بلوچ چرواہے

ببرک کارمل جمالی  ہفتہ 9 دسمبر 2017
بلوچ چرواہوں کی مال و متاع یہ بھیڑ بکریاں ہی ہیں جن کو بیچ کر وہ اپنی روزی روٹی کرتے ہیں۔ (تصاویر بشکریہ مصنف)

بلوچ چرواہوں کی مال و متاع یہ بھیڑ بکریاں ہی ہیں جن کو بیچ کر وہ اپنی روزی روٹی کرتے ہیں۔ (تصاویر بشکریہ مصنف)

ریگستان اور پہاڑوں میں بٹا ہوا بلوچستان مال مویشیوں کی جنت ہے۔ چرتے دوڑتے اور ہانکتے ہوئے جانور دیکھ کر بہت بھلا بھی لگتا ہے اور سوچ بھی جنم لیتی ہے کہ گوادر جیسے شہر کا صوبہ ابھی تک صدیوں پرانی روایات اور پیشوں سے منسلک ہے۔ ان مال مویشیوں کو چرانے والوں کو چرواہے کہا جاتا ہے جو بلوچستان میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ یہ لاوارث لوگ ہی دراصل بلوچستان کے وارث ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے بلوچستان کو مویشیوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے اور یہ پاکستان کی معاشی ترقی میں روز بروز اضافہ بھی کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بلوچستان کی 93 فیصد زمین مال مویشیوں کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے، لیکن پانی کی کمی اور خشک سالی کی وجہ سے چراگاہوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ فی الحال صرف 33 فیصد زمین پیداواری چراگاہوں کےلیے مناسب سمجھی جاتی ہے۔ بلوچستان میں مال مویشی پالنے کا رجحان زیادہ تر وسطی اور مغربی اضلاع میں پایا جاتا ہے۔

میں نے چند مقامی چرواہوں سے اسی حوالے سے بات چیت کی جو نذر قارئین ہے۔

مقامی چرواہے رحمان بروہی نے بتایا کہ میں جب چار سال کا تھا تو میں نے بھیڑوں اور بکریوں کی دیکھ بھال شروع کردی تھی، پانچ سال کا ہوا تو میں خود چرواہا بن گیا۔ چند دنوں تک میں ان بھیڑ بکریوں کو سنبھال نہیں پایا مگر پھر ایک دن مجھے یہ کام بہت اچھا لگنے لگا۔ میں جب دس سال کی عمر کا ہوا تو میں ایک بہت اچھا چرواہا بن گیا۔ میں ان بھیڑ بکریوں کی زبان بھی سمجھنے لگا اور ان کی بیماری تک پہچاننے لگ گیا۔ میری بھیڑیں صبح کی تازہ ہوا میں چرنے کی زیادہ شوقین ہیں۔ صبح چرنے والے جانور ہمیشہ صحت مند رہتے ہیں، یہ ہماری زبان بھی سمجھتے ہیں۔ رحمان نے مظاہرے کےلیے اسی وقت ایک بکری کو اپنے انداز میں بلایا (اڑے واجہ بوکھو روغے) ’’ارے یار کہاں جا رہے ہو؟‘‘ حیرت انگیز طور پر بکری ٹھہر گئی اور رحمان اپنا ہاتھ اس کے سر پر پھیرنے لگا۔

ایک اور چرواہے فرہاد نے بتایا کہ مجھے اب بھی یاد ہے جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ہم بہار کے موسم میں اپنی بھیڑ بکریوں کو چراگاہوں کی طرف لے جاتے تھے، وہ خوب چارہ کھا کھا کر تھک جاتیں تو ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے آرام کرنے لگ جاتیں۔ اِس وقت ہم چرواہے بھیڑ بکریوں کا معائنہ کرنے لگ جاتے تھے کہ کہیں اُن میں سے کوئی بھیڑ یا بکری زخمی یا بیمار تو نہیں۔ اگر ایسا ہو تو ان کا فوری علاج کرواتے اور ان کو ریوڑ سے الگ کر دیتے تھے تاکہ کوئی اور بھیڑ بکری بیمار نہ ہوجائے۔

ایک بوڑھے چرواہے اسماعیل نے بتایا کہ بعض چرواہے بکریوں اور بھیڑوں کو خطرناک راستوں سے لے کر پہاڑوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اِن راستوں میں بہت سی گہری کھائیاں اور نوکیلے پتھر ہوتے ہیں جن سے بھیڑیں اور بکریاں اکثر زخمی ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ راستے میں ہی مرجاتی ہیں؛ حتیٰ کہ ان راستوں پر بھیڑیے بھی ہوتے تھے۔ وہ بھی بھیڑوں پر حملہ کرکے اُنہیں ریوڑ سے دور کر دیتے ہیں اور ان کو کھا بھی جاتے ہیں۔

ایک بوڑھے چرواہے مٹھل نے بتایا کہ رات کے وقت ہم بھیڑوں کی حفاظت کےلیے باڑے بنا لیتے ہیں۔ یہ باڑے کانٹوں سے بناتے ہیں تاکہ رات کے وقت کوئی بھی بھیڑ باہر نہ جائے اور نہ کسی جنگلی جانور کا شکار ہو۔ ہم ان بھیڑوں کی حفاظت کےلیے کتے بھی پالتے ہیں جو ان بھیڑوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہم سب تھکے ہارے چرواہے صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں۔ جس وقت بھیڑوں کو چراگاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں اس وقت دھوپ بہت تیز ہو جاتی ہے جبکہ بھیڑ بکریاں اکثر گرمی کی وجہ سے جلدی تھک جاتی ہیں اور سر جھکا کر اکٹھی کھڑی ہو جاتی ہیں اور ہانپنے لگتی ہیں۔ وہ پیٹ بھر کر کھا بھی نہیں پاتیں جس کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو جاتی ہیں۔ ہم چرواہوں کا روز کا معمول ہے کہ ہر شام جب ہم ان بھیڑ بکریوں کو واپس باڑے میں لاتے ہے تو تمام بھیڑوں کی گنتی کرتے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس سینکڑوں کے حساب سے بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں۔ ہماری مال و متاع یہ بھیڑ بکریاں ہی ہیں جن کو بیچ کر ہم اپنی روزی روٹی کرتے ہیں۔ اصل میں ہم ہی لاوارث بلوچستان کے وارث لوگ ہیں جو توجہ چاہتے ہیں۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔