85 سال کی عمر میں بھی، بوجھ نہیں، بلکہ مددگار

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 3 مارچ 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

رگِ جاں کو بے دردی سے کاٹتی ہوئی سرد ہوا، ابر آلود موسم اور اس چوراہے پر چھوٹے بڑے مشینی جانور چیختے چلاتے، بھاگتے دوڑتے۔

فضا گرد آلود، سکوں نابود، خود کو آفاتِ ارضی و سماوی سے بچانے کی کوشش میں ہلکان آدم زاد ۔ اپنے پیٹ کا جہنم سرد کرنے کی تگ و دو میں دیوانہ وار سرگرداں اور جیون کا بار گراں اٹھائے ہوئے آدمی۔ فٹ پاتھ پر ٹوٹی پھوٹی، لرزاں و ناتواں میز اور اس پر سلیقے سے سجائی ہوئی ریزگاری، اور اک بزرگ بابا ۔ عجیب سا کام چُن لیا ہے انہوں نے، بسوں ، ویگنوں کے کنڈیکٹروں ان سے ریزگاری لیتے اور نوٹ تھماتے رہتے ہیں ۔ بس سکوں، نوٹوں اور زر کی الٹ پھیر۔

بہت دیر تک میں انہیں دیکھتا رہا۔ وہ ایک کرسی پر سکڑے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، خود کو ہوا سے بچانے کے لیے کوٹ میں لپٹے ہوئے اور گرد سے بچنے کے لیے پورے چہرے کو مفلر میں چھپائے ہوئے، بس ان کی آنکھیں نظر آرہی تھیں وہ بھی موٹے شیشے کی عینک کے عقب سے۔ میں آگے بڑھا تو انہوں نے چونک کر دیکھا اور پھر وہی جو ہوتا ہے، بندہ بشر کب تک خاموش رہ سکتا ہے۔

کیسے ہیں آپ اور کیا کر رہے ہیں؟

میں نے ہوا میں سوال اچھال دیا تھا، پھر ساکت جھرنا رواں ہوا۔

کام کر رہا ہوں بیٹا! دیکھ نہیں رہے تم کیا؟

مسکرائے اور پھر اپنی کتھا کہانی سنانے لگے۔

میرا نام عبدالرزاق خان ہے۔ 1928 میں انڈیا کے شہر اجمیر میں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب کا نام عبدالغفار خان تھا اور وہ فوج میں حوا ل دار میجر تھے، ریٹائر ہونے کے بعد وہ بیکانیر میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس ہوگئے تھے۔ میرا بچپن بہت اچھا تھا، ہرے بھرے کھیت، پھلوں سے لدے پھندے باغات، خالص اور صحت بخش اجناس سے بھری پری منڈیاں، رنگ برنگے تہوار، خلوص و اپنائیت، غم و فکر کا تو نام بھی نہیں جانتا تھا کوئی۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کے سب آپس میں گندھے ہوئے، کوئی مسئلہ ہی نہیں، دکھ  سکھ سانجھا، شادی بیاہ، غم خوشی سب سانجھا ۔ سب اک دوجے پر نثار، بہت ہی اچھا وقت تھا، اب بھی یاد کرتا ہوں اس دور کو، بہت شان دار، بہت ہی سنہرا سمے۔

میں نے ہوش سنبھالا تو اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ سارے ہی استاد بہت اچھے تھے ہمارے، وہ تعلیم کو بہت مقدس اور عظیم کام سمجھتے تھے، بہت مہان سمجھا جاتا تھا استاد کو، سب سے زیادہ عزت و تکریم استادوں کی تھی۔ ہم اپنے استادوں کی اپنے والد سے بھی زیادہ عزت و ادب کرتے تھے، اور ہم ہی کیا سارا سماج۔ یہی وجہ تھی کہ استاد بھی اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے اور انہیں بہت جاں فشانی سے زیور تعلیم سے آراستہ کرتے تھے۔

1943 میں پرائمری پاس کی، اس وقت زیادہ پڑھنے کا رواج نہیں تھا، لیکن ہمارے زمانے کا پرائمری پاس آج کے دور کے بارہویں پاس کا مقابلہ کرسکتا ہے، تم ہنس رہے ہو۔ صحیح کہہ رہا ہوں میں۔ ابھی کوئی یہاں سے لکھا پڑھا نوجوان گزرے تو اس سے بلا کر پوچھو۔ ڈگری ضرور ہوگی لیکن آتا جاتا کچھ نہیں ہوگا۔ تم تو اخبار والے ہو، مجھ سے زیادہ جانتے ہو، غضب خدا کا بھئی!  جعلی ڈگری لے کر اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر ہم نے یہ بھی سنا  ڈھٹائی سے کہتے ہیں، ڈگری اصلی ہو یا جعلی، ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے۔

تو یہ ہے آج کی تعلیم۔ تعلیم انسان کو باادب بناتی ہے، باشعور اور باذوق بناتی ہے۔ نیک و بد میں تمیز سکھاتی ہے، تعلیم انسان کو اشرف اور اکرم بناتی ہے، عزت دینے والا اور ہر دل عزیز بناتی ہے۔ تعلیم انسان کو فرش سے عرش پر پہنچاتی ہے۔ یہ کیسی تعلیم ہے، جو انسان کو خود غرض بنائے، بے ادب و بے حیا بنائے؟ نہیں یہ اور کچھ تو ہوسکتی ہے تعلیم نہیں ہوسکتی، تعلیم نہیں کہلاسکتی۔ ہمارے استادوں نے بہت محنت کی ہم پر۔ وہ تعلیم کو ایک مقدس کام سمجھتے تھے اور یہ ہے بھی مقدس اور عظیم کام۔ اب تو تعلیم کاروبار ہے اور کاروبار تو کاروبار ہوتا ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب آزادی کی تحریک شروع ہوچکی تھی، ہر طرف جلسے، جلوس، اس میں زندگی کے معمولات بھی متاثر ہونا شروع ہوئے۔ میں پرائمری سے زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ جب کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تو بہت ساری چیزیں، خیالات مسمار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بحث و مباحثہ شروع ہوتا ہے۔ وہاں بھی شروع ہوا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے تحریک آزادی عروج پر پہنچ گئی۔ شرو فساد تو ہونا ہی تھا، سو وہاں بھی ہوا۔ اور ہم اپنے پیارے پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم وہاں سے بذریعہ ٹرین براستہ کھوکھراپار میرپورخاص پہنچے اور نئی زمین پر قدم رکھا۔ جو ہماری تھی، جس کے لیے ہم نے خواب دیکھے تھے، اتنی ساری جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اب ہم اپنے خوابوں کی سرزمین پر تھے۔

مسائل تو بہت تھے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے تھے ، لیکن خوشی تھی، سرشاری تھی کہ جو چاہا مل گیا۔ ہم نے میرپورخاص کو اپنا مسکن بنایا، اتنا کاروبار تو تھا نہیں۔ میں نے فوج میں درخواست دی اور پاکستانی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ میں نے فوج کا انتخاب اس لیے بھی کیا تھا کہ اپنے عظیم ملک کو دشمنوں سے بچانے کے لیے اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔ آزادی حاصل کرنا ایک لحاظ سے آسان ہوتا ہے، آزادی کو برقرار رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ پاکستانی فوج کا سپاہی بن کر میں بہت خوش اور مطمئن تھا۔ میں نے پاکستان کے چپے چپے پر خدمات سرانجام دی ہیں۔ پورے پاکستان کو دیکھا ہے، چاہا ہے، محسوس کیا ہے۔ یہ کوئی عام ملک نہیں ہے، عطائے ربّ جلیل ہے یہ ملک ۔

میری عمر 24 سال تھی کہ میری شادی کردی گئی ۔ اس وقت سب کچھ آسان تھا، شادی بیاہ، خوشی غمی سب کچھ آسان۔ اس لیے کہ سادگی تھی، سب کچھ سانجھا تھا۔ سب اک دوجے کے دست و بازو تھے۔ رشتوں کے لیے بھی اتنی مصیبت نہیں جھیلنی پڑتی تھی۔ بس ماں باپ نے جو طے کردیا، وہی صحیح ہوتا تھا۔ اس دور کے تقاضے الگ تھے، آج کے تقاضے الگ ہیں، زمانہ تو آگے کی طرف سفر کرتا ہے۔ آج لڑکا اور لڑکی خود طے کر لیتے ہیں، ایک طرح سے یہ صحیح بھی ہے کہ زندگی تو انہوں نے ہی گزارنی ہوتی ہے اور پھر یہ حق انہیں اسلام نے بھی دیا ہے۔ رسوم و رواج تو بدلتے رہتے ہیں، خیر میری شادی ہوگئی ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے۔

ماشاء اللہ سب کے سب برسر روزگار ہیں اور شادی شدہ، سب اپنے گھر کے ہوگئے ہیں۔ سب میری بہت خدمت کرتے ہیں ۔ لیکن جو خدمت بیوی کرسکتی ہے وہ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ اچھی بیوی اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے، میری بیوی بہت اچھی تھی، اس نیک بخت کا انتقال ہوگیا ہے، اب میرا جی نہیں لگتا کسی کام میں بھی۔ بیوی تو بیوی ہوتی ہے ناں۔ اس ماحول میں دل بہت گھبراتا ہے، اب سوچتا ہوں اور گہری اداسی میں اتر جاتا ہوں کہ یہ وہ پاکستان تو نہیں ہے، جس کے لیے اتنا خون بہا، اتنی ماؤں کی گود اجڑی، لاکھوں خاندان تقسیم ہوگئے، تم تو جانتے ہو کہ کیا کچھ قربان کرنا پڑا۔ اب دیکھتا ہوں، وہاں تو ہم سب ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ساتھ رہتے تھے اور اب یہاں دیکھتا ہوں تو کلیجہ کٹ جاتا ہے۔

یہ مہاجر ہے، وہ پٹھان ہے، پنجابی ہے، سندھی ہے، بلوچی ہے، یہ کوئی نہیں کہتا ہم پاکستانی ہیں ۔ جس کو دیکھو اپنا حق مانگتا ہے اور اپنے فرائض سے بالکل غافل ہے، سیدھا سا اصول ہے سب لوگ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کردیں، سب کے حقوق خودبخود ادا ہونے شروع ہوجائیں گے۔ لیکن اب یہ بات سمجھائے کون اور پھر سمجھنے پر کوئی تیار بھی تو ہو۔ جس بات پر احتجاج کرنا چاہیے اس پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں، اتنی منہگائی ہے، اس پر کوئی نہیں احتجاج کرتا، کوئی لانگ مارچ اور دھرنا نہیں دیتا۔ میرے زمانے میں ایک روپے کا 32 کلو اناج تھا، بکرے کا گوشت 6 آنے کا ایک سیر۔ ایسے ہی سب کچھ سستا تھا، اب 40 روپے کلو آٹا ہے، باقی تو تم چھوڑ دو۔

کوئی شے بھی خالص نہیں ہے، ویسے سب مسلمان بنے پھرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ملاوٹ کرنے والا، کم تولنے والا، ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ کون سا  برا کام رہ گیا ہے، جو ہم نہیں کرتے، اور بنے پھرتے ہیں مسلمان۔ اس دور کے خطیب صاحبان بھی ان مسائل پر نہیں بولتے، کوئی بو لتا بھی ہے تو اثر نہیں ہوتا اور اثر کیسے ہو، جو لوگ تبلیغ کر رہے ہیں وہ خود ان پر عمل نہیں کرتے، تبلیغ تو عمل کا نام ہے، ورنہ تو بس خالی خولی باتیں ہیں۔ پانی تک خالص نہیں ہے، آلودہ پانی، آلودہ خوراک سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔

ہمارے زمانے میں ایک صاحب کو تپ دق ہوگئی تھی اور سارا شہر حیران و پریشان اسے دیکھنے جاتا تھا، یہاں تو اب ہر ایک بیمار ہے۔ یہاں تو انسان بھی خالص نہیں رہا، محبت و انسیت ختم ہوگئی ہے، یگانگت بس لفظ رہ گیا ہے، خودغرضی، نفس پرستی کا چلن عام ہے، بہت جلتا کڑھتا ہوں میں یہ سب دیکھ کر۔ آئے دن ہڑتال، روزانہ درجن بھر لوگ گولیوں کا شکار، انسان پاگل نہ ہو تو پھر اور کیا ہو؟ روزگار ہے نہیں تو ظاہر ہے بھوک ہے، بھوک لاکھ برائیوں کی جڑ ہے۔

ایک وقت تھا کوئی بچہ گھر سے ناراض ہوکر باہر فٹ پاتھ پر آکر بیٹھ جاتا تھا، پورا محلہ اسے سمجھا تا تھا، پڑوسی اپنے گھر لے جاتے تھے، کوئی زیادہ ہی ضدی ہوتا تو فٹ پاتھ پر ہی سوجاتا تھا، کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، اب تو کوئی گھر سے باہر جائے، چاہے پڑوس کی دکان تک ہی جائے، جب تک واپس نہ آئے تو جان اٹکی رہتی ہے۔ ہر طرف موت ہی موت ہے۔ میں بھی کیا تقریر کرنے بیٹھ گیا۔ تم نے بات شروع کی تو بس جی چاہا سب کچھ کہہ دوں ۔ جب میری بیوی کا انتقال ہوگیا تو جی اچاٹ ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ اب بے کار بیٹھ کر کیا کروں، جتنا سوچوں گا اتنا ہی جَلوں گا۔ ایک دن میں نے ایک آدمی کو دیکھا وہ ریزگاری لیے بیٹھا تھا، جس طرح میں رکھے بیٹھا ہوا ہوں، تو اس سے پوچھا یہ کام کیسے ہوتا ہے؟

اس نے احسان کیا، بتادیا کہ ایسے ہوتا ہے، تو میں نے یہ کام شروع کردیا۔ میں محلے کی دکانوں سے (نوٹ دے کر) ریزگاری لیتا ہوں، پھر بچے بھی جو پیسے جمع کرتے ہیں وہ لاکر مجھے دے کر نوٹ لے جاتے ہیں، اور مزے کی سنو بھکاری بھی ریزگاری لاکر دیتے ہیں۔ اس طرح ریزگاری میرے پاس جمع ہوجاتی ہے اور میں اسے 50 ، 100 کی گن کر سجاکے رکھ دیتا ہوں، کوئی سو روپے کی ریزگاری لے تو دس روپے میں لیتا ہوں، تم سمجھو کہ سو روپے میں نوے روپے کی ریزگاری دیتا ہوں، بسوں ویگنوں والے دن بھر لیتے رہتے ہیں، بس اس طرح کام چلتا رہتا ہے۔

اب میری عمر  85 سال ہوگئی ہے۔ احسان ہے مالک کا اب تک تو چنگا بھلا ہوں، آگے بھی اﷲ مالک ہے۔ صبح 8 بجے اپنے کام پر پہنچ جاتا ہوں، دوپہر ایک سے تین بجے تک وقفہ کرتا ہوں، پھر تین سے رات 8 بجے تک یہ کام۔ پھر محلے کی دکانوں سے ریزگاری جمع کرکے گھر چلا جاتا ہوں، دن بھر میں چار پانچ سو روپے تو مل ہی جاتے ہیں۔ کسی پر بوجھ نہیں ہوں بلکہ گھر والوں کی بھی مدد ہوجاتی ہے۔ منہگائی نے جینا دوبھر کردیا ہے، اچھا لگتا ہے کہ اپنے بچوں کا ہاتھ بٹاتا ہوں ۔ کسی کو دکھ نہیں دیتا۔ مجھے اپنی عمر کے لوگوں سے بس یہ کہنا ہے کہ فضول مت سوچیں اور اگر سوچیں تو بھلائی کا سوچیں، گھر میں بھی بلاوجہ لوگوں کو مت ڈانٹیں۔ اس دور کے تقاضوں کو سمجھیں، پیار سے بات کریں، ہر وقت کی نصیحتیں بھی اچھی نہیں ہوتیں، انسان اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔ کچھ نہیں کرسکتے تو لوگوں کے لیے اور خاص کر گھر والوں کے لیے باعث آزار و اذیت تو نہ بنیں۔ زندگی کی آخری سانس تک اچھا سوچیں۔

کتنے بھلے انسان ہیں عبدالرزاق خان۔ ہاں ایسے ہی نادر وکم یاب لوگوں کے دم سے سجی ہوئی ہے زندگی۔ ایسے لوگ نہ ہوں تو تاریکی کس قدر منہ زور ہوجائے۔

کو ئی جگنو ہی سہی ساتھ سفر میں رکھنا

تیرگی کو کبھی بے باک نہ ہونے دینا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔