نظریاتی سیاست کے خاتمے کا اثر پی ٹی آئی پر بھی آرہا ہے، حامد خان

غلام محی الدین / رانا نسیم  اتوار 26 نومبر 2017
آج کی عدلیہ ماضی کی نسبت طاقتور ہے‘ ممتاز قانون دان اور تحریک انصاف کے بانی رہنما حامدخان سے بات چیت۔ فوٹو: ایکسپریس

آج کی عدلیہ ماضی کی نسبت طاقتور ہے‘ ممتاز قانون دان اور تحریک انصاف کے بانی رہنما حامدخان سے بات چیت۔ فوٹو: ایکسپریس

کسی بھی ملک یا معاشرے میں آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے رکھوالے خود یہ نہ چاہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں آئین و قانون کی حفاظت کے ذمہ دار ہی متعدد بار اس کشتی میں سوراخ کرنے کے مرتکب ہوئے، لیکن ایسے لوگ بھی ہر دور میں موجود رہے جنہوں نے بدترین جبر کے ماحول میں قوم کی درست سمت میں رہنمائی کا حق ادا کیا‘ انہی لوگوں میں سے ایک نام حامد خان کا بھی ہے، جن کی اصول پسندی کے دوست ہی نہیں دشمن بھی قائل ہیں۔

سینئرقانون دان اور سیاست دان 16 اپریل 1946ء کو بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیارپور میں پیدا ہوئے، ان کے والد غلام حسن خان پولیس میں ایس پی تھے، جنہوں نے بھارت سے ہجرت کرکے سندھ میں بسیرا کیا، حامد خان نے حیدرآباد کے ایک سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، جس کے بعد وہ لاہور چلے آئے۔ گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کی، جس کے بعدپنجاب یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف النوائے (امریکا) سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ آج وہ ملکی و غیر ملکی معروف اداروں میں قانون پر لیکچر دیتے ہیں۔ 30 سال سے زائد عرصہ پر محیط کیرئیر رکھنے والے حامد خان کو قانون کی دنیا میں وہ سب کچھ ملا، جس کی کوئی بھی قانون دان خواہش رکھتا ہے۔ وہ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پنجاب بار کونسل، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ سمیت متعدد اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ پانچ کتابوں

A History of the Judiciary in Pakistan  (2016)

Principles of Administrative Law (2012)

Constitutional and Political History of Pakistan (2001)

The Islamic Law of Inheritance (1999)

(1990)  Administrative Tribunals for civil Servantsکے مصنف بھی ہیں، ان میں سے تین (Islamic Law of Inheritance، Principles of Administrative Law، Administrative Tribunals for civil Servants) لاء سکولز میں  بطور ٹیکسٹ بک پڑھائی جاتی ہیں جبکہ ایک (Constitutional and Political History of Pakistan)ایل ایل ایم کی سطح پر پڑھائی جاتی ہے، ان کے علاوہ ایل ایل ایم کے کورس میں بھی ان کے قانونی کام سے معاونت حاصل کی جاتی ہے۔ جمہوری روایات کے امین حامد خان نے نہ صرف جنرل ایوب، جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف آواز بلند کی بلکہ جنرل مشرف نے جب عدلیہ کو تابع کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بطور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھرپور مزاحمت کی، وہ آمریت اور تاشقند معاہدے کے خلاف مظاہروں میں بھی پیش پیش ہوتے تھے۔

وکلاء تحریک کے اس روح رواں کو اپنے مصمم ارادے اور مخلص ساتھیوں کی مدد سے عدلیہ بحالی تحریک میں کامیابی حاصل ہوئی۔ 25 اپریل 1991ء کو جب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ان کے ساتھ کندے سے کندھا ملانے والوں میں حامد خان پیش پیش تھے۔پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نے 2013ء میں خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں الیکشن لڑا، جو وہ ہار تو گئے، لیکن سیاست کے میدان میں بھی انہوں نے اصول پسندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پاناما کیس میں تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے سربراہ کو بعدازاں اس سے الگ ہونا پڑا، لیکن وہ اس کیس کی گہرائیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے سینئر قانون دان و سینئر مرکزی نائب صدر تحریک انصاف سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: پاکستان تحریک انصاف اپنے نام کی طرح انصاف اور میرٹ کا جو منشور لے کر چلی تھی، کیا وہ آج بھی اس پر قائم ہے؟ کیوں کہ جب ہم جسٹس وجیہ الدین جیسے معاملات کو دیکھتے ہیں تو عام لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی جب پارٹی کے اندر انصاف نہیں کر پا رہی تو اقتدار میں آ کر کیسے کرے گی؟

حامد خان: سیاسی جماعتیں بہت سارے مراحل سے گزرتی ہیں، میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہماری پارٹی میں پریفکشن ہے اور ہر دور میں اس کے فیصلے درست رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آئندہ بھی درست نہیں ہوں گے۔ پارٹی کا جو منشور ہے، وہ اپنی جگہ قائم ہے، پارٹی کا آئین، پارٹی کے اغراض و مقاصد اپنی جگہ قائم ہیں، جن میں انصاف اولین ترجیح ہے۔

یہ مجھے عزت حاصل ہے کہ پارٹی کے آئین کے لئے جو پہلی کمیٹی بنائی گئی، اس کا سربراہ میں تھا، پھر 1999ء میں جب اس پر نظرثانی کی گئی تو اس وقت بھی میں نے ہی اسے ہیڈ کیا اور اب جو موجودہ آئین ہے، جس کی 2012ء میں تجدید کی گئی، اس کمیٹی میں بھی شامل تھا، جس میں میرے ساتھ جسٹس وجیہ الدین بھی تھے۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ہمارے یہی اغراض و مقاصد قائم ہیں، انشاء اللہ پارٹی درست سمت پر چلتی رہے گی، تاہم بیچ میں کچھ ایسے معاملات ہوئے ہیں، جو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ ہوتے تو اچھا تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں پارٹی اپنی پٹڑی سے اتر گئی ہے۔

ایکسپریس: وکلاء تحریک کے مخالف، فوجی حکمرانوں کے ساتھی اور پارٹیاں بدلتے رہنے والے آج تحریک انصاف کے ترجمان ہیں، اس پر آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟

حامد خان: مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے اور میں نے عمران خان سے بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ ایسے لوگوں کا تحریک انصاف میں کوئی کام نہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو مشرف کی باقیات ہیں۔

ایکسپریس: تو خان صاحب نے اس بارے میں کیا کہا ، ان کے بارے میں تو ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ کسی کی سنتے نہیں؟

حامد خان: نہیں ایسی بات نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم کسی کے لئے بھی پارٹی کے دروازے بند نہیں کرسکتے، سب کو اس میں آنے کا حق حاصل ہے۔

ایکسپریس:خاندانی سیاست کی بات ہو یا من پسند افراد کو نوازنا، تحریک انصاف نے روایتی سیاسی پارٹی کی نفی کا تاثر دیا، لیکن افسوس آج اس میں گروپنگ بھی ہو رہی ہے اور ٹکٹوں کی خریدوفروخت بھی ہوئی۔ کیا کہیں گے؟

حامد خان: دیکھیں! گروپنگ تو ہر پارٹی میں ہوتی ہے، یہ تو ایک انسانی فطرت ہے کہ ہر ایک کی سوچ مختلف ہوتی ہے۔ گروپنگ ہونا کوئی بری بات نہیں، دیکھیں! کوئی اچھائی کا گروپ ہو گا تو وہ برائی کے گروپ کو روک سکے گا، اگر گروپنگ نہ ہو تو پھر تو یہ آمریت ہو گئی، ہم جمہوریت چاہتے ہیں، نہیں چاہتے کہ یہاں پر ڈکٹیٹرشپ ہو۔ جہاں تک ٹکٹوں کی بات ہے تو اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا، لہذا اس پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔

ایکسپریس: پانامہ کیس سے علحیدگی کی اصل وجہ کیا تھی، مقدمے کے تکنیکی امور یا پھر پارٹی کی خواہش تھی کہ آپ اس سے علیحدہ ہو جائیں؟

حامد خان: جو بات میں نے عوام کے سامنے کھل کر پہلے بیان کی، آج بھی وہی دہراؤں گا، میں خود اس کیس سے الگ ہوا، کیوں کہ ہم وکیل میڈیا ٹرائل نہیں کیا کرتے اور وہاں پر میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا تھا، ان حالات میں کیس چلانا میرے لئے ممکن نہیں تھا، کیوں کہ ابھی تو کیس شروع ہوا تھا، لیکن یہاں ہر چینل نے اپنی اپنی عدالت لگا لی تھی۔ میرے خیال میں یہ مناسب ہی نہیں کہ جو کیس عدالت میں ابھی چل رہا ہے، اس پر تبصرہ کیا جائے، ہر دوسرا اینکر جج بنا ہوا ہے اور مہمان وکیل بنے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس: تحریک انصاف کا موقف ہے کہ پانامہ کیس ملک و قوم کے لئے لڑا گیا، اگر یہ بات درست ہے توپھر صرف ایک بندے پر اکتفا کیوں کیا گیا؟ پانامہ میں تو اور بھی کئی بڑے نام ہیں۔

حامد خان: دیکھیں! ہونا تو سب کا چاہیے ، کیوں کہ پی ٹی آئی کا یہ موقف نہیں ہے کہ باقیوں کا نہ ہو، لیکن شروع تو اس سے ہونا ہے، جو سب سے بڑے عہدے پر بیٹھا ہے، جیسے امریکا میں واٹر گیٹ سکینڈل کے بارے میں بہت سارے کیوز تھے، لیکن سب سے پہلے بھگتنا تو صدر نکسن نے تھا، کیوں کہ وہ سب سے بڑے عہدے پر بیٹھا تھا، اس پر ہی ساری ذمہ داری آتی تھی، اور Terms of Reference بناتے وقت یہ بحث ہماری چلی ہے، ن لیگ والے کہتے تھے کہ دیکھیں جی آپ تو صرف ایک بندے پر زور دے رہے ہیں، لیکن ہم نے کہا کہ وہ عام آدمی نہیں، ملک کا سربراہ ہے، اگر اس کا احتساب ہو جاتا ہے، تو باقیوں کا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

ایکسپریس: ’’اپنا چیف جسٹس آ رہا ہے‘‘ کے بیان کے بعد پانامہ کیس کے فیصلے کو بحیثیت قانون دان کس طرح دیکھتے ہیں؟

حامد خان: میرے خیال میں یہ بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، کیوں کہ ایسا کوئی کہہ نہیں سکتا، چیف جسٹس اپنا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ایسا کوئی بیان عمران خان نے دیا ہے نہ انہیں دینا چاہیے۔

ایکسپریس: اشاروں کنایوں میں عدالت سے ’’منصفی‘‘ کے جو سوال کئے جا رہے ہیں، اس کی روشنی میں پوچھنا چاہوں گا کہ عدالت پر کیا واقعی دباؤ محسوس ہو رہا ہے؟

حامد خان: بات یہ ہے کہ یہ تو ن لیگ کی پالیسی ہے کہ وہ اب تصادم چاہتی ہے، عدالت سے ٹکراؤ چاہتی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی زیادتی کی بات ہے، عدالت کو آزاد رہنے دیا جائے، ججز کو متنازع نہ بنایا جائے، عدالت کو متنازع نہ بنایا جائے۔ تو ن لیگ والوں کی یہ اب سیاسی حکمت عملی لگ رہی ہے، کیوں کہ وہ ان سب چیزوں کا سامنا نہیں کر پا رہے۔ یہ ان حقائق کا سامنا نہیں کر پا رہے، جو نیب کیسز میں ان کے سامنے آ رہے ہیں، اس لئے ان کی یہ حکمت عملی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عدالت کو متنازع بنا دیا جائے، تاکہ جب اس کے فیصلے آئیں تو وہ بھی متنازع لگیں۔

ایکسپریس: صرف آج ہی نہیں پانامہ کیس سے قبل بھی عام رائے یہ تھی کہ عدالت کو سیاسی فیصلوں سے دور رہنا چاہیے کیوں کہ اس سے ادارے کے تقدس و احترام پر انگلیاں اٹھتی ہیں، لیکن مذکورہ کیس میں گارڈ فادر، سیسلین مافیا جیسے الفاظ کے استعمال پر آپ کی کیا رائے ہے؟

حامد خان: یہ جن الفاظ کا آپ ذکر کر رہے ہیں،

ان کا ایک سیاق و سباق ہے، اِن کو گارڈ فادر یا سیسلین مافیا نہیں کہا گیا۔ یہ تو فیصلے میں ایک کوٹیشن دی گئی کہ ’’بڑی بڑی دولتیں جو بنتی ہیں، ان کے پیچھے کرائم ہوتا ہے‘‘ اور یہ کوئی انہونی بات نہیں، بعض اوقات عدالتی فیصلوں میں ایسی کوٹیشنز کا ذکر ہو جاتا ہے، لیکن اس سے اب یہ سمجھ لینا کہ یہ انہیں کہا گیا ہے تو یہ غلط ہے، میرے خیال میں اس کو اس طرح نہ دیکھا جائے۔

ایکسپریس: آج کل الیکشن کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے، کوئی ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی بات کر رہا ہے تو کوئی تاخیر سے الیکشن کے دعوے کر رہا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

حامد خان: پاکستان کی تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے تو بہت تشویش ہے، جو کچھ میں آج کل دیکھ رہا ہوں۔ میرے نزدیک تو صورت حال بڑی گھمبیر ہے، بہت ساری قوتیں ایسی سرگرم ہو چکی ہیں، جو نظام کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہیں اور میں مسلم لیگ ن کو بھی ان قوتوں میں شامل کرتا ہوں، کیوں کہ یہ دیدہ دانستہ طور پر اس وقت ایسے حالات اور تنازعات پیدا کر رہے ہیں کہ جس سے کوئی غیر آئینی اقدام ممکن ہو جائے، تاکہ انہیں جس ٹرائل کا سامنا ہے، اس سے وہ نکل جائیں اور مظلوم بن جائیں۔ تو یہ صورت حال بڑی افسوسناک ہے کہ ایک پارٹی حکومت بھی چلا رہی ہے اور وہ اپوزیشن بھی بن رہی ہے اور مظلوم بھی بننے کی کوشش کر رہی ہے، میرے نزدیک تو یہ بڑی Unfortunate صورت حال ہے۔ اچھا یہاں میں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ اگر خدانخواستہ سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہوئی تو وکلاء برادری سیسہ پلائی دیوار بنے گی، وکلاء برادری کسی غیرآئینی اقدام کو قبول نہیں کرے گی۔

ایکسپریس: آپ کے تجزیے کے مطابق مستقبل قریب میں کیا امکانات ہیں؟

حامد خان: امکانات تو بہت سارے ہو سکتے ہیں، کیوں کہ ان سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے، اور بہت سارے لوگ شائد اس پر آس لگائے بیٹھے ہوں، لیکن پاکستانی تاریخ کے بارے میں میرے غیرمعمولی تجربے کے مطابق یہاں کوئی فوجی حکومت آج تک کامیاب نہیں ہو سکی، لیکن پاکستان کا نصف سے زائد عرصہ فوجی حکومتوں کے دور پر ہی مشتمل ہے، اس لئے یہاں پر جو لوگ اس قسم کی آس لگائے بیٹھے ہیں، ان کو شائد پاکستان کی تاریخ کا علم نہیں اور نہ ہی وہ ان نتائج سے باخبر ہیں، جو فوجی حکومتوں کی وجہ سے ملک میں پیدا ہوتے ہیں، تو کسی صورت بھی کوئی غیر آئینی یا آئین سے ماورا کام نہیں ہونا چاہیے۔

ایکسپریس: ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سابق حکمران خاندان کے ساتھ وہ قانونی تقاضے پورے نہیں کئے جا رہے، جو ایسی صورت حال میں عام آدمی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ آپ کیا کہیں گے؟

حامد خان: دیکھیں! کہنے کو تو بہت سی باتیں ہوتی ہیں، لیکن آپ دیکھیں کہ اگر انہیں عدالتوں کا پابند کیا جا رہا ہے تو یہ ایک اچھی چیز ہے، تاہم انہیں اگر سکیورٹی کے حوالے سے تھوڑی بہت ڈھیل دی جا رہی ہے تو یہ سمجھ میں آتی ہے، اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی ایشو ہے، اصل ایشو یہ ہے کہ کیا ان کی پراسکیوشین ٹھیک ہو رہی ہے، کیا عدالت آزاد ہے، کیا وہ اپنے وقت کے اندر اپنے مقدمات مکمل کر لے گی اور صیحح فیصلہ سنانے کی پوزیشن میں ہے کہ نہیں؟ یہ کوئی ایشو نہیں ہے کہ فلاں ملزم کے ساتھ کتنے لوگ اور کتنی گاڑیاں آ گئی ہیں۔ میرے خیال میں یہ فضول باتیں ہیں۔

ایکسپریس: تو آپ کے خیال میں پھر عدالت ان کیسز کو درست سمت میں لے کر چل رہی ہے؟

حامد خان: ہاں! عدالت تو درست سمت ہی چل رہی ہے، اس نے تو فرد جرم بھی عائد کر دی ہے، ان سے مچلکے بھی لے لئے ہیں۔ البتہ یہ ان کو نہیں چلنے دے رہے، بارہا یہ کبھی کسی کو غیر حاضر کر دیتے ہیں تو کبھی کسی کو، پھر عدالت پر دباؤ ڈالنے کے لئے بہت سوں کو لے آتے ہیں، بعض اوقات عدالت کے اندر شور شرابا کر دیتے ہیں، جس سے ججز اٹھ کر اندر چلے جاتے ہیں، یہ کوشش کر رہے ہیں، ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت ان مشکل حالات میں صیحح معنوں میں ٹرائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایکسپریس: وکلاء تحریک سے وطن عزیز میں انصاف کا بول بالا اور قانون سب کے لئے برابر کا جو خواب پاکستانیوں نے دیکھا وہ شائد پورا نہ ہو سکا، وجوہات کیا بنیں؟

حامد خان: آپ درست کہہ رہے ہیں کہ اس میں کمی بیشی تو ہے، لیکن میرے خیال میں اس تحریک کے بعد بحال ہونے والی عدالت پہلے کی نسبت زیادہ آزاد ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو شائد پانامہ کیس کا بھی فیصلہ نہ آتا، اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ ہم نے اس جدوجہد کے نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ افتخار چودھری صاحب نے بڑا کام کیا، دیکھیں! دو وزیراعظم فارغ ہوئے ہیں، عدلیہ کی بحالی کے بعد، تو یہ میرے نزدیک ترقی ہے،عدالت طاقت ور ہوئی ہے۔ تاہم ہم قیاس آرائیاں کرنے کے عادی ہیں کہ عدلیہ خود طاقت ور ہوئی ہے یا اس کو کسی نے طاقت ور کیا ہے، لیکن جو بات سامنے ہے وہ یہ ہے کہ آج کی عدلیہ پہلی کی نسبت زیادہ طاقت ور ہے۔

ایکسپریس: ججز کے تقرر کے طریقہ کار اور اہلیت کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

حامد خان: ججز کی تقرری کا نیا طریقہ کار تو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے متعارف کروایا گیا ہے، لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ بھی کوئی تسلی بخش نہیں، جس میں بہت سی خامیوں کا اندیشہ ہے اور غلطیاں ہوئی بھی ہیں، اچھے ججز کو فارغ کر دیا گیا، لیکن بعض ایسے تھے، جنہیں فارغ کیا جانا چاہیے تھا، انہیں نہیں کیا گیا، تو اس میں غلطیاں بہت سی ہو رہی ہیں، لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ جوڈیشل کمیشن والا آئیڈیا پہلے والے طریقہ کار، جس میں صرف دو ججز (چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف ہائی کورٹ) کے پاس ہی اس کا اختیار تھا، سے بہتر ہے، کیوں کہ اس کمیشن میں صرف ججز ہی نہیں کچھ وکلا اور حکومت کی نمائندگی بھی ہے، تو یہ نظام پہلے والے سے بہتر ہے، گو ابھی تک اس کمشین سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے، جس کی ضرورت ہے۔ لہذا میرے خیال میں ججز کی تقرری کے حوالے سے مزید کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

ایکسپریس: عدالتی نظام میں نظریہ ضرورت کی بات کریں تو جسٹس کارنیلئیس (جن سے آپ کا بہت قریبی اور گہرا تعلق تھا) جیسے انتہائی معتبر اور بااصول جج بھی یحی خان کے دور میں وزیر قانون بن گئے، تو ایسے میں معاملات کیسے بہتر ہو پائیں گے؟

حامد خان: وہ ان کی زندگی کی ایک بڑی غلطی تھی، جس کو کبھی کبھار وہ ہمارے سامنے مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے یہ علم نہیں تھا کہ یحییٰ خان بعد میں یہ سب کچھ کرے گا، بصورت دیگر ان کی ساری زندگی بڑی شفاف ہے، ان کی وجہ سے ملک میں بہت سارے لوگوں کو سول لیبرٹی ملی۔

ایکسپریس:سپریم کورٹ بار کی بات کریں تو آپ کا مخالف دھڑا مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے، ہم عرصہ دراز سے آپ اور آپ کے گروپ کی کامیابیوں کا سنتے آئے ہیں، لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا، اس بار بھی آپ کا امیدوار ہار گیا، کیا کہیں گے؟

حامد خان: میرے خیال میں تو ایسی صورت حال نہیں، آپ صرف ایک بار یعنی سپریم کورٹ بار کی بات کر رہے ہیں، لیکن باقی ہائی کورٹ بارز مسلسل ہم جیت رہے ہیں، اسلام آباد، لاہور، سندھ اور بلوچستان بار بھی کئی سالوں سے پروفیشنل گروپ ہی جیتتا آ رہا ہے، تو یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ سپریم کورٹ بار بعض اوقات مینج ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس میں محدود نمبرز ہوتے ہیں اور وہاں ایشوز بنائے جاتے ہیں، کبھی پلاٹس کا اور کبھی کچھ اور۔ اسے میں دھاندلی تو نہیں کہتا، لیکن یہ مینج ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر جو دیگر بار ایسوسی ایشنز ہیں، اس میں لاء آفیسرز کی تعداد کم ہوتی ہے، یعنی اگر وہاں سو ووٹ ہے تو اس میں لاء آفیسرز کے پانچ ووٹ بھی نہیں ہوں گے، لیکن سپریم کورٹ بار میں ان کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، اب ووٹ کا یہ وہ گروپ ہے۔

جو حکومتیں کنٹرول کر جاتی ہیں۔ اچھا ہمیں سپریم کورٹ بار میں گزشتہ چند سالوں سے جو دشواری پیش آ رہی ہے، اس کے دو بڑے محرکات ہیں، ایک تو حکومت ہے، جس کی وجہ سے لاء آفیسرز کے تمام ووٹ حکومت کے حمایت یافتہ امیدوار کو پڑ جاتے ہیں اور پھر اس میں وہ وکیل بھی شامل ہیں، جو اداروں سے مفاد حاصل کرنے والے ہوتے ہیں، یہ ہوتے تو دیگر بارز میں بھی ہیں، لیکن ان کی تعداد وہاں زیادہ نہیں ہوتی۔ اب آپ حالیہ انتخابات کو ہی دیکھ لیں، جس میں سو سے زیادہ تعداد تو لاء آفیسرز کی تھی۔

دوسرا 2009ء میں ایک فیصلہ آیا تھا، جس کی وجہ سے اس وقت سو سے زائد ججز اس سے متاثر ہوئے، کیوں کہ انہوں نے غیرآئینی حلف اٹھایا ہوا تھا، اور میں اس کیس میں پرنسپل کونسل تھا، لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ ان کو فارغ کیا جائے، ہم نے تو کہا مشرف کے جو غیرآئینی اقدامات ہیں، ان کو ڈکلئیر کیا جائے، لیکن جب یہ ججز اس کیس کے فیصلے سے متاثر ہوئے تو آج تک ہمیں اس کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اور دوسری طرف مخالف گروپ نے بھی انہیں دوبارہ جج لگوانے کا جھانسہ دے کر ہمیں نقصان پہنچایا، حالاں کہ ان کی فراغت میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ تاہم ان سب چیزوں کے باوجود ہم نے پچھلے سال سپریم کورٹ بار کا الیکشن جیتا اور جب ہارتے بھی ہیں تو بہت کم مارجن سے۔

ایکسپریس: وکلاء کی ججز سے تلخ کلامی اور حتی کہ بدتمیزی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ اس صورت حال کو بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟

حامد خان: یہ چیزیں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں، جو پہلے اتنی کھل کر عوام میں نہیں آتی تھیں، لیکن اب میڈیا کی وجہ سے کھل کر عوام میں آجاتی ہیں، ورنہ تو یہ سلسلے دہائیوں سے چلتے آ رہے ہیں، توہین عدالت کے نوٹسز بھی جاری ہوتے تھے۔ اور دوسرا میں آپ کو بتاؤں کہ بدتمیزی دونوں طرف سے ہوتی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ صرف وکیل بدتمیزی کرتے ہیں، ججز بھی کرتے ہیں۔ دیکھیں! برداشت کا مادہ تو پورے ملک میں ہر جگہ کم ہوتا جا رہا ہے تو اس کا اثر عدالتوں پر بھی پڑ رہا ہے، لیکن ابھی بھی نوے فیصد وکلاء ایسے ہیں، جو ججز کی بدتمیزی برداشت کرکے ان کی عزت کرتے ہیں۔

اچھا پھر جو بدکلامی کرتا ہے، اس کو وکیل بھی پسند نہیں کرتے۔ میرے نزدیک میڈیا کوریج کی وجہ سے یہ تاثر بڑھ گیا ہے کہ وکیل آپے سے باہر ہو گئے ہیں، لیکن ایک حقیقت ضرور ہے کہ اتنے زیادہ لاء کالجز کھل گئے ہیں، جہاں سے آنے والے ہزاروں طلباء کو یہاں کھپایا نہیں جا سکتا، کیوں کہ اتنی گنجائش نہیں، اور اسی وجہ سے وکلاء کی تربیت بھی نہیں ہو پا رہی۔ پہلے تو چیمبرز میں نوجوان وکیل کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی، وہاں وہ اپنے سینئرز سے سیکھتا تھا کہ آپ کے خلاف بھی فیصلہ آئے تو خاموشی سے آ جاؤ، آپ کے پاس اپیل کا راستہ ہے، لڑنا نہیں ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ تربیت کے فقدان کے باعث ایسے کچھ واقعات ہو رہے ہیں۔

ایکسپریس:پاکستان کی تاریخ میں سیاسی صف بندی کسی ایک طرف حد تک نظریاتی بنیادوں پر استوار رہی ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قوم پرست مثال کے طور

پرخان اچکزئی، میر حاصل بزنجو اور اسفندیارولی، عاصمہ جہانگیر، نجم سیٹھی اور امتیاز عالم جیسے سیکولر، لبرل لوگ بھی ن لیگ کے ساتھ ہیں اور دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت اہلحدیث جیسی دینی جماعتیں بھی ان کے کیمپ میں ہیں۔ اس صورتحال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔

آپ کی بات بالکل صحیح ہے، میرے خیال میں اسے اسی طرح دیکھنا چاہیے جیسے میں اسے دیکھتا ہوں۔ تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو ہمارے روایتی طور پر بائیں بازو کے لوگ تھے وہ سوویت یونین کے گرنے کے بعد ایک طرح سے سیاسی یتیم ہوگئے۔ انہوں نے اپنا قبلہ تبدیل کرکے ماسکو سے واشنگٹن کو بنالیا۔ تو جن کا آپ ذکر کررہے ہیں جو ہمارے ہاں 1991ء سے پہلے لفٹیٹس اور سوشلسٹ سمجھے جاتے تھے وہ اب دوسری طرف چلے گئے ہیں۔ اس میں کچھ چیزوں کو بڑا مثبت بھی سمجھتا ہوں۔

یہ اچھی بات ہے کہ بلوچستان کی کچھ قوم پرست جماعتیں پاکستان کی ایک وفاقی سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ ان سے علیحدگی پسندی کے رجحانات میں اضافے کا خطرہ بنا رہتا تھا۔ محمود خان اچکزئی کی جماعت بلوچستان کے پشتونوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسی طرح بزنجو صاحب کی پارٹی بھی قوم پرستی کے رجحانات کی حامل جماعت ہے اور بلوچوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اگر یہ جماعتیں مسلم لیگ نواز، جوکہ ایک قومی جماعت ہے، کے ساتھ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رائے تو بدل سکتی ہے، کل کو یہ جماعتیں ممکن ہیں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں، مثبت یہ ہے کہ اس سے فیڈریشن مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔ اسی طرح اے این پی کی یہ شناخت تھی کہ وہ پشتون قوم پرست جماعت ہے، اس میں علیحدگی پسندی کے رجحانات ہیں، اس میں افغانستان کے حوالے سے پختونستان کی سوچ کی باتیں کی جاتی تھیں تو اس حوالے سے تبدیلی آنا ایک خوش آئند بات ہے۔

سیاست کے حوالے سے افسوسناک بات میں یہ سمجھتا ہوں کہ ضیاء الحق نے جو اثرات چھوڑے وہ تباہ کن ہیں۔ ضیاء الحق نے اس ملک کو Depoliticize یعنی غیر سیاسی بنایا اور اس کے اثرات آج بھی ملک میں موجود ہیں۔ اب یہ نواز لیگ کیا ہے۔ یہ جماعت اور اس کی ساری لیڈر شپ ضیاء الحق کی پیداوار ہے۔ نواز شریف ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ میں جنرل ضیاء الحق کا مشن پورا کروں گا۔ وہ کون سا مشن تھا جسے وہ پورا کرنا چاہتے ہیں؟ اس شخص نے تو اس ملک کو نفرت، انتہا پسندی اور انتشار کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اسی انتشار کی سیاست کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال ہو یا سیاست، اسی دور کے اثرات آج تک جاری  ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا سامنے آرہا ہے۔

یہ ایک Chain Effect کی طرح ہے۔ ایک نظریاتی پارٹی تھی، پاکستان پیپلزپارٹی، ماضی میں آپ بھٹو صاحب کی سوچ کو دیکھ لیں یا کسی حد تک بعد میں بینظیر کے دور میں بھی یہ سوچ رہی لیکن اب یہ پارٹی تحلیل ہوکر محض مفادات کی سیاست تک محدود ہے۔ پیپلز پارٹی ن لیگ کے نقش قدم پر چل نکلی ہے۔ زرداری صاحب کسی بھی طور ایک نظریاتی لیڈر نہیں ہیں۔ اس کا لامحالہ اثر پی ٹی آئی پر بھی آرہا ہے۔ اسی سوچ کے حامل لوگ پی ٹی آئی میں بھی داخل ہوچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان نظریات کو چھوڑو کیونکہ یہ نظریاتی لوگ کچھ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اہم بات یہ ہے کہ سیاست میں آکر فائدہ کیسے اُٹھانا ہے، اقتدار کس طرح حاصل کرنا ہے۔ اس سوچ نے ہمارا سارا سیاسی کلچر تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قطع نظر اس بات سے کہ کون کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، مفاد پرستی کی سوچ نے پاکستانی سیاست کو خراب کیا ہے۔

ایکسپریس: ابھی آپ نے جنرل ضیاء الحق کا ذکر کیا ہے تو جب بھی جنرل ضیاء الحق کا ذکر ہوتا ہے ساتھ بھٹو صاحب کا ذکر بھی لازمی ہے۔ چند دن پہلے ہم نے ایس ایم ظفر صاحب سے بات چیت کی تھی وہ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہیں، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟۔

حامد خان: بھٹو کیس جن حالات میں ہوا ہے اس پر میری تحریر موجود ہے جو میں نے اپنی کتاب، پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ میں لکھی ہے۔ میں نے تو یہی کہا ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ تعصب پر مبنی تھا اور اپیل پر جو فیصلہ ہوا وہ بھی تعصب پر مبنی تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ بھٹو پر مقدمہ منصفانہ انداز میں چلایا گیا تھا۔

ایکسپریس: آپ کی دو کتابیں Political and Constitutional History of Pakistan اور A History of Judiciary in Pakistan اپنے موضوعات کے حوالے ایسی ہیں کہ انہیں صرف انگریزی سمجھنے والے مختصر سے مخصوص طبقے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہیے۔

حامد خان: میری یہ خواہش ہے کہ ان کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ کتابیں انتہائی کامیاب رہیں۔ یہ نصاب میں بھی شامل ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے میں نے کوشش کی ہے کہ ہماری تاریخ میں جو جھوٹ بولے گئے ہیں انہیں درست انداز میں لوگوں کو دکھایا جائے۔ یہ بات ہمارے نوجوان طبقے تک پہنچنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتابیں عوام کے پڑھنے والی ہیں۔ اس ملک میں اس حوالے سے کوئی انفراسٹرکچر ہی نہیں ہے کہ اس طرح کی کتابوں کا ترجمہ ممکن ہوسکے۔ یقین مانیے کہ میں نے بہت سے لوگوں سے بات کی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی ایک تقریب تھی جس میں کسی نے کہا کہ میں پروفیسر ہوں اردو کا اور گجرات یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کا میں سربراہ ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ آپ میری اس کتاب کا اردو ترجمہ کروا دیں۔ انہوں نے جو اخراجات بتائے وہ اتنے زیادہ تھے کہ میں پریشان ہوگیا۔ میں نے کہا کہ میں تو اتنے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے وہ بل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کو بھیج دیا کہ اگر آپ کو اردو ترجمہ شائع کرنے میں دلچسپی ہو تو اخراجات کا تخمینہ یہ ہوگا۔ انہوں نے بھی یہ کہا کہ ہم اتنی رقم دینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ہم اردو ترجمہ چھاپنے میں دلچسی رکھتے ہیں۔ پھر جب جوڈیشل ہسٹری والی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی تو اس کے مہمان خصوصی جواد ایس خواجہ تھے جو خود بھی اردو کی ترویج کا بڑا پرچار کرتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر بھی بہت کچھ کہا۔ ان کے ساتھ بھی چند ایک لوگ تھے جو اردو کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔

جواد خواجہ میرے ساتھ کام بھی کرتے رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میری دونوں کتابوں کے ترجمے کرواکر دیں تاکہ یہ تمام لوگوں تک پہنچ جائیں۔ انہوں نے اردو کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں سے کہا‘ لیکن بعد میں کوئی بندہ قابو نہیں آیا۔ آکسفورڈ والوں کو بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ اگر ہم ترجمہ چھاپنا چاہیں تو چھاپ سکتے ہیں۔

پھر یہ بھی ہے کہ ہماری ریاست کا رویہ اس حوالے سے بہت منفی ہے کیونکہ جو یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ تو چاہتے ہی نہیں کہ سچ عام لوگوں تک پہنچے۔ میرے پاس بہت سے نوجوان جو ایل ایل بی کررہے ہیں آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کی کتاب پڑھ کر حیران ہیں کیونکہ ہمیں تو ساری عمر کچھ اور ہی پڑھایا جاتا رہا ہے۔

مثال کے طور پر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی علیحدگی کی وجہ وہاں کے ہندوؤں کو قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ ہم نے انہیں خود دھکہ دے کر خود سے الگ کیا ہے۔ اس طرح کا سچ سننے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے لیکن وہ نہیں چاہتے کہ عام لوگ حقائق سے واقف ہوں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہے گی کہ ہم یہ بتائیں کہ ایوب خان کون تھا، اس نے کیا کچھ کیا، ملک توڑنے میں اس کا کیا کردار تھا، وہ نہیں چاہیں گے کہ ضیاء الحق کے کردار سے پردہ اُٹھایا جائے۔ ہم تو دراصل اپنی قوم کو جھوٹ پڑھا رہے ہیں۔ جو سچ لکھنے کی کوشش کرتا ہے اسے دبا دیا جاتا ہے۔

آئیڈیل شخصیت
یہ بات میں اس طرح نہیں کہہ رہا جیسے کہ یہ فرض ہوتا ہے کہ ہم کہہ دیں کہ قائد اعظم پسندیدہ شخصیت ہیں۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح میرے آئیڈیل ہیں۔ وہ بہت بڑے ہیرو ہیں۔ میں انہیں غیر معمولی اور سب سے منفرد شخصیت سمجھتا ہوں۔ ایسا شخص جس کی پوری زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں آیا۔ جو مکمل راست گوئی سے بات کرتا تھا، جو ان کے دل میں ہوتا وہی زبان پر بھی ہوتا۔میری ابتدائی تعلیم حیدر آباد میں ہوئی اور میرے ساتھ کافی گجراتی لڑکے پڑھتے تھے، قائداعظم کا تعلق بھی گجرات سے تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ گجراتیوں میں دیانت کا عنصر بہت غالب ہے۔ حالانکہ ان کا پیشہ زیادہ تر تجارت ہے۔ اس کے باوجود یہ بڑے دیانت دار لوگ ہوتے ہیں۔ اب بھی میرے ان کے ساتھ تعلقات ہیں۔ میں کسی گجراتی بزنس مین پر دوسروں کی نسبت آسانی سے اعتبار کرسکتا ہوں۔ گجراتی اگر آپ سے سودا کرے گا تو ہرحال میں اس پر پورا اترے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اور پاکستان دونوں ملک خوش قسمت رہے ہیں کہ انہیں گجرات سے تین بڑے رہنما ملے۔ قائداعظم، گاندھی جی اور ولبھ بھائی پٹیل، پٹیل یقینا پاکستان کا بڑا مخالف تھا لیکن بھارت پر اس کے بڑے احسانات ہیں۔ اگر یہ شخص نہ ہوتا تو آج بھارت اس شکل میں نہ ہوتا جس میں ہے۔ آپ دیکھیں کہ تحریک پاکستان کے دیگر رہنما معیار میں قائداعظم کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ یہ بھی نہیں کہ قائداعظم کسی راجہ مہاراجہ کے خاندان سے تھے۔ ایک متوسط گھرانے سے تعلق تھا۔ انہوں نے خود محنت کرکے اپنی زندگی بنائی۔ بیرون ملک تعلیم کے اخراجات وہ خود محنت کرکے پورے کرتے رہے۔ پھر وطن واپس آکر انہوں نے جتنی محنت کی ہے وہ مثالی ہے۔ شریف الدین پیرزادہ سے اس بارے میں پتہ چلا، پھر قائد اعظم کے سیکریٹری کے۔ ایچ خورشید جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں، ان سے میرا بڑا اچھا تعلق رہا ہے، ان سے مجھے قائداعظم کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلا۔

کھیل
کرکٹ پسندیدہ کھیل ہے۔ پروفیشنلی تو نہیں کھیلا لیکن کرکٹ کھیلی ضرور ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کی پہلی کرکٹ ٹیم میں نے بنائی تھی۔ اس وقت میں بار کا سیکرٹری تھا تو اس زمانے میں بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کی ٹیمیں بھی میں نے بنائی تھیں۔ کرکٹ کامعاملہ اب یہاں تک پہنچا ہے کہ ہم نے پاکستان لائیرز کرکٹ ایسوسی ایشن بنائی ہے اور میں اس کا سربراہ ہوں۔

ہم نے اس حیثیت سے اب تک چھ ورلڈ کپ کھیلے ہیں۔ دوسرے ملکوں نے بھی اپنی کرکٹ ایسوسی ایشنز بنا رکھی ہیں۔ بھارت میں تو ان کی تنظیم بہت متحرک ہے۔ برطانیہ میں دو ٹیمیں ہیں، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ، سری لنکا ان سب ملکوں کی ٹیمیں ہیں۔ جب ہماری ٹیم اگست میں ورلڈ کپ کھیلنے سری لنکا گئی تھی تو بنگلہ دیش نے بھی اپنی ٹیم بنالی تھی۔ ہماری ایسوسی ایشن کے جو سیکرٹری جنرل ہیں، ریٹائرڈ جسٹس اسد منیر صاحب، ان کی زیادہ کاوشیں ہیں اس سلسلے میں ہم نے دو دفعہ ورلڈ کپ بھی جیتا ہے۔ ایک دفعہ دہلی میں جیتا اور 2015ء میں ہم نے آسٹریلیا میں ورلڈ کپ جیتا۔

پسندیدہ کھلاڑی
بہت سے کھلاڑی ہیں بشمول عمران خان کے۔ وسیم اکرم بھی ہیں، مشتاق محمد مجھے بہت پسند ہیں۔ مشتاق اور حنیف محمد عظیم کرکٹر ہیں۔ ہم نے تو انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا ہے۔ مشتاق بہت کامیاب کپتان بھی تھے۔ اسی طرح امتیاز احمد، فضل محمود یہ سب پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔
امجد اسلام امجد کلاس فیلو ہیں ان کے ڈرامے دیکھتا ہوں۔ ڈرامہ وارث بہت پسند ہے۔
فلمیں بہت دیکھی ہیں۔ جس زمانے میں پاکستانی فلمیں اچھی بنا کرتی تھیں تو دیکھتے تھے۔ ہماری جوانی کے زمانے میں اچھی فلمیں بنتی تھیں۔انڈیا میں بھی بہت اچھی فلمیں بنی ہیں اسی طرح ہالی ووڈ کی فلمیں بھی ماضی میں زیادہ اچھی ہوا کرتی تھیں۔

کتاب
ول ڈیورنٹ کی گیارہ جلدوں پر مشتمل Story of Civilization اس طرح دوسری جنگ عظیم پر بعض کتابیں کمال کی ہیں۔ اسی طرح Decline and fall of Roman Empire
ادب
اردو لٹریچر سے بہت دلچسپی رہی۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے پسند ہیں۔ کرشن چندر بہت زیادہ پسند ہے۔ ان کی کہانیوں میں جو طنز کا عنصر ہے وہ بہت پُرکشش ہے۔ عصمت چغتائی کی تحریریں بھی پسند ہیں۔ میری عمر کے لوگوں کی تفریح کتابیں ہوا کرتی تھیں کیونکہ اس زمانے میں ٹی وی اتنا حاوی نہیں ہوا تھا۔ انگلش لٹریچر سے بھی بہت شغف ہے۔ تھامس ہارڈی، ڈی ایچ لارنس، چیخوف، ٹالسٹائی، ڈائسٹوفسکی ان سب کو پڑھا ہے۔
شاعری میں علامہ اقبال اور غالب تو عظیم شاعر ہیں ہی ان کے علاوہ ساحر لدھیانوی مجھے بے حد پسند ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔