عقیدۂ آخرت

’’ سو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے۔‘‘


October 27, 2017
آج ہم مسلمانوں میں ظلم و زیادتی، لوٹ کھسوٹ، شراب نوشی، سود اور رشوت اسی لیے عام ہے کہ ہمارا آخرت کا تصور ہی کم زور ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: شریعت کی اصطلاح میں آخرت سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن ختم ہو جائے گی۔ اور مرنے کے بعد ایک دن تمام لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ان کے اعمال کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس بات پہ بغیر کسی شک و شبہ کے یقینِ کامل رکھنے کو عقیدۂ آخرت کہتے ہیں۔

قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، مفہوم: '' جن لوگوں نے نیک کام کیے، پس ان کے لیے ان کے رب کے ہاں اجر ہے۔ ''

ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے، مفہوم :

'' سو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے۔'' (المومنون )

اسی طرح آخرت کی قدر و قیمت کے بارے میں احادیث بھی موجود ہیں۔

سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ کا ارشادِ پاک ہے، مفہوم : '' ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کے رسولوں کو، اور آخرت کے دن کو حق جانو اور مانو اور اس بات کو بھی مانو کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے چاہے وہ خیر ہو یا شر۔'' (مسلم )

آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے سوال کے جواب میں فرمایا:

'' جس سے حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوا۔ '' ( مسلم )

جب تک موت کی حقیقت معلوم نہیں ہوگی اس وقت تک کوئی شخص آخرت کو نہیں پہچان سکتا۔ اور موت کی حقیقت کا دار و مدار زندگی کی حقیقت جاننے پر منحصر ہے۔ جب کہ زندگی کی حقیقت روح کی حقیقت معلوم کرنے پر ہوگی۔ اور روح کی حقیقت کا انحصار اپنے نفس کی حقیقت جاننے پر ہے۔

آخرت کا تصور ہی وہ محور ہے جس کے گرد تمام عبادتیں گردش کرتی ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری تمام عبادتوں کا آخرت کے یقین، اللہ کے نزدیک جواب دہی کے احساس اور مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے کے عقیدے سے گہرا ربط ہے۔ اگر آخرت کا یقین نہ ہو تو گرمی کے موسم میں چلچلاتی دھوپ میں اور سردی کے موسم میں سخت سردی کی شدت کے اوقات میں نماز کی تیاری کرنا انتہائی مشکل اور ناممکن ہی ہو۔ رمضان کے ایام میں بھوک و پیاس کی شدت اور اپنی محنت کی حق حلال کی کمائی میں سے زکوٰۃ و صدقات کے نام پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حیران کن عمل اسی لیے آسان لگتا ہے کہ موت کے بعد کی دائمی زندگی پر ہمارا ایمان مضبوط ہے۔

یعنی ہمارے مرنے کے بعد ہر اچھے برے عمل کا حساب ہوگا اور ہمارے ان اعمال کے مطابق ہی جزا و سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کفارِ مکہ کے سامنے بے شمار معجزات پیش کیے گئے مگر انہیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین نہ ہوا۔ وہ کہتے تھے جو قرآن حکیم نے ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ '' جب ہم مر جائیں گے، مٹی بن جائیں گے۔ ہماری ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو جائیں گی۔ تو پھر دوبارہ ہمیں زندہ کیا جائے گا۔'' (الوقعہ) دلائل کی کثرت کے باوجود بھی آخرت کے تصور پر یقین نہ رکھنے کی وجہ سے انہیں کبھی ایمان نصیب نہ ہوا اور نہ ہی وہ اپنی بُری حرکتوں سے باز آئے۔

آج ہم مسلمانوں میں ظلم و زیادتی، لوٹ کھسوٹ، شراب نوشی، سود اور رشوت اسی لیے عام ہے کہ ہمارا آخرت کا تصور ہی کم زور ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہمیں کسی گرفت کسی پکڑ کا احساس ہی نہیں ہوگا یا ہو بھی تو برائے نام ہو، تو خواہشات پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ ایک طاقت ور انسان جب کسی کم زور پر ظلم کر رہا ہو لیکن اس کو یہ احساس ہوجائے کہ قیامت کے دن مجھ سے اس عمل کا حساب لیا جائے گا تو یقینا وہ اپنی حرکت سے باز آجائے گا۔ اسی طرح کوئی بھی گناہ کرتے ہوئے آخرت میں سب کے سامنے ذلت و رسوائی کے خوف سے دنیا میں ہی گناہوں سے بچا جاسکتا ہے۔

یہی فکرِ آخرت ان صحابہ ؓ کو بھی تھی جن کی داخل جنّت ہونے کی خبر خود رسولِ پاک ﷺ نے دی تھی۔ ان کے نیک اعمال، تقویٰ و طہارت کی قسم کھائی جا سکتی تھی۔ لیکن جب کبھی ان سے بھولے سے بھی کوئی معمولی سا گناہ بھی ہو جاتا تھا تو وہ بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے غلام کی مشتبہ کمائی میں سے کچھ حصہ کھا لیا تھا۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے تحقیق کا خیال نہ رہا تھا۔ غلام نے کھا لینے کے بعد جب اطلاع دی تو سخت پریشان ہوئے۔ اور منہ میں انگلیاں ڈال کر قے کر دی اور فرمایا: ''میں نے رسولِ پاک ﷺ سے سنا ہے کہ جو جسم حرام سے پرورش پائے اس کے لیے دوزخ کی آگ بہت مناسب ہے۔ مجھے ڈر ہوا کہ اس لقمہ سے میرے جسم کا کوئی حصہ پرورش نہ پاجائے۔''

اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: '' کل حشر کے میدان میں اگر یہ اعلان ہو کہ ایک شخص کے سوا سب جہنم میں جھونک دو تو مجھے خدا کی رحمت سے امید ہے کہ جہنم سے بچنے والا وہ ایک شخص میں ہی ہوں گا۔ اور اگر یہ اعلان ہو جائے کہ ایک شخص کے سوا سب کو جنت میں لے جاؤ تو اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے مجھے یہی اندیشہ ہے کہ خدا نہ خواستہ وہ شخص میں ہی ہوں گا۔''

حضرت عمر فاروقؓ کے یہ الفاظ پڑھ کر عقیدۂ آخرت پر ایمان مکمل ہوتا نظر آتا ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کے عظیم خلیفہ بنے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے اندر آخرت کے لیے یہی کیفیت پیدا کریں تاکہ رضائے الہی ہمارا مقدر بنے اور ہم آخرت میں سرخ رو ہو سکیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کے دل و دماغ میں آخرت کا تصور مضبوط ہوجائے اور اللہ کے خوف اور یادِ الہی سے ہمارے سینے معمور ہو جائیں۔ جو زندگی گزر چکی ہے اس کی اصلاح تو نہیں ہوسکتی لیکن زندگی کے جو ایام باقی ہیں ان کو فکرِ آخرت میں گزار کر ہم اللہ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔

عظمٰی علی

مقبول خبریں