جمہوری ڈھانچے کی ازسر نو تشکیل
انسانوں کے سیاسی ارتقا کی تاریخ میں جمہوریت کو ایک منفرد اور کامیاب نظام کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
انسانوں کے سیاسی ارتقا کی تاریخ میں جمہوریت کو ایک منفرد اور کامیاب نظام کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پتھرکے دور سے آج تک جتنے نظام انسانی معاشروں میں روشناس ہوئے ان میں جمہوریت کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ انسان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ ''قوت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں'' ۔ جمہوریت کا مطلب ''عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے'' اس تعریف کا بنیادی مقصد عوام کی اجتماعی طاقت کو تسلیم کرنا اور ماضی کے غلام انسان کو آزاد اور خودمختار انسان کی حیثیت میں بدلنا تھالیکن المیہ یہ ہے کہ جمہوریت خود جمہوریت کو متعارف کرانے والے دانشوروں کی متعین کردہ تعریف پر پوری نہیں اترتی ۔پسماندہ ملکوں میں جو جمہوریت رائج ہے وہ اپنی اصل میں ایک چھوٹے سے مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کی محافظ بن گئی ہے ۔ سیاست جمہوریت اور اقتدار چند خاندانوں کی میراث بن گئی ہے ۔ہمارے اہل فکر اس حقیقت پر سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اصل نظام اقتصادی نظام ہوتا ہے جو اپنے مظالم کو چھپانے کے لیے کوئی نہ کوئی لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ بھاپ کی دریافت کے بعد دنیا میں جو نظام رائج ہوا اسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کے ذرایع ابلاغ نے جمہوریت کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا کہ دنیا کے اہل علم، اہل دانش بھی اس دھوکے میں آگئے۔ جمہوریت سیاسی ارتقا کی آخری منزل نہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے جمہوری ماہرین کا یہ استدلال بڑا مضحکہ خیز ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہی جمہوریت کی خرابیوں کو ٹھیک کرسکتا ہے پاکستان میں جمہوریت کے ثمرات سے عوام کی محرومی کو جمہوریت میں بار بار فوج کی رخنہ اندازی قرار دیا جاتا ہے۔
بھارت میں 65 سال سے جمہوریت تسلسل کے ساتھ رواں دواں ہے اگر جمہوریت کا مقصد عوامی مسائل کا حل ہے تو بھارت کے عوام 66 سال سے غربت، بھوک، بیماری، جہالت، بے روزگاری کی لعنتوں میں اس طرح کیوں پھنسے ہوئے ہیں جس طرح پاکستان کے عوام پھنسے ہوئے ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت کی معاشی ترقی کے راگ الاپے جاتے ہیں اگر بھارت میں معاشی ترقی ہورہی ہے تو اس کے ثمرات سے عوام کیوں محروم ہیں اور چند ہاتھوں میں 80 فیصد دولت کیوں جمع ہورہی ہے؟
جب تک ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے کہ ہر ظالمانہ اقتصادی نظام اپنے مظالم کو عوام اور خواص کی نظروں سے چھپانے کے لیے کوئی نہ کوئی پرفریب لبادہ اوڑھ رکھتا ہے ہم اس لبادے سے دھوکا کھاتے رہیں گے۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ داروں کے لیے وضع کیا گیا۔ اور یہ نظام روز اول سے سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت کر رہا ہے۔ اور ان مفادات کے تحفظ کے لیے اس نظام کے شاطروں نے ریاستی اداروں پولیس، فوج، رینجرز، قانون، انصاف، انسانی حقوق وغیرہ کے جو ادارے عوام کی محنت کی کمائی پر کھڑے کیے ہیں کیا وہ عوام کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہر ذی شعور جانتا ہے۔ یہ تمام ادارے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بڑے تاجروں، کارخانہ داروں سمیت ہر اس طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں جو ناجائز طریقوں سے دولت کے انباروں کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ غریب آدمی کو ان تمام ریاستی اداروں میں اس طرح جکڑ کر رکھا جاتا ہے کہ وہ اس سے نجات کے لیے عموماً مسجدوں، مندروں، گرجا گھروں میں جاکر خدا سے ان مصائب سے نجات کی دعا مانگتا ہے اور اس نظام کے ایجنٹ عوام کے ان مصائب کو تقدیر کا لکھا قرار دے کر اسے عوام کے ناکردہ گناہوں کی سزا قرار دیتے ہیں اور اپنے ناکردہ گناہوں سے معافی کی تلقین کرتے ہیں۔ آج بعد نماز عید جب میں نے امام کو یہ دعا مانگتے دیکھا ''اے خدا! تو ہی ہمیں بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری سے بچا سکتا ہے'' تو میں اس سرمایہ دارانہ نظام کی کرامات پر حیران رہ گیا۔
مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں سیکڑوں سالوں سے جمہوریت رائج ہے۔ لیکن اس المیے کا کیا جواز ہوسکتا ہے کہ ان ملکوں میں بھی غربت، بے روزگاری، مہنگائی عام ہے اور ان مظالم کے خلاف ان ملکوں کے عوام بھی سڑکوں پر آرہے ہیں۔ پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں ترقی یافتہ ملکوں میں غربت ، بھوک، افلاس، بے روزگاری اتنی شدید نہیں لیکن دو ڈھائی سو سال کے بعد بھی ان ملکوں کے عوام نے جو ترقی حاصل کی وہ اتنی ہے کہ انھیں زندگی کی ضروریات قسطوں میں حاصل کرنے کی سہولت حاصل ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ ان ملکوں کو معاشی بحرانوں نے اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ عوام کی زندگی اور دشوار ہورہی ہے۔
اس استحصالی نظام کے آغاز کے ساتھ ہی ''قومی مفادات'' کے نام پر ایک ایسا کلچر پیدا کیا گیا جس نے عوام میں اپنے ملک اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حرمت پیدا کی اور اس حرمت کے تحفظ کے لیے انھیں کٹ مرنے کی ترغیب فراہم کی اور قوموں اور ملکوں کے درمیان فاصلے پیدا کیے عوام کو ایک دوسرے سے نفرت پر مجبور کیا۔ جغرافیائی سرحدوں اور قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر لاکھوں افراد پر مشتمل فوج بنائی اور فوج کو مسلح کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے پر مجبور کیا۔ علاقائی تنازعات مذہبی تفاوت پیدا کرکے ملکوں کو جنگ کی طرف دھکیل دیا گیا اس طرح دفاعی صنعتوں میں تیار کیے جانے والے کھربوں ڈالر کے جدید ترین اسلحے کی فروخت کی راہ ہموار کی۔ اگر دفاع کے نام پر خرچ کیا جانے والا اربوں ڈالر کا سرمایہ ہی بچا لیا جائے تو دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
یہ سارا مکروہ کھیل جمہوریت کے پردے میں کھیلا جارہا ہے جو عملاً ایک چھوٹے سے اشرافیائی طبقے کے مفادات کی محافظ ہے جمہوریت کی اگر کوئی اصل روح ہوسکتی ہے تو وہ ''معاشی انصاف'' ہوسکتی ہے اور جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے معاشی انصاف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آج ساری دنیا میں سیاسی اشرافیہ نے کھربوں ڈالر کی جو لوٹ مار مچائی ہے اس کے خلاف ساری دنیا میں ایک اضطراب اور بے چینی نظر آرہی ہے جسے جمہوریت اس لیے ختم نہیں کرسکتی کہ خود جمہوریت کے علمبردار اور محافظ اس لوٹ مار میں سرفہرست ہیں اگر دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہے اور عوام کو معاشی انصاف فراہم کرنا اور انھیں بااختیار بنانا ہے تو جمہوریت کے موجودہ کرپٹ ڈھانچے کو سر سے پیر تک بدل کر اسے صحیح معنوں میں ''عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے'' بنانا ہوگا۔ جمہوریت کے عاشقوں کو جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے بجائے ایسی جمہوریت کو رواج دینے کی کوشش کرنا چاہیے جس کی تعریف خود جمہوریت کے سرپرستوں نے کی ہے۔