ہوتے ہیں کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ ان افلاطونوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے اس عمل سے عوام میں سیاست سے بیگانگی کا کلچر فروغ پا رہا ہے، جو ملک اور قوم کے لیے کسی بھی لحاظ سے مفید نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔