ارضی ثقل میں تبدیلی سے زلزلوں کی منٹوں قبل پیشگوئی ممکن ہے، فرانسیسی ماہرین

ویب ڈیسک  منگل 5 دسمبر 2017
زلزلوں سے قبل زمین پر ثقلی اثرات میں معمولی تبدیلی ہوتی ہے، ماہرین ۔ فوٹو: فائل

زلزلوں سے قبل زمین پر ثقلی اثرات میں معمولی تبدیلی ہوتی ہے، ماہرین ۔ فوٹو: فائل

پیرس: دنیا بھر میں زلزلوں سے سالانہ ہزاروں اموات ہوتی ہیں اور اب تک زلزلوں کو دنیا میں تیز ترین اموات والی آفت قرار دیا جاتا ہے لیکن اب تک ان کی پیش گوئی محال ہے۔

زلزلے زمین کی چٹخے ہوئے رخنوں (فالٹ) میں حرکت کی وجہ سے آتے ہیں اور اگر چند منٹ قبل بھی ان کی پیش گوئی ممکن ہو تو اس سے لاتعداد قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ فی زمانہ زلزلے شناخت کرنے والے وارننگ نظام زلزلوں کی امواج نوٹ کرتے ہیں جو زمین میں سات سے آٹھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں جبکہ کشش ثقل کے اثرات ایک سیکنڈ میں 3 لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں یعنی اگر سطح زمین پر کششِ ثقل میں ہونے والی معمولی تبدیلیوں کو نوٹ کرنے کا کوئی طریقہ واضع کرسکیں تو اس سے 40 ہزار گنا تیزی کے ساتھ زلزلوں کو محسوس کرنا ممکن ہوجائے گا۔

اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے پیرس میں انسٹی ٹیوٹ آف ارتھ فزکس نے 2011 میں جاپان میں آنے والے زلزلے کے بعد کا جائزہ لیا اوراُس پر تحقیق کی کیوں کہ اس ہولناک زلزلے میں 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے تھے جس کی ریکٹر اسکیل پر پیمائش 9.1 تھی۔

فرانسیسی ماہرین نے کہا کہ جب زلزلے کی موجیں راستے میں ہی تھیں، اس وقت ایشیا بھر کے زلزلہ اسٹیشنوں نے زمین کی سطح پر کششِ ثقل کے اثرات میں تبدیلی نوٹ کی تھی۔ اس کے ایک منٹ بعد جاپان کا بھیانک زلزلہ رونما ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر زلزلے کی لہروں کے بجائے ثقلی اثرات میں تبدیلیوں پر نظر رکھی جائے، تو زلزلوں کی بہتر اور بروقت پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ زلزلے سے صرف ایک منٹ پہلے کی جانے والی پیش گوئی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ فرانسیسی سائنسدانوں نے سطح زمین پر محسوس کی جانے والی ان ثقلی تبدیلیوں کو ’الاسٹک ویوز‘ کا نام دیا ہے جو مناسب انتظامات سے لیس کسی زلزلہ پیما مرکز پر زلزلے سے چند منٹوں پہلے تک مشاہدہ کی جاسکتی ہیں۔

مثلاً اگر کسی زلزلہ پیما مرکز کا فاصلہ زلزلے کے مرکز (ایپی سینٹر) سے فاصلہ 1000 کلومیٹر ہو تو الاسٹک ویوز تو اُس تک فوراً ہی پہنچ جائیں گی لیکن زلزلے کی لہریں ان کے تقریباً تین منٹ بعد اس مرکز تک پہنچ پائیں گی لیکن تب تک لوگوں کو خبردار کرنے کا وقت بالکل بھی نہیں ہوگا۔ یعنی اگر زلزلے کی پیش گوئی کےلیے ہم الاسٹک ویوز سے استفادہ کرنے کے قابل ہوجائیں تو یہ انسانی جانیں بچانے کے ضمن میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی۔

گزشتہ سال پیرس انسٹی ٹیوٹ میں ماہرین کی دو ٹیموں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ان ’’الاسٹک ویوز‘‘ کو نوٹ کرکے زلزلوں کی چند منٹ قبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے سینئر سائنسداں ڈاکٹر مارٹن ویلی کہتے ہیں کہ 2016 میں انہوں نے الاسٹک ویوز اور زلزلے میں تعلق کا ثبوت دیا تھا لیکن یہ تخمینہ اعداد و شمار کی بنیاد پر لگایا گیا تھا جو اُن کی توقعات سے بہت کم تھا۔ لیکن اب 2017 کی تحقیق میں انہوں نے دنیا بھر کے کئی زلزلہ پیما مراکز پر الاسٹک ویوز پر مبنی زلزلے کے سگنل بہت واضح طور پر نوٹ کیے ہیں۔

اب ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ ان سگنلوں کو درست انداز میں سمجھ کر ہم کوئی درست ماڈل بناسکیں۔ اگر مزید کامیابی ملی تو ہم کسی علاقے میں زلزلے آنے سے کئی منٹ پہلے ہی وہاں کے لوگوں کو خبردار کرسکیں گے۔ البتہ یہ نئی تکنیک اس لحاظ سے محدود ہے یہ صرف ان ہی زلزلوں کی (الاسٹک ویوز کے ذریعے) پیش گوئی کرسکتی ہے جن کی ریکٹر اسکیل پر پیمائش 8 یا اس سے بھی زیادہ ہو۔

ابتداء میں اس تکنیک کے ذریعے اُن علاقوں میں تجرباتی طور پر زلزلوں کی پیش گوئی شروع کی جائے گی جہاں ریکٹر اسکیل پر 8 یا زیادہ پیمائش والے زلزلے زیادہ آتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔