متضاد اور منافقانہ رویے…

ایک اطلاع کے مطابق ملزم ساون مسیح اور مدعی عمران گہرے دوست بھی تھے۔


ارشد فاروق March 14, 2013

عدالت کا حکم نہ مانا جائے تو عدالت حکم عدولی پر سزا دیتی ہے، خواہ وہ ایک منٹ ہی کی کیوں نہ ہو۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اخوت و بھائی چارے کا درس دیا۔ ان کا درس کسی حکم سے کم نہیں۔ انھوں نے اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کی زبان اور ہاتھ ہے دوسرے لوگ محفوظ نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔ آپؐ کے احکامات کی حکم عدولی کر کے کیا ہم توہین کے مرتکب نہیں ہوتے۔

لاہور کی مسیحی بستی جوزف آباد کی آتشزدگی بظاہر ایک کھلی دہشت گردی ہے، جس میں مسلمانوں کے ایک جنونی گروہ نے اقلیتی عیسائی مذہب کے اہل کتاب بھائیوں کے گھروں اور ان کی املاک کو نذر آتش کر دیا۔ ان کے گھروں کا تمام سازوسامان جلا دیا۔ اس بستی کے مکینوں کی اکثریت خاکروبوں اور انتہائی غریب لوگوں پر مشتمل ہے، جن کے مرد شہر گلیوں سڑکوں کی صفائی اور خواتین خوشحال لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری اور صفائی ستھرائی کر تی ہیں۔ ان کے گھریلو سامان میں ان کی حیثیت کے مطابق ہی اشیاء ہونگی۔ اگرچہ قیمتی نہیں لیکن ان کی ضروریات کے لیے کافی۔

ایک اطلاع کے مطابق ملزم ساون مسیح اور مدعی عمران گہرے دوست بھی تھے۔ ان کے درمیان جو بھی متنازع مذہبی گفتگو ہوئی وہ نشے کی حالت میں ہوئی کیونکہ مبینہ طور پر دونوں ہی شراب پئے ہوئے تھے۔ ملزم ساون مسیح نے مبینہ طور پرجو بھی کہا نشے کی حالت میں کہا۔ ملزم کے مذہب میں تو شراب حرام نہیں، لیکن مدعی عمران کا مذہب شراب پینے کی صورت میں اسے قا بل سزا قرار دیتا ہے۔ علاقے کا تھانیدار، جس نے ہتک ناموس رسالت کا مقدمہ درج کیا وہ بھی ـ''حافظ'' ہے، یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ حا فظ قرآن ہے یا حافظ اس کے نام کا حصہ ہے۔

ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اس علاقے سے ملحقہ لوہے کی ایک بڑی منڈی ہے، جس میں حال ہی میں مارکیٹ کے انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اور ان انتخابات کے امید واروں میں عیسائی اور مسلمان دونوں مذاہب کے مسلمان شامل ہیں۔ علاقے پر قبضہ مافیا کا بھی راج ہے۔ اس لیے اس مبینہ دہشت گردی کو ایک سیاسی پہلو سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اصل کہانی سرکاری تحقیق میں سامنے آ جا ئے گی۔ اس آتشزدگی میں لوگوں کے سامان میں جہاں دیگر اہم دستاویز، مثلاََ نکاح نامے، تعلیمی اسناد، پاسپورٹ، اور دیگر سفری دستاویز شامل ہیں، وہاں عیسائیوں کی مذہبی کتاب انجیل یا بائبل بھی شامل ہیں۔ کیا بائبل کو جلانا ہتک نبی نہیں؟ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا احترام اس لیے بھی کرتے ہیں کہ آپ نے محمد ﷺ کی آمد کی خوشخبری دی تھی۔

ان کی کتاب کو جلانا بھی ہتک نبی ہے۔ اس آتشزدگی نے کیا کیا نہ جلا کر راکھ کر دیا۔ کچھ نوجوان دوشیزائوں کا جہیز بھی جل گیا۔ ان بیبیوں نے کیسے کیسے خواب نہ دیکھے ہونگے؟ ان کے والدین نے کیسے کیسے خواب نہ پروان چڑھائے ہونگے۔ ان کے جہیز کے ساتھ ان کے خواب بھی جل گئے ہونگے۔ ایک شرابی نے ہتک ناموس رسالت کی بھی تھی تو ناموس رسالتؐ کے قانون کے تحت اس ایک شخص کو ہی قانون کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا، اس ساری بستی کو نذر آتش کر دینا ایک پاگل پن اور جنونی کیفیت ہے۔ انتہائی توجہ کا طالب، ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بستی کے مکین اس اندوہناک واقعے سے ایک دن قبل ہی اپنے گھروں کو تالے لگا کر کہیں چلے گئے تھے، جیسے انھیں اس ممکنہ خطرے کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو۔ اسی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اور نہ ہی کسی فرد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن دال میں کچھ کالا ضرور نظر آ رہا ہے۔

ان ساری باتوں کے باوجود میں اس بات کو سمجھنے سے قطعی قاصر ہوں کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب بھی مغربی ممالک توہین رسالت کے قانون کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں، اس کے فوراََ بعد ملک کے کسی حصے میں توہین رسالت کا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے اور پھر ملکی املاک جلائی جاتی ہیں، قومی نقصان کیا جاتا ہے، تعلیمی ادارے بند کر دیے جاتے ہیں، اسٹاک مارکیٹیں خسارے میں چلی جاتی ہیں، دنیا بھر میں پاکستان اور دین اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور ملک میں موجود مغرب کے کٹھ پتلیاں اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں میڈیا پر حاوی نظر آتی ہیں۔ مغربی آوازوں میں بولنے والی خواتین ان میں پیش پیش ہوتی ہیں۔

کیا یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ اس واقعے سے صرف ایک دن قبل برطانوی خبر رساں ادارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے حوالے سے ایک خبر شایع ہوتی ہے کہ انسانی حقوق کے منافی تمام مذہبی اور ہتک مذہب کے قوانین کو ختم کر دینا چا ہیے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کی سفارش کی تھی، لیکن ان کا اشارہ مسلمان ممالک میں توہین ناموس رسالت پر کڑی سزائوں کی طرف ہی تھا۔ کیا اس خبر کا اطلاق یہودیوں کے ہولو کاسٹ قانون پر نہیں ہوتا؟ امریکا کی کئی ریاستوں میں صلیب کے منافی بات کرنے پر موت کی سزا کا قانون موجود ہے، تو برطانیہ میں عمر قید کا۔ دنیا بھر کے یہودی اپنے مذہب کے منافی کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

پاکستان میں توہین ناموس رسالت کا یہ قانون مغرب کی آنکھ کا کانٹا کیوں ہے؟ ہمارے اسکولوں کی دینی کتب کا نصاب کیوں تبدیل کیا جانا چاہیے؟ اس رپورٹ میں پاکستان اور سعودی عرب میں ناموس رسالت کے قانون پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ یورپی یونین اور یورپ کے کئی ممالک انفرادی حیثیت میں اس قانون کی کئی مرتبہ سختی کے ساتھ مذمت کر چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی کئی مغربی اور مغرب زدہ کئی مقامی تنظیمیں اس قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اگر مغرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنیں یا توہین پر مبنی فلمیں، امریکا کے پادری قرآن کے نسخے جلائیں یا جلانے کی دھمکی دیں تو ان کے اس عمل کو'' فریڈم آف اسپیچ یا اپنی رائے دینے کا حق'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہودیوں یا صلیب کے خلاف بات برداشت نہیں کی جاتی۔ اس متضاد اور منافقانہ رویے کو سمجھنا مشکل ہے۔

مغرب میں مدر ٹریسا پر ایک فلم بنائی گئی جس میں وہ اپنی مذہبی عقیدت کے طور پر حضرت عیسیٰ کی تصویر کو چوم لیتی ہے، اس پر لوگوں نے احتجاج کیا تو پورے مغرب میں اس فلم کی نمائش کو روک دیا گیا۔ بعد ازاں اس متنازعہ فلم پر برطانیہ کے ایوان بالا میں بحث کی گئی اور وہاں بھی فلم نہ دکھانے کے فیصلے کی توثیق کی گئی ۔ برطانیہ کے کچھ اراکین پارلیمنٹ نے اتحاد بین المذاہب اور عالمی اخوت کی بات چیت کرتے ہوئے جب ''توہینِ مسیح'' کے قانون کی توسیع کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اسے تمام انبیاء تک پھیلانے کی سفارش کی تو اس رائے کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ عیسائی ایسا نہیں کر سکتے۔ یورپی پارلیمنٹ نے بھی برطانیہ کے اس قانون کو برطانیہ کا داخلی قانونی معا ملہ قرار دے کر اس پر بحث کرنے سے معذرت کر لی۔ مذہبی تفریق اور منافقت کی حد ملاحظہ ہو کہ اسلامی ممالک کو ناموس رسالت کا قانون ختم کرنے کی سفارش کی جاتی ہے اور '' توہینِ مسیح'' اور ہولو کاسٹ جیسے قوانین پر بات کرنے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔

مقبول خبریں